مکرم محمد شہزادہ خان صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 21جنوری 2022ء)

مکرم محمد شفیع خان صاحب کے قلم سے مکرم محمد شہزادہ خان صاحب کا ذکرخیر قبل ازیں 30؍ستمبر2011ء اور 31؍جولائی 2015ء کے شماروں میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔ اسی حوالے سے ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جون 2013ء میں شائع ہوا ہے۔
محترم محمد شہزادہ خان صاحب مرحوم افغانستان کے صوبہ ننگرہار قصبہ بڑوکلاں کے ایک صاحبِ حیثیت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 9 برس کی عمر میں اپنے ماموں کے ہمراہ حصول علم کے لیے کوہاٹ آگئے۔ ماموں انہیں ایک مدرسے میں چھوڑ کر واپس افغانستان چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد مدرسے کے اکثر طلباء کو اُن کے وارثان نے تعلیم حاصل کرنے سے اٹھالیا۔ آپ کو بھی بتایا گیا کہ مدرسے کے مولانا احمد گُل صاحب قادیانی ہوگئے ہیں۔ یہ سُن کر آپ اپنے استاد کے حجرے میں گئے جہاں وہ قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے۔ آپ تلاوت سنتے رہے اور پھر اُن سے قادیانی ہوجانے کی وجہ دریافت کی۔ اس پر مولانا صاحب نے آپ کو احمدیت کی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اسی طرح روز کوئی نہ کوئی نئی بات آپ کو معلوم ہوتی تو سعید فطرت ہونے کی وجہ سے آپ نے اپنے استاد سے کہا کہ آپ کو بھی قادیان لے جائیں۔ لیکن انہوں نے آپ کی عمر چھوٹی ہونے کا عذر کیا۔ آخر وہ 1910ء میں آپ کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی بیعت کی اور ساری زندگی اس بات کا قلق رہا کہ حضرت امام مہدیؑ کی زیارت سے آپ محروم رہے تھے۔
بیعت کے بعد آپ واپس کوہاٹ نہیں گئے اور نہ کبھی اس کی تمنّا کی۔ قادیان میں رہ کر پہلے مولوی فاضل کیا اور پھر اورینٹل کالج لاہور سے OT کرکے زندگی وقف کردی۔ پہلے دعوت الی اللہ کرتے رہے اور پھر دارالشیوخ کے منتظم مقرر کیے گئے۔ جب قیام پاکستان کے نتیجے میں ہجرت کی تو آپ جامعہ احمدیہ میں استاد تھے۔ چنانچہ پھر احمدنگر میں بھی جامعہ میں استاد کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ لیکن اُس وقت کی کمزور مالی حالت کی وجہ سے اساتذہ میں تخفیف کرنی پڑی تو آپ کو بھی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ لیکن آپ خلیفہ وقت سے دُور جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ آپ کے پاس حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے نسخہ جات تھے چنانچہ آپ نے احمدنگر میں طبّ کی دکان کھول لی۔ یہ دکان نہ چلی تو جلدسازی شروع کی لیکن یہ کام بھی نہ چلا تو سبزی فروخت کرنے لگے۔ حالات ایسے درپیش تھے کہ ساری پونجی ختم ہوگئی اور نوبت فاقوں تک آگئی۔ حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب نے، جو اُس وقت جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے،انہوں نے ایک عالم دین کی یہ حالت دیکھی تو دل پسیج گیا اور آپ کو بلوا بھیجا۔ جامعہ کے تمام اساتذہ کے سامنے محترم مولانا صاحب نے فرمایا کہ ہم نے مشورہ کیا ہے کہ آپ ہر روز ایک استاد کا پیریڈ پڑھائیں گے اورہم اساتذہ اپنی تنخواہ میں سے ایک حصہ آپ کے لیے نکالیں گے۔ اس طرح ہم پر بھی بوجھ نہیں پڑے گا اور آپ کی گزربسر بھی آسان ہوجائے گی۔ آپ نے اپنے محترم ساتھیوں کے جذبۂ ہمدردی کی تعریف کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ مَیں نے رضائے الٰہی کی خاطر اپنا گھربار اور وطن چھوڑ دیا۔ میرا رزق اللہ تبارک تعالیٰ کے پاس ہے، مَیں آپ کے بیوی بچوں کے رزق سے کیوں حصہ لوں۔ چنانچہ باوجود اصرار کے آپ رضامند نہ ہوئے۔
آپ دن میں کھیتوں سے کوئی سبزی ساگ وغیرہ لے آتے اور جنگل سے خشک ٹہنیاں اکٹھی کرکے اُن کی آگ پر پکالیتے۔ رمضان آیا تو جماعت کی طرف سے کچھ رقم فطرانہ میں سے آپ کو ارسال کی گئی جو آپ نے یہ کہہ کر لَوٹادی کہ یہاں ہم سے بھی زیادہ مستحق ہیں، یہ ان کا حق ہے۔
آپ صبر اور توکّل کا دامن تھامے ہر رات ایک چادر زمین پر بچھاکر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باوضو ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے حالات میں بہتری کے لیے دعاؤں میں مصروف ہوجاتے۔ بچے چھوٹے تھے اس لیے نڈھال ہوکر جلد ہی گر جاتے لیکن میاں بیوی نماز فجر تک آہ و فغاں میں مصروف رہتے۔ اخبار الفضل آپ کو بطور خاص نصف قیمت پر جاری تھا۔ جب لمبا عرصہ اس کا بِل نہ دیا جاسکا اور ادارے نے یاددہانی کے خطوط بھجوانے شروع کیے تو بچوں نے مشورہ دیا کہ اخبار فی الحال بند کروادیا جائے لیکن آپ نے اس مشورے سے اتفاق نہیں کیا اور فرمایا کہ جس طرح جسمانی غذا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح روحانی غذا کے بغیر انسان کی روحانی موت واقع ہوجاتی ہے۔
رمضان کے آخری عشرے کا ساتواں روز تھا جب الفضل میں محترم ملک عمرعلی صاحب کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا کہ بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے ایک عالم دین کی ضرورت ہے۔ آپ یہ اعلان پڑھ کر اُن کی رہائش گاہ پر چلے گئے۔ وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے اور کچھ رقم بطور پیشگی اور سفر خرچ دے کر کہا کہ ساری فیملی کو ملتان لے آئیں۔ آپ نے کہا کہ ابھی یہ رقم مَیں لے نہیں سکتا کیونکہ ربوہ کے قرب کو چھوڑ نہیں سکتا۔ میری فیملی یہیں رہے گی اور مَیں دعا کرنے کے بعد اکیلا ملتان جاؤں گا۔ لیکن اپنے جانے کا فیصلہ دعا کے بعد کروں گا اس لیے یہ رقم ابھی نہ دیں۔ محترم ملک صاحب نے فرمایا کہ یہ رقم آپ کے پاس امانت رہے گی۔ آپ اگر آنے کا فیصلہ کریں تو عید کے بعد آجائیں ورنہ مجھے واپس کردیں۔ چنانچہ وہ رات آپ نے پھر خوب دعاؤں میں گزاری اور تسلّی ہونے پر اگلی صبح اُس رقم میں سے سب سے پہلے الفضل کا بِل ادا کیا اور بچوں کے لیے خورونوش کا انتظام کیا۔ اخبار الفضل آپ کی وفات کے بعد بھی تیس برس (آپ کی اہلیہ محترمہ کی وفات)تک صدقہ جاریہ کے طور پر جاری رہا۔
آپ ایک صاحبِ رؤیا و کشوف بزرگ تھے۔ آپ کی ڈائری میں بہت سی روح پرور خوابیں درج ہیں۔ آپ احمدنگر کے قاضی کے طور پر بھی کئی سال فرائض سرانجام دیتے رہے۔ احمدیہ مسجد میں امام الصلوٰۃ اور مدرس بھی رہے۔ آپ کی وفات 1963ء میں ہوئی اور نماز جنازہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے پڑھائی۔ آپ موصی تھے اس لیے تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
آپ کی شادی حضرت امّاں جانؓ کی تجویز پر محترمہ زینب بیگم صاحبہ دختر مولوی غلام رسول صاحب افغان شیرفروش و محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ سے ہوئی۔ محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی رضاعی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ محترمہ زینب بیگم صاحبہ موصیہ تھیں۔ 1992ء میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں