مکرم پروفیسر صادق علی صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4فروری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11دسمبر 2014ء میں مکرم پروفیسر محمد شریف خان صاحب کے قلم سے محترم پروفیسر صادق علی صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

آپ بیان کرتے ہیں کہ صادق مرحوم سے میرا شریک کار ہونے کے علاوہ استاد اور شاگرد کا تعلق بھی تھا۔ 1963ء میں جب میں نے لیکچرار کے طور پر تعلیم الاسلام کالج کو جائن کیا تو صادق تھرڈایئر زوالوجی میں میرے طالبعلم تھے۔ نہایت کم گو، سنجیدہ اور سیانے قسم کے طالب علم تھے۔ جب کوئی مشکل ہوتی بلا جھجک سوال کر لیتے۔ ایم ایس سی باٹنی کے بعد میرے ہمکار ہوئے تو بھی ہمیشہ مجھے استاد کا پروٹوکول ہی دیا۔ آپ بڑے دلنشین انداز میں ہر طالب علم کے لیول پر اتر کر سبق سمجھاتے۔ آپ کے شاگرد ہمیشہ آپ سے خوش رہے۔

چودھری صاحب کو خداداد جرأت رندانہ عطا ہوئی تھی، سوچ سمجھ کر لیکن دو ٹوک بات کرتے جو سننے والے کو بری بھی نہ لگے اور اسے بات سمجھ میں آجائے۔ چودھری صاحب کوجانے کیا کمال حاصل تھا کہ جلسہ سالانہ پر سالہا سال تک قصابوں سے کام لینے کی انتہائی مشکل ڈیوٹی بطریق احسن ادا کرتے رہے۔ قصابوں کی تیز چھری چودھری صاحب کی میٹھی چھری سے سالوں خوشی خوشی کٹتی رہی، گو شت کی کوالٹی بہترین اور ارزاں مہیا ہو تی رہی۔ آپ قصابوں کے ساتھ جلسہ سالانہ سے پہلے منڈی مویشیاں کا چکر لگاتے اور اچھے اچھے جا نور خرید کر ٹرکوں میں لاد کر ربوہ پہنچا دیتے جہاں ان کی خوش خوراکی کا خیال رکھا جاتا، ایک دو ہفتے میں جانور خوب پل جاتے اور مہمانوں سے گوشت کی عمدگی کی رپورٹ ملتی۔
کالج کی nationalizationکے بعد ہمیں کن کن طور و اطوار کے پرنسپل صاحبان سے واسطہ پڑا جو ایک دو نہیں پورے بارہ تھے تو یقین نہیں آتا۔ اب سو چتا ہوں، ہم جو تعلیم الاسلام کا لج میں جاری و ساری محبت و توقیر کے ماحول کے عادی تھے ہمارے لیے یہ کیسا کڑا وقت تھا۔ ہر لمحہ ، ہر دن ہماری نیک نیتی کاامتحان ہوتا۔ اس وقت ہم کالج میں اپنے دن گنا کرتے تھے۔ لیکن صادق جیسے ساتھیوں کی معیت میں یہ وقت بھی گزر گیا۔ ایک لحیم شحیم پرنسپل صبح ایکسپریس ٹرین کے ذریعے سرگودھا سے کالج تشریف لاتے تھے۔ موصوف کو منہ بگاڑ بگاڑ کر اپنے کپڑوں پر اتراتے ہوئے بات کر نے کا شوق تھا اور انہیں Reader’s Digest کا قاری ہو نے پر بڑا فخرتھا۔ ہم ان کی بچگانہ حرکتوں پر ہنستے اوران کی باتوں کو بادل ناخواستہ سنتے اور بر داشت کرتے۔ ایک دن پرنسپل صاحب بھی چھوٹی سی چادر لپیٹے کا لج تشریف لائے۔ جو بھی جاتا اس ’’چادری‘‘ کی تعریف و توصیف سن کر آتا۔ اتفاقاً چودھری صادق بھی کسی کام کے سلسلے میں پرنسپل سے ملنے گئے۔ صاحب نے حسب عادت اپنی چادر کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تو صادق نے برجستہ پنجابی میں کہا کہ یہ چھوٹی سی چُنّی کیا سردی سے بچائے گی۔ یہ سننا تھا کہ جناب پرنسپل صاحب آگ بگولا ہوکر بولے کہ تمہیں بات کرنا نہیں آتی، میں تمہیں ٹرانسفر کروا دوں گا۔ وغیرہ۔ اور پھر اس سلسلے میں دفتری کارر وائی بھی شروع کردی۔ ہم سب پریشان! حضور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا، ارشاد ہوا : ‘‘یہ خود ہی ذلیل ہو گا۔’’ چنانچہ مو صوف نے صادق علی صاحب کی تین دفعہ ٹرانسفر کروائی جو تینوں بار رک گئی۔ آخر چند دنوں بعد خود اسے لاہور سے سیکرٹری ایجو کیشن کو ملنے کا آرڈر پہنچا۔ وہاں کیا گزری، موصوف خود ہی راوی تھے کہ نو بجے سے چھٹی تک مجھے انتظار کرایا اور میں ذلیل و خوار باہر چپڑاسی کے ساتھ بیٹھا بلاوے کا منتظر رہا۔…میری توبہ۔
صادق علی مرحوم 1966ء سے 1999ء یعنی میری ریٹائرمنٹ تک میرے شریک کار رہے، ہمیشہ مجھ سے اور دوسرے اساتذہ سے ان کا سلوک بہترین رہا۔ ان کی یاد ہمیشہ دل کو گرماتی رہے گی، اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور لو احقین کا حامی و ناصر ہو۔ آ مین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں