مکرم چودھری حامد سمیع صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4مارچ 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جون 2013ء میں مکرم چودھری حامد سمیع صاحب آف گلشن اقبال کراچی کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ چودھری عبدالسمیع خادم صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا محترم چودھری عبدالرحیم صاحب آف گورداسپور کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے 1924ء میں بیعت کی تھی۔ بیعت کے بعد انہیں اپنے والدین کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اُن کے والد ان کی ہتھیلیوں پر چارپائی کے پائے رکھ کے باندھ دیا کرتے تھے اور خود چارپائی پر سو جایا کرتے تھے اور اس طرح وہ ساری رات اسی حالت میں بندھے رہتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی ہتھیلیوں میں نشان بھی پڑ گئے تھے۔ آخر 1929ء میں پھر یہ لاہور آ گئے اور وہیں رہائش اختیار کرلی۔ حامد سمیع صاحب کی پیدائش بھی لاہور میں ہوئی۔ تعلیمی لحاظ سے یہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کے والد بھی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کی اپنی چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی فرم تھی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 48 سال تھی اور موصی تھے۔ 11؍جون 2013ء کو ان کی شہادت ہوئی جب یہ تقریباً ساڑھے چھ بجے شام اپنی فرم واقع جناح روڈ کراچی سے کار کے ذریعے روانہ ہوئے اور دو غیر از جماعت دوست بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جب یہ اپنے دفتر سے کچھ آگے نکلے ہیں تو موٹرسائیکلوں پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے گاڑی کے دونوں اطراف سے ان پر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔ کم و بیش چھ گولیاں آپ کے ماتھے، کمر اور چہرے پر لگیں جس سے آپ موقع پر شہید ہوگئے جبکہ دونوں دوست شدید زخمی ہوئے۔
شہید مرحوم اپنے حلقے کے سیکرٹری مال بھی تھے۔ پہلے خدام الاحمدیہ اور اب انصاراللہ کے شعبہ مال میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ بڑے خوش طبع تھے، ہمدرد تھے۔ بااخلاق انسان تھے اور ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ انتہائی خیال اور محبت کرنے والے شخص تھے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ بھی، بچوں کے ساتھ بھی، دوسروں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت کا سلوک کرنے والے تھے۔ ان کے صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ شہید مرحوم انتہائی اطاعت گزار طبیعت کے مالک تھے، خاکسار نے مئی میں تحریک کی کہ مئی میں ہی چندے کی ادائیگی مکمل ہو جائے تو انہوں نے فوراً اپنی ادائیگی کر دی بلکہ کچھ زیادہ دے دیا اور اپنی شہادت سے ایک دن قبل موصیان کی میٹنگ کا انعقاد کیا اور بڑے پُر اثر انداز میں وصایا اور چندوں کے نظام کی اہمیت بیان کی۔ اچھے بولنے والے بھی تھے۔ انٹرن شپ کے لیے احمدیوں کی کافی مدد کیا کرتے تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ محترمہ صبا حامد صاحبہ، دو بیٹیاں عروسہ حامد چودہ سال کی، بارعہ حامد سات سال کی اور بیٹا راسخ احمدنو سال کا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں