مکرم منصور احمد صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ نبیلہ پروین صاحبہ کے قلم سے ان کے بھانجے مکرم منصور احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالحمید جاوید صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مکرم منصور احمد صاحب شہیدلاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ آپ کی شادی مکرمہ مبارکہ صاحبہ سے ہوئی جن سے ایک بیٹی اور تین بیٹے ہوئے۔ سانحہ لاہور کے وقت بڑی بیٹی سات سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا صرف آٹھ ماہ کا تھا۔چاروں بچے تحریک وقف نَو میں شامل ہیں۔شہید مرحوم اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دیتے۔ بچوں کو بہت سی نظمیں زبانی یاد کروائی ہوئی تھیں۔ نمازیں بھی پڑھاتے۔
شہید مرحوم بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ نظر کی کمزوری کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے لیکن بے حد محنتی تھے۔ سکول کی تعلیم مکمل کرکے اپنی نانی کی خدمت کے لیے کراچی چلے گئے۔ پھر چند سال بعد اپنی والدہ کی خدمت کے لیے لاہور واپس آگئے۔ آپ کی والدہ کہتی ہیں کہ میرا بیٹا بہت احساس کرنے والا اور خیال رکھنے والا تھا، میری ہر بات پر اُس نے ہمیشہ ’اچھا امی‘ ہی کہا۔
شہید مرحوم لاہور کے ایک دفتر میں ملازم تھے۔ اپنے احمدی ہونے پر فخر کرتے۔ صوم و صلوٰۃ کے بہت پابند تھے۔ شہادت سے ایک روز پہلے دو نئے سوٹ لائے اور پوچھنے پر بتایا کہ جمعے پر پہن کر جاؤں گا تو ثواب زیادہ ہوگا۔ جمعے کے روز صبح سے ہی تیاری میں لگ جاتے۔ دفتر سے چھٹی لے کر نماز پڑھنے جاتے اور پہلی صف میں بیٹھنے کی کوشش کرتے۔ اکثر اپنے دفتر کے ساتھی کے ہمراہ جمعہ پڑھنے جاتے تھے لیکن سانحہ والے دن اُس سے کہنے لگے کہ تم ہمیشہ مجھے دیر کروادیتے ہو اس لیے آج مَیں جلدی جارہا ہوں، تم بعد میں آجانا۔ چنانچہ جاکر حسب معمول پہلی صف میں بیٹھ گئے۔ شدید زخمی حالت میں اپنی والدہ اور اہلیہ کا فون آنے پر اٹھالیا اور حالات کا بتایا، آکر مدد کرنے کے لیے کہا اور اہلیہ سے یہ بھی کہا کہ بچوں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ دہشتگرد جب پہلی صف کے سامنے والے دروازے سے داخل ہوا تو اس نے گرنیڈ پھینکا جو سامنے کھڑے ہوئے منصور شہید میں پیوست ہوگیا۔ ساتھ ہی اُس نے شدید فائرنگ کی جس سے بجلی بند ہوگئی اور دھواں پھیلنے سے اندھیرا ہوگیا۔ مَیں باہر کی طرف بھاگا تو منصور کی آواز آئی کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ مَیں پیچھے کی طرف مُڑا تو اُسی وقت ایک دہشتگرد نے خودکُش جیکٹ پھاڑ کر زوردار دھماکہ کردیاجس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔
شہید مرحوم کی والدہ کہتی ہیں کہ حملہ ختم ہونے کے بعد کا وقت ہمارے لیے بہت دردناک اور تکلیف دہ تھا۔ اتنے احمدیوں کی شہادت اور اپنے بیٹے کا سوچ کر بہت پریشانی تھی۔ مَیں ساری رات اپنے بیٹے کو ہسپتالوں میں ڈھونڈتی رہی۔ یہ امید تھی کہ شاید وہ زخمی حالت میں مل جائے۔ جب تھک کر گھر آگئی اور جائے نماز بچھاکر دعا کرنے لگی کہ اے خدا! ایک بار میرے بیٹے کی شکل تو دکھادے۔ اُس وقت ہسپتال سے میرے بڑے بیٹے نے فون کیا کہ منصور احمد شہید ہوگئے ہیں۔ تب مَیں نے اپنے بیٹے کی شکل دیکھ لی۔ بہرحال مَیں خدا کے فیصلے پر راضی ہوئی کہ میرے بیٹے کو شہید کا درجہ دیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا: امّی موت ہو تو شہید کی ہو۔
اُس کی شہادت کے بعد اُس کا چھوٹا معصوم بیٹا اپنے بابا کے دفتر سے واپس آنے کے وقت اُن کے کمرے میں جاتا ہے اور مسکراکر باہر نکل کر کہتا ہے کہ بابا اندر ہیں۔ ایک دن سخت گرمی میں بجلی بند تھی جب وہ بچہ اندر کمرے میں جاکر سوگیا۔ اُس کی والدہ اُس کو باہر لائیں تو روتے ہوئے اپنی توتلی زبان میں شکوہ کیا کہ مجھے کیوں لے کر آئی ہیں، مَیں تو بابا کے ساتھ سو رہا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں