مکرم ناصر احمد کاٹھگڑی صاحب (عرف بہادرشیر)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 جون 2010ء میں مکرم رانا عبدالرزاق خان صاحب کے قلم سے محترم ناصر احمد صاحب عرف بہادر شیر کے بارہ میں ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

مکرم ناصر احمد صاحب بہت ہی وفادار، سادہ، فرض شناس، مخلص، نڈر اور خلافت کے دیوانے تھے۔ 1928ء میں کاٹھگڑھ میں مکرم محمد علی شاہی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ابھی پانچ سال ہی کے تھے کہ والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ احمدیہ مڈل سکول کاٹھگڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی لیکن تعلیم سے دل اچاٹ ہوگیا اور پڑھائی کو خیرباد کہہ دیا۔
تقسیم ہند کے وقت آپ کی عمر انیس سال تھی۔ ہجرت کے بعد آپ کا خاندان لائلپور کے ایک گاؤں میں آبسا جہاں آپ کے والد صاحب کو اُن کی وراثتی زمین الاٹ ہوگئی تھی۔ پھر آپ فرقان فورس میں بھرتی ہوگئے جس میں آپ کو حسن کارکردگی پر ایک تمغہ بھی ملا۔ فروری 1951ء میں آپ کو آبادکاری سکیم کے تحت ضلع خوشاب کے ایک گاؤں میں 15 ایکڑ زمین مل گئی۔ 1948ء میں آپ کی شادی حضرت چوہدری مظہر خاں صاحبؓ کی بیٹی بسم اللہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔
مکرم ناصر احمد صاحب اپنی مقامی جماعت میں سیکرٹری مال کے علاوہ بھی کئی شعبوں میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ ہر سال جلسہ سالانہ ربوہ میں شوق سے شامل ہوتے۔ آپ صابر، باحوصلہ، نرم زبان استعمال کرنے والے، بااخلاق اور ہنس مکھ نوجوان تھے۔ آپ کبڈی کے اچھے کھلاڑی تھے۔
1962ء میں آپ ربوہ آکر حفاظت خاص میں پہریدار بھرتی ہو گئے۔ فرائض کی ادائیگی دلجمعی سے کرتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے زمینداری کے آپ کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے اضافی ذمہ داری کے طور پر نصرت آباد کی زمینوں کا نگران بھی مقرر کر دیا اور احمدنگر کی زمین بھی آپ کی نگرانی میں دیدی جس سے آمدنی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ اس دوران بہادرشیر کا لقب بھی آپ کو عنایت ہوا۔
بہادر شیر کو جنون کی حد تک خلافت سے پیار تھا۔ اپنے فرائض کو تندہی سے بجالانے کی عادت اور اخلاص اور وفاداری کے اعلیٰ اخلاق نے آپ کو خلیفۂ وقت کی نظروں میں محترم بنادیا تھا۔ کئی اہم اور نازک ذمہ داریاں آپ کے سپرد ہوتی رہیں۔ روزانہ صبح حضورؒ کی زمینوں پر سے دودھ دوہ کر سائیکل پر لاتے اور پھر چیک کرکے قصر خلافت پہنچاتے۔ حضورؒ کے لئے مکھن تیار کرنا، ساگ پکانا، چکی پر آٹا پیس کر دینا اس خدمت کی توفیق آپ کی اہلیہ کو بھی ملتی رہی۔ حضور کی پگڑی کو مایااور کلف لگانا، پگڑی باندھنا،جوتا پالش کرنا،ان سب خدمات کی اکثر توفیق پائی۔
1974ء میں قومی اسمبلی کے دروازے تک بہادر شیر ساتھ ہوتے اورگھنٹوں اپنے آقا کی حفاظت کے پیش نظر منتظر کھڑے رہتے۔ 1980ء کے حضورؒ کے سفر یورپ اور امریکہ میں بہادرشیر بھی قافلہ میں شامل تھے۔ حضورؒ نے اس دورہ کے لئے آپ کو کوٹ پتلون سلواکردیا اور ٹائی بھی دی۔ جو کہ بہادر شیر نے آقا کے حکم کی تعمیل میں زندگی میں پہلی بار زیب تن کی۔
آپ نے کبھی بھی اپنی ڈیوٹی کو مقررہ وقت تک محدود نہ رکھا تھا۔ جب تک (اکثر نصف شب تک) حضورؒ دفتر میں موجود رہتے، ڈیوٹی پر موجود دوسرے پہریداروں کے ساتھ بہادر شیر بھی حاضر ہوتے اور نماز فجر پر اسی طرح چاق و چوبند موجود ہوتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ 1982ء میں حضورؒ نے بہادر شیر کو افسر حفاظت خاص مقرر فرمادیا۔ گویا ایک اَن پڑھ نوجوان کو خلافت کی نظر نے سونے سے کندن بنادیا۔
بہادر شیر کو خلافت رابعہ میں تقریباً نو ماہ خدمت کی توفیق ملی اور 1982ء میں دورہ یورپ میں بھی حضورؒ کے ساتھ سفر کی سعادت ملی۔
22مارچ 1983ء کو آپ حسب معمول احمد نگر سائیکل پر جا رہے تھے کہ آپ کو دل کا دورہ پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ یوم مسیح موعودؑ کے موقع پر جبکہ مسجد مبارک ربوہ میں لوگوں کی کثیر تعداد جمع تھی، حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا، آپ کے چہرہ کو بوسہ دیا اور جنازہ کو کندھا دیا۔ موصی ہونے کی وجہ سے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔
آپ کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ مکرم احمد محمود صاحب مبلغ نائیجیریا بھی آپ کے بیٹے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں