مکرم چودھری اعجاز نصراللہ خان صاحب شہید اور مکرم میجر جنرل ناصر احمد صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 26 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم حمیداللہ ظفر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم چودھری اعجاز نصراللہ خان صاحب شہید کا تعلق ’داتہ زیدکا‘ سے تھا جو میرا بھی گاؤں ہے۔ یہیں مکرم چودھری صاحب گرمیوں کی چھٹیاں بھی گزارنے آیا کرتے تھے اس لیے بہت قربت تھی۔ آپ نماز باجماعت کا خاص خیال رکھتے۔ قرآن مجید سے بہت لگاؤ تھا اور اکثر تلاوت کیا کرتے تھے۔ نیز مطالعہ کا بھی بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ مَیںنے ایک تقریر تیار کرنے کے لیے مدد مانگی تو گھر بلایا اور قرآن کریم لے آئے۔ کہنے لگے ہر علم کا منبع تو یہی ہے اس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ پھر مختلف آیات بتابتاکر تقریر تیار کرنے میں مدد دی۔ بہت مہمان نواز تھے۔ گھر میں ملازم نہ بھی ہوتا تو خود مہمان کی خدمت میں عار نہ سمجھتے۔ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کی تھی۔ بیرسٹر تھے، وکالت بھی کی اور ملازمت بھی کی لیکن سادگی اور انکساری نمایاں تھی۔ سلسلہ کی بہت خدمت کی توفیق پائی۔ نائب ناظر امورعامہ بھی رہے۔ اسلام آباد کے امیر بھی رہے۔ لاہور کے نائب امیر اور قضاءبورڈ کے ممبر بھی رہے۔ آپ کے والد حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب بھی امیر جماعت لاہور اور قضاءبورڈ کے ممبر رہے تھے۔
لاہور میں مجھے بارہ سال تک مکرم میجر محمد عبداللہ مہار صاحب کے گھر میں رہائش رکھنے کا موقع ملا۔ اُن کی بہو مکرم میجر جنرل ناصر احمد صاحب شہید کی بیٹی تھیں۔اس وجہ سے جنرل صاحب سے بھی وہاں ملاقات رہتی تھی۔ آپ اتنے بڑے عہدے پر رہنے کے باوجود نہایت منکسرالمزاج تھے۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ اس وقت کوئی ملازم نہیں ہے اور مَیں نے زمین میں بیج ڈالنے کے لیے گندم کی بوری لے کر جانی ہے، میرے ساتھ آئیں تاکہ ہم دونوں اسے اٹھاکر گاڑی میں رکھیں۔ چنانچہ مَیں گیا لیکن انہوں نے خود بوری اٹھائی اور ہم دونوں نے اُسے گاڑی میں رکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں