مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6؍جنوری 2023ء)

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 26؍دسمبر 2013ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر مکرم شکیل احمد طاہر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

شکیل احمد طاہر صاحب

محترم ناصر احمد ظفر صاحب بہت زیرک، ذہین اور ٹھنڈی طبیعت والے انسان تھے۔کبھی غصے میں نہ آتے بلکہ دوسروں کا غصہ بھی بہت جلد ٹھنڈا کردیتے۔ علاقے کے سرکردہ افراد سے آپ کا گہرا تعلق تھا۔ سیاسی لوگوں کو نصیحت کا انداز بہت شگفتہ اور مزاح پر مشتمل ہوتا۔ ایک دفعہ احمدنگر میں ایک تحصیل دار نے جماعت کے خلاف جلسہ کروانا چاہا تو آپ اُس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں اور سرکاری ملازم کا کام نہیں کہ ایسا جلسہ کروائے جس میں لڑائی کا خطرہ ہو اور خدانخواستہ آپ کے لیے کوئی مصیبت کھڑی ہوجائے۔ یہ بات سُن کر تحصیل دار نے جلسہ منسوخ کردیا۔
آپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ جب بھی کسی سے ملتے تو اُس کی ذاتی اور خاندانی خوبیاں بیان کرتے۔ لوگوں کے سامنے بھی دوسروں کے احسانات کا ذکر کرتے۔ کبھی کسی کی کمزوری دوسروں کے سامنے بیان نہ کرتے۔
جب بھی آپ سے کسی نے مشورہ مانگا تو آپ نے مخلصانہ اور معقول مشورہ دیا۔ کسی نے مدد مانگی تو حتی المقدور اس کا ساتھ دیا اور کبھی انکار نہیں کیا۔ احمدنگر میں سیلاب بھی آجایا کرتا تھا۔ اُن دنوں میں آپ اَن تھک محنت کرتے۔ آپ نے جوش و جذبہ رکھنے والے تیراک نوجوانوں کی ایک ٹیم بھی تیار کی ہوئی تھی جو سیلاب کے دنوں میں لوگوں کے لیے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام بھی کرتے۔
آپ لمبا عرصہ جماعت احمدیہ احمدنگر کے صدر رہے اور اس دوران غیروں کے ساتھ بھائی چارے کا نمونہ بہت اعلیٰ تھا۔ اگر کبھی کوئی جھگڑا ہوتا تو فریقین آپ کو منصف بناتے بلکہ دونوں فریق آپ کو اپنا محسن خیال کرتے چنانچہ بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک بار ہمارے خاندان میں ایک خطرناک لڑائی چھڑ گئی۔ دونوں اطراف سے لوگ لہولہان تھے اور ایک دوسرے کو مارنے پر تُلے ہوئے تھے۔ کسی طرح بھی لڑائی ختم کرنے کو تیار نہ تھے۔ آپ نے بڑی تگ ودو سے اس لڑائی کو حکمت کے ساتھ ختم کروادیا اور معاملات کو پولیس میں بھی نہ جانے دیا اور بعد میں صلح بھی کروادی۔ آپ کی ذہانت اور معاملہ فہمی کا ہر کوئی معترف تھا۔
جماعت کے مخالفین نے ایک بار آپ کے بڑے بیٹے پر جھوٹا الزام لگادیا اور یہ بات ایس پی تک بھی پہنچادی۔ چنانچہ لالیاں کے تھانیدار اُسی وقت گاؤں آگئے۔ آپ نے بڑے تحمّل سے اُنہیں کہا کہ میرا بیٹا کمرے میں بند ہے اور یہ اس کمرے کی چابی ہے۔ آپ انہی لوگوں سے انکوائری کروائیں اور اگر میرا بیٹا قصوروار ہو تو جو مرضی سزا اُس کو دیں۔ جب پولیس نے امام بارگاہ میں مخالفین کے بڑے اکٹھ میں انکوائری کی تو الزام جھوٹا نکلا۔ تھانیدار نے بڑی سختی سے مخالفین کو کہا کہ ایس پی کے پاس جھوٹی شکایت لے کر کیوں گئے تھے۔ لیکن آپ کی عاجزی دیکھیں کہ اپنے بیٹے کو یہ کہتے ہوئے ایک مہینے کے لیے کسی دوسری جگہ بھجوادیا کہ مخالفین یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے کسی قسم کے تکبّر کا اظہار کیا ہے۔ آپ ہمیشہ وہ کام کرتے جو جماعت کے لیے مفید ہوتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں