مکرم مرزا عجاز بیگ صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 جون 2011ء میں مکرمہ طاہرہ بیگ صاحبہ کے قلم سے اُن کے بھائی مکرم مرزا اعجاز بیگ صاحب شہید لاہور کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے
اکتوبر 1971ء میں مکرم مرزا اعجاز بیگ صاحب کی ولادت ہوئی۔ آپ کُل آٹھ بہن بھائی تھے۔ چند سال کے تھے کہ والدہ کی وفات ہوگئی اور آپ کی بہن (مضمون نگار) نے شہید مرحوم کی پرورش کی ذمہ داری نبھائی۔
شہید مرحوم کی والدہ مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ قادیان میں پیدا ہوئیں۔ بہت نیک اور خداترس سادہ طبیعت کی مالک تھیں۔ حضرت مرزا احمد بیگ صاحبؓ کی پوتی اور محترم مرزا دین محمد صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ جبکہ شہید مرحوم کے والد محترم مرزا محمد انور بیگ کا تعلق لنگروال سے تھا۔ محترم مرزا دین محمد کے بیٹے اور حضرت مرزا اکبر بیگ صاحبؓ کے پوتے تھے جنہوں نے گیارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی تھی۔
محترم مرزا محمد انور بیگ صاحب کو احمدیت سے عشق تھا اور ہر قسم کی جانی و مالی قربانی کے لئے تیار رہتے۔ بڑے نڈر اور بے خوف تھے۔ تبلیغ کا ایک جنون تھا۔ آپ کے دونوں بیٹوں نے بہادری اور بے خوفی اپنے والد سے ورثہ میں پائی اور بچپن سے ہی نماز باجماعت اور خدمت دین میں مستعد ہوگئے۔
مرزا اعجاز احمد بیگ صاحب کی آواز بہت اچھی تھی۔ نظمیں خوش الحانی سے پڑھتے۔ اذان بہت اچھی دیتے۔ بہت سادہ دل اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ مکرمہ امۃالمتین صاحبہ سے شادی ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے دو بیٹے عطا فرمائے جو تحریک وقف نو میں شامل کئے۔ شہید مرحوم کچھ عرصہ سے صاحب فراش تھے اور فکرمعاش کے ستائے ہوئے بھی تھے لیکن اس کے باوجود کبھی مایوسی اور ناامیدی کی بات نہیں کی۔ ایسے میں بھی بچوں کو تحفے دیتے اور خوشیاں بانٹتے رہتے۔ دوسروں کی مدد پر دل سے آمادہ رہتے۔ چنانچہ مضمون نگار کے شوہر عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد جب سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے تو شہید مرحوم یہی کہتے رہے کہ آپ سب لاہور میرے گھر میں آجائیں، مِل کر رہیں گے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ شہادت سے کچھ روز قبل جب مَیں لاہور گئی تو وہ میرے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگا اور بار بار کہا کہ مجھ سے اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو معاف کر دیں۔ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا۔ مَیں نے کہا کیا پاگل ہوگئے ہو۔ جب کوئی بات کوئی شکایت ہے ہی نہیں تو تم ایسی باتیں کیوں کررہے ہو۔ لیکن جب تک مَیں نے یہ نہیں کہا کہ’ اچھا تمہاری سب کردہ ناکردہ غلطیوں کو معاف کیا‘ تب وہ چپ ہوا۔ اس کا یہ رویّہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ کاش مجھے علم ہوتا کہ آنے والے دنوں میں کیا قیامت آنے والی ہے۔ مجھے تو بس یوں لگا تھا جیسے ننھا منا اعجاز کسی خوف سے گھبرا کر میری گود میں چھپ کر رو رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں