مکرم مرزا اعجاز بیگ صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اکتوبر 2010ء میں مکرمہ امۃ المتین بیگ صاحبہ کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے خاوند مکرم مرزا اعجاز احمد بیگ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 28مئی 2010ء کو سانحہ لاہور میں شہید ہوگئے۔
آپ تحریر کرتی ہیں کہ میرے خاوند محترم مرزا اعجاز احمد بیگ صاحب نہایت ہی شریف الطبع اور نیک انسان تھے۔ ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھنے والے اور دکھ سکھ میں ساتھ دینے والے تھے۔ مَیں اور بچے ان کی کمی تا زندگی محسوس کرتے رہیں گے۔ میری پریشانی میں اس طرح سمجھاتے کہ جیسے کسی مسیحا نے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو۔ آپ ایک بے خوف اور نڈر قسم کے انسان تھے۔ بڑے باہمت اور باحوصلہ تھے۔ کسی بھی قسم کی پریشانی یا مشکل سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ اب بھی جب کبھی مَیں زیادہ غم میں مبتلا ہوتی ہوں تو مجھے ایسا احساس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ کہیں میرے آس پاس ہی موجود ہیں اور مجھے دلاسہ دے رہے ہیں۔
اعجاز صاحب ایک صابر اور شاکر انسان تھے۔ بہت بڑی بڑی باتوں پر درگزر کر جاتے تھے اور یہی کہتے کہ میرا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔
ہماری شادی کو ابھی سات آٹھ دن ہی گزرے تھے کہ باہر دروازہ پر دستک ہوئی۔ اعجاز صاحب نے دروازہ کھولا اور ایک بوڑھے شخص کو اندر بلالیا۔ مجھے کہنے لگے کچھ کھانے کے لئے ہے تو انہیں دے دو۔ مَیں نے انہیں کھانا دیا تو اُس آدمی نے مجھے بتایا کہ جب اُس کی بیٹی کی شادی تھی تو انہوں نے جہیز میں ضروری سامان بھی دیا تھا۔ جب وہ جانے لگے تو آپ نے ان کو ڈبل رضائی ، تکیہ اور گدا باندھ کر دے دیا اور کہا کہ انہیں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ حالانکہ ہم لوگ خود تنگدستی میں زندگی بسر کر رہے تھے۔
مجھ سے چھوٹے بھائی بہن کا رشتہ اور شادی کے تمام تر انتظامات آپ نے سنبھالے۔ تین چار سال قبل میرے بہنوئی روزگار کے سلسلہ میں سعودی عرب چلے گئے تو آپ مجھے کہنے لگے کہ جب ہم سیر کے لئے جایا کریں گے تو ان کے بچوں کو بھی ساتھ لے جایا کریں گے تاکہ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ ہمارے والد یہاں نہیں ہیں تو اب ہمیں کوئی گھمانے پھرانے کے لئے بھی نہیں لے کے جاتا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا جاتا۔
شہید مرحوم نمازوں کوبڑی عمدگی سے ادا کرتے تھے۔ اکثر وبیشتر نماز تہجد بھی ادا کرتے تھے۔ کئی بار رات کو میری آنکھ کھلی تو آپ کمرہ میں نہیں تھے۔ جب میں دیکھنے کے لئے اٹھی تو صحن میں نماز تہجد ادا کرتے اور سجدہ ریز ہوکر گڑ گڑاتے ہوئے دعائیں کرتے پایا۔
ہمارے دو بیٹے (بعمر نو سال و ساڑھے سات سال) ہیں اور دونوں تحریک وقف نو میں شامل ہیں۔ آپ ہمیشہ بچوں کو نماز کی طرف توجہ دلاتے رہتے اور یہ بھی کہتے کہ اگر میں نہیں بھی ہوں گا تب بھی تم لوگوں نے نماز نہیں چھوڑنی۔ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے رہنا۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچے پانچوں نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو یاد کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ بابا نے کہا تھا کہ نمازیں آپ نے باقاعدگی سے ادا کرتے رہنا ہے۔
جماعتی عہدیداروں کا بہت احترام تھا۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ اگر مَیں موجود نہ ہوں تو صدر حلقہ سے ضرورت کی بات کہہ دینا۔ ویسے آپ خود اپنی ساری مشکلات اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے تھے اور مَیں گواہ تھی کہ ان کے سب کام خودبخودہو جایا کرتے تھے۔ مَیں نے بھی ان کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہونا چھوڑ دیا تھا اور اپنے ہر معاملہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ کر پُرسکون ہو گئی تھی اور آج میں خود دیکھ رہی ہوں کہ واقعتہً سب کام خودبخود ہو رہے ہیں۔ آپ کی شہادت کو ابھی آٹھ دس دن گزرے تھے میں نے آپ کو خواب میں دیکھا۔ خواب میں مجھے اس بات کا علم ہے کہ اعجاز صاحب کی شہادت ہو چکی ہے اور اعجاز صاحب کو بھی علم ہے کہ ہم خواب میں ملاقات کر رہے ہیں۔ جیسے معمول کے مطابق میں ہر کام آپ سے پوچھ کر کرتی تھی اسی طرح خواب میں بھی گھریلو معاملات پر بات کر رہی تھی تو مجھے کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی جو کچھ کر رہا ہے۔ تم اُسے کرنے دو تم خاموش رہو اور اپنے سارے کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ پھر اپنے دل کی بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ تم لوگوں سے دُور جانے کو میر ادل نہیں کرتا اور ویسے بھی میں تم لوگوں میں موجود ہوتا ہوں اور تم لوگ جو بھی باتیں کررہے ہوتے ہو میں سن رہا ہوتا ہوں۔ باتیں کرتے کرتے مَیں نے اٹھ کر مٹی کے گھڑے سے ایک گلاس میں پانی لے کر پی لیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میری طبیعت میں ایک سکون سا تھا اور خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں