مکرم میاں عبدالمجید صاحب بزاز

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍اکتوبر 2011ء میں مکرم آصف مجیدصاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم میاں عبدالمجیدصاحب بزاز کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم میاں عبدالمجید صاحب1931ء میں قادیان کے قریب گاؤں ڈلّہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم میاں محمد مستقیم صاحب نے 1912ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی تھی جبکہ آپ کے تایا حضرت میاں فضل دین صاحبؓ نے 1906ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد مکرم میاں عبدالمجید صاحب کا خاندان حافظ آباد شہر میں سکونت پذیر ہوا۔ بے سروسامانی کی حالت تھی۔ بڑی محنت و مشقت سے زندگی گزرنے لگی۔ سائیکل پر روزانہ قبل از نماز فجر تقریباً 12 میل کا سفر کرنا معمول تھا۔ بلکہ حافظ آباد سے فیصل آباد تک کا ایک سو میل کا سفر بھی ایک عرصہ تک بذریعہ سائیکل کرتے رہے۔
آپ کو فرقان بٹالین میں خدمت کی توفیق بھی ملی جس کے نتیجہ میں آپ نے ’تمغۂ خدمت پاکستان‘ حاصل کیا۔ آپ جماعت احمدیہ حافظ آباد کے سیکرٹری رشتہ ناطہ بھی رہے۔ آپ میں دعوت الی اللہ کا بیحد جذبہ تھا۔ اگرچہ دنیوی تعلیم بالکل نہ تھی لیکن گفتگو بہت مدلّل کیا کرتے تھے جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ آپ اَن پڑھ ہیں ۔
1974ء کے فسادات میں جب گھر کو جلوس نے گھیر رکھا تھا تو اس خوف کی حالت میں بھی آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ آپ کی نیک نامی ایسی تھی کہ اہل محلہ نے اس وقت آپ کا ساتھ دیا اور جلوس کو ناکام جانا پڑا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ میں پکّا احمدی 1974ء میں ہوا تھا۔
خلافت احمدیہ سے عشق تھا۔ اَن پڑھ ہونے کے باوجود MTA پر خلیفۂ وقت کا ہر پروگرام بڑے غور سے دیکھتے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوتا۔ آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ مسجد کافی فاصلہ پر تھی لیکن موسم کی پرواہ کئے بغیر نماز فجر کے لئے بھی مسجد جاتے۔ رمضان کے بعد شوال کے رو ز ے بھی ہمیشہ رکھتے۔ نماز باجماعت کا اتنا خیال تھا کہ آخری بیماری سے پہلے تک نماز جمعہ کبھی نہیں چھوڑی۔ بلکہ جب ہسپتال میں داخل تھے تو جمعہ کے روز ڈاکٹر سے زبردستی چھٹی لے کر جمعہ ادا کرنے گئے۔ گزشتہ 15 سال سے اعتکاف کے لئے بیٹھنا آپ کا معمول تھا۔ اپنے خدا کے ساتھ بہت مضبوط تعلق تھا۔ کبھی کسی مخالفت سے نہ گھبراتے۔ بارہا اظہار کرتے کہ میری اپنے خدا سے بات ہو گئی ہے، میرا فلاں کام اب ہوجائے گا۔ آپ کے ملنے والے یہ اظہار کرتے کہ آپ بہت نیک، وضعدار اور خوش لباس تھے۔ ہمیشہ لوگوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتے۔ جس حد تک ممکن ہوتا ضرورتمند کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی ہمدردیٔ خَلق کا نتیجہ تھا کہ غیراز جماعت احباب آپ کی نمازجنازہ میں بھی شریک ہوئے۔ آپ کی وفات 9ستمبر2011ء کوہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں