مکرم میاں عبدالحکیم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 دسمبر 2009ء میں مکرم بشیر احمد شاہد صاحب اپنے دادا مکرم میاں عبدالحکیم صاحب کا ذکرخیر کرتے ہیں۔
مکرم میاں عبدالحکیم صاحب کے آباؤ اجداد کامسکن موضع ڈھڈیاں ضلع امرتسر تھا لیکن آپ کی پیدائش بھمّہ نزد لاہور میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم نیک شاہ صاحب اپنی نیک شہرت کے باعث اپنے علاقہ میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
مکرم میاں عبدالحکیم صاحب کا قد چھ فٹ، رنگ گورا اور سڈول جسم کے مالک تھے۔ خود بھی عالم فاضل تھے اور احمدی ہونے سے پہلے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے کلاس فیلو اور بہت گہرے دوست تھے۔ یہ تعلق اُس وقت ختم ہوگیا جب آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اگرچہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے محبت سے، لالچ دے کر اور آخرکار دھمکیوں کے ذریعہ آپ کو احمدیت سے دُور کرنا چاہا لیکن آپ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔
آپ کو بیعت کی توفیق حضرت مولوی محمد علی صاحبؓ (قادیانی) کے ذریعہ نصیب ہوئی جو آپ کی چھوٹی بیٹی کے سسر تھے۔
مکرم عبدالحکیم صاحب احمدیت قبول کرنے سے پیشتر اپنے گاؤں کی جامع مسجد کے امام الصلوٰۃ تھے۔ فارسی اور عربی کے استاد بھی تھے۔ آپ کو کچھ عرصہ ممبئی میں بطور سکول ٹیچر ملازمت کا موقع بھی میسر آیا تھا مگر اپنی زرعی اراضی کی صحیح نگہداشت کرنے کے لئے اپنی ملازمت کو خیرباد کہہ کر اپنے گاؤں آنا پڑا تھا۔جب آپ نے گاؤں میں اپنے احمدی ہونے کا بتایا اور کہا کہ اب آپ اپنا کوئی اور امام مقرر کرلیں تو سارا گاؤں شدید مخالف ہوگیا۔ خاص کر آپ کا حقیقی نسبتی بھائی جو گاؤں کانمبردار تھا اور اہل حدیث مسلک رکھتا تھا۔
احمدیت قبول کرنے کے بعد جو مخالفت کا طوفان اٹھا اس کا آپ نے بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ گاؤں میں چوری یا فساد وغیرہ کا جو بھی واقعہ پیش آتا اس کی رپورٹ پولیس میں آپ کے خلاف درج کروانے کی کوشش کی جاتی۔ مگر خداتعالیٰ کے فضل سے تحقیق کے بعد آپ کو بری الذمہ قرار دیا جاتا۔ ایسے ہی ایک واقعہ کے بعد آپ نے اپنے نسبتی بھائی سے احتجاج کیا تو اُس نے صاف کہہ دیا کہ یا تم مرزائیت چھوڑ دو یا پھر گاؤں سے نکل جاؤ۔ چنانچہ آپ اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ قادیان چلے گئے اور اپنی زرعی اراضی اپنے ایک تایازاد بھائی کے سپرد کردی (جس کی مالی حالت بہت کمزور تھی)۔ اس بھائی کو کہہ گئے کہ تم اس سے اپنی آمد کا کوئی ذریعہ بنا کر اپنے حالات کو بہتر بنالو۔ مجھے جب ضرورت پڑے گی تو میں یہ زمین آپ سے واپس لے لوں گا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب آپ نے اُس سے اپنی زمین کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اُس نے صاف انکار کردیا۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔ سوائے ایک بڑی بیٹی کے باقی سب بچے احمدیت کے نور سے ہمکنار ہوئے۔
محترم میاں عبدالحکیم صاحب نے قادیان ہجرت کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی دعا سے ایک چھوٹی سی کریانہ کی دکان کرلی جہاں اپنے دونوں بیٹوں کو بٹھادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دکان کو غیرمعمولی برکت دی۔ ایک عرصہ بعد جب کام بہت بڑھ گیا تو حضرت مصلح موعود ؓ نے اس دکان کا نام ’’لاہور ہاؤس‘‘ تجویز فرمایا۔ یہ نام رکھنے کے بعد تو یہ کاروبار اتنا پھیلا کہ آپ نے اپنے دوسرے دونوں بیٹوں کو بلاکر بھی اسی کاروبار میں شریک کردیا۔ پھر حضورؓ کی تجویز پر یہ دکان دن کے علاوہ رات کو بھی کھلی رکھی جانے لگی۔ اس کاروبار میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار برکت عطا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو 49 پوتے، پوتیاں اور نواسے، نواسیوں کی نعمت سے نوازا تھا۔ آپ نے کئی بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کو پڑھنے کا آپ کو عشق کی حد تک جنون تھا۔ اسی طرح حضرت اقدس ؑکا فارسی اور عربی کا بہت سا منظوم کلام زبانی یاد کررکھا تھا۔ کئی بار یہ نظمیں آپ پڑھتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔ آپ کو دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا۔ آپ ہر ماہ اپنے غیرازجماعت عزیزوں کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر حضرت اقدسؑ کے الہامات اور اور زرّیں ارشادات بذریعہ ڈاک بھجوایا کرتے تھے اور اُن کو قادیان کی زیارت کی دعوت دیا کرتے تھے۔
محترم میاں عبدالحکیم صاحب جب آخری بیماری میں مبتلا ہوئے تو تیز بخار کی وجہ سے بہت کمزوری تھی لیکن پوری طرح ہوش میں تھے۔ دس بجے دن کا وقت تھا۔ آپ کے تین بیٹے آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ باتیں کرتے کرتے اچانک رُک گئے اور بیٹوں کو مخاطب کرکے کہنے لگے ایک طرف ہو جائیں، راستہ دے دیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ تشریف لائے ہیں۔ آپ کا چہرہ یکدم خوشی سے چمک اٹھا۔ آپ چند لمحے ہونٹ ہلاتے رہے جیسے حضورؑ سے باتیں کررہے ہیں پھر یکدم خاموش ہوگئے اور آنکھیں بند کرلیں اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
آپ موصی تھے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور کندھا بھی دیا۔ اس موقع پر حضور پُرنور کی خدمت میں جب وفات کے قریب حضرت اقدسؑ کی آمد کا واقعہ بتایا گیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ آپ کے والد صاحب بہت ہی خوش نصیب ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا بابرکت وجود جن کے استقبال کے لئے خود آیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں