مکرم مہر مختار احمد سرگانہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 نومبر 2009ء میں مکرمہ ر۔ اختر صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم مہر مختار احمد سرگانہ صاحب آف باگڑسرگانہ ضلع خانیوال کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم مہر مختار احمدسرگانہ 1937ء یا 1938ء میں باگڑسرگانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا حضرت مہر محمد اعظم صاحبؓ نے 1902ء میں ایک خواب کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی توفیق پائی تھی۔ آپ اُن کے بڑے بیٹے محترم مہر محمد یار صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپ کے والد پکے احمدی تھے، تعلیم یافتہ اور علاقہ کے نمبردار تھے اس لئے دنیاداری کے جھمیلوں میں زیادہ مصروف رہتے۔ البتہ گھر میں دینی اور علمی ماحول تھا۔ والدہ بھی مخلص احمدی اور بہت پرہیزگار خاتون تھیں۔
محترم مہر مختار احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ سکول سرائے سدھو سے میٹرک کیا۔ پھر گورنمنٹ اسلامیہ کالج بہاولپور سے انٹر کیا اور فیصل آباد سے باقی تعلیم مکمل کی۔
طبیعت میں نفاست تھی، ہر چیزمیں اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ لیکن مزاج میں قناعت اور سادگی ہونے کی وجہ سے راضی برضا رہتے۔ آپ بہت پُرعزم اور باحوصلہ انسان تھے۔ جس کام کے کرنے کا ارادہ باندھ لیتے اس کو کرنے کے لئے دعا اور کوشش انتہا تک پہنچا دیتے۔ بہت نڈر اور بیباک احمدی تھے۔ ایک زبردست داعی الی اللہ تھے جس کی وجہ سے خاندان کے لوگ بھی ہرقسم کی تکلیف پہنچاتے۔ چنانچہ مجبوراً آپ نے اپنا مکان بیچ دیا اور اپنی زمینوں پر آبسے لیکن یہاں بھی ان لوگوں نے پیچھا نہ چھوڑا تو آپ نے اونے پونے زمینیں بیچیں اور ربوہ ہجرت کر گئے۔ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثا لثؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارے حالات بیان کئے تو حضورؒ نے فرمایا کہ ’’آپ واپس چلے جائیں۔ میدان خالی نہیں چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔‘‘ چنانچہ آپ بے سروسامانی کے عالم میں واپس آ گئے۔ کچھ دن اپنے برادرنسبتی کے ہاں رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور تھوڑی سی زمین اسی جگہ مل گئی جہاں پہلے رہائش تھی۔ اس میں مکان تعمیر کرکے رہائش اختیار کرلی۔ لیکن معاشی حالات بہت خراب تھے۔ کاروبار کرنے کی کوشش کی مگر ناتجربہ کاری اور مخالفت کی بِنا پر ناکام ہوگئے۔ تاہم آپ نے تبلیغ جاری رکھی۔ ایسے میں آپ کے ایک چچا نے لالچ دیا کہ اگر آپ احمدیت چھوڑ دیں تو نہ صرف مکان آپ کو واپس دیدیں گے بلکہ خاندان کے لوگ کئی بیگھے زمین بھی آپ کے نام کردیں گے۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ زمین خدا کی ملکیت ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم سب سے بڑھ کر مجھے دے سکتا ہے۔
آپ کی بہت خواہش تھی کہ کسی طرح مسجد تعمیر ہو جائے۔ آمد کا کوئی بڑا ذریعہ تو تھا نہیں۔ کچھ زمین بیچ کر کسی نہ کسی طرح مسجد کا ایک کمرہ تعمیر کر لیا اور اس خوشی میں پھر دعوت کا انتظام بھی کیا۔ کچھ دنوں کے بعد آپ نے خواب دیکھا کہ ایک شدید مخالف شخص کہتا ہے کہ مسجد تو تم نے بنا لی ہے اب اسے گرتے بھی دیکھنا۔ یہ خواب چند دن بعد ہی اُس وقت پوری ہوگئی جب ایک جمعہ کے روز دو اڑہائی سو افراد نے حملہ کرکے مسجد کو منہدم کردیا۔ آپ پر بھی اینٹیں برسائیں اور پوچھتے رہے کہ اب کہاں ہے تمہارا خدا۔ آپ یہ سن کر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھادیتے تو مخالفین قہقہے لگاتے۔ پھر وہ ملبہ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگاکر چلے گئے۔ جلوس کے جانے کے بعد صحن میں کپڑے بچھا کر آپ نے عصر کی نماز پڑھانی شروع ہی کی تھی کہ یکایک بادل آگئے اور بارش شروع ہوگئی۔ تیز بارش میں بھی نماز جاری رہی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو آگ بجھ چکی تھی۔ بچاکھچا سامان آپ نے اپنے بیٹوں اور ایک غیر از جماعت کے ساتھ مل کر باہر نکالا۔ اس کے بعد مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کروائیں اور پھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو اطلاع دینے کے لئے ربوہ روانہ ہوگئے۔ اگلے روز کے جنگ اخبار کے علاوہ BBC نے بھی یہ خبر نشر کی۔
محترم مہر صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل انسان تھے۔ دینی اور دنیوی دونوں قسم کے علوم سے دلچسپی تھی۔ سیاست ، تاریخ، قانون وغیرہ پر کافی دسترس رکھتے تھے۔ پھر زمینوں، زراعت وغیرہ کے بارہ میں بھی بہت کچھ جانتے تھے۔ طب سے خاص شغف تھا اور طب یونانی، ہومیو پیتھک، ایلو پیتھک ہر قسم کی کتابیں ان کے پاس تھیں۔ شاعر بھی تھے۔
آپ کی ایک خوبی خدمت خلق تھی۔ بہت غریب پرور اور ہمدرد انسان تھے۔ رات کو بھی کسی نے بلایا تو چارپائی سے اٹھ کر چل دیتے۔ آپ کی وفات پر کئی غریب لوگ روتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو ہمارا باپ تھا۔ جن لوگوں نے آپ پر ظلم کئے تھے وہ بھی مجبور ہوکر کبھی آپ کے پاس آئے تو آپ نے انہیں اُن کے ظلم یاد کروانے کی بجائے خلوص نیت سے ان کی مدد کی۔ ہمیشہ مظلوم کے حق کے لئے آواز اٹھائی۔ آپ کے ایک بھائی نے کسی غیر آدمی کو زمین بیچی لیکن رقم لے کر بھی قبضہ نہیں دیا تو آپ نے قانونی چارہ جوئی کرکے اُس کی زمین دلوائی۔ بھائی شدید ناراض رہا لیکن آپ سمجھاتے رہے کہ مَیں نے تو آپ کے ساتھ بھلائی کی ہے۔ چند روپوں کے لئے آپ خدا کے قہر کو آواز دے رہے تھے۔ اس زندگی کا بھروسہ ہی کیا ہے جس کے لئے آپ اپنی آخرت تباہ کر رہے تھے۔
آپ نے بے شمار فلاحی کام کئے۔ قصبہ سے باہر اپنی بستی کی بنیاد رکھنے کے بعد غریب لوگوں کو معمولی قیمت پر وہاں جگہ دیں تاکہ وہ مکان بنالیں۔ آپ نے ایک ڈسپنسری بھی کھولی ہوئی تھی جہاں سے ہر غریب ضرورتمند کو مفت دوا ملتی۔ بستی میں بجلی لگوائی۔ قریبی نہر پر پُل بنوایا۔ پکی گلیوں اور نالیوں کی منظوری بھی لی۔ گیس اور ٹیلیفون کی منظوری بھی لے لی تھی کہ آپ کی وفات ہوگئی۔
آپ کی خوابیں اکثر پوری ہوتیں۔ خلافت ثالثہ میں بھی ایک خواب میں آپ نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فوت ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ بنے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور خوابیں بھی پوری ہوئیں۔ چاند پر اترنے والے پہلے شخص نیل آرم سٹرانگ کا نام بھی آپ کو اُس کے چاند پر اترنے سے ایک سال قبل بتا دیا گیا تھا۔
آپ کا اپنے بچوں سے بہت دوستانہ تعلق تھا۔ بیوی سے ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کیا۔ کسی سے کوئی نقصان بھی ہوجاتا تو کبھی ناراض نہ ہوتے۔
آپ کی ایک نمایاں خوبی نظام کی اطاعت تھی۔ خلافت سے گہری محبت تھی۔ مربیان اور دیگر جماعتی عہدیداران کا بہت احترام کرتے۔ آپ لمبا عرصہ ناظم انصاراللہ ضلع، سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور قاضی رہے۔ وفات کے وقت سیکرٹری امور عامہ ضلع تھے۔ مسجد کے انہدام کے بعد اپنے گھر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرتے رہے۔ دوبارہ تعمیر کی شدید خواہش تھی مگر معاشی حالات اجازت نہ دیتے۔ آپ کی وفات کے ایک ہفتے بعد اس مسجد کی دوبارہ تعمیر کی منظوری ملی۔
آپ کی وفات پر جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں تدفین عمل میں آئی۔ لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور جنازہ سے قبل یہ کوائف بیان کئے گئے:
مکرم مہر مختار احمد سرگانہ صاحب (آف باگڑ سرگانہ ضلع خانیوال) 27،28 جولائی 2004ء کی درمیانی شب بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ مرحوم ایک نہایت مخلص احمدی کارکن تھے۔ جماعت سے ساری زندگی وفا اور اخلاص کا تعلق رکھا۔ مختلف حیثیتو ں سے لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے رہے۔ زیرک، معاملہ فہم اور اپنے علاقہ میں اچھا اثر و رسوخ رکھنے والے ہمدرد انسان تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں