مکرم ملک محمد دین صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شہدائے احمدیت سے متعلق اپنے خطباتِ جمعہ میں مکرم ملک محمد دین صاحب مرحوم کو بھی شامل فرمایا جو ساہیوال کیس میں اسیرراہ مولیٰ ہونے کے دوران وفات پاگئے تھے۔
محترم ملک محمد دین صاحب ’’فیض اللہ چک‘‘ کے ایک نواحی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والدکا نام فقیرعلی تھا۔ تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان ساہیوال شہر میں آباد ہوا۔ آپ 1940ء کے لگ بھگ پولیس میں بھرتی ہوئے اور 1976ء میں انسپکٹر پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اکتوبر 1984ء میں ساہیوال کی احمدیہ مسجد پر حملے کے واقعے کے بعد جن گیارہ بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا اُن میں سے ایک آپ بھی تھے۔ آپ کو رات کے وقت دھوکہ دے کر آ پ کے گھرسے پولیس نے اس حال میں گرفتارکیا کہ آپ کو جوتا تک پہننے کی مہلت نہ دی اور اس کے بعد سات سال تک آپ ساہیوال اور ملتان کی جیلوں میں اسیر رہے۔ اس دوران پیرانہ سالی میں آپ نے طرح طرح کی صعوبتیں بڑی خندہ پیشانی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ برداشت کیں۔ آپ کو 1985ء میں جب فوجی عدالت کی طرف سے 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تو آپ نے بے اختیار کہا کہ 75 سال تو میری عمر ہوچکی ہے اب 25 سال مزید کہاں میں قیدوبند میں رہوں گا!۔
آخر نومبر 1991ء میں سات سال قیدوبند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے جیل ہی میں آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے شہادت کاعظیم مرتبہ پا لیا۔ مرحوم نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں جو سب شادی شدہ، صاحب اولاد اور خوش حال ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں