مکرم چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22؍جنوری 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جنوری 2013ء میں مکرم کیپٹن (ر) محمد ایوب صاحب نے اپنے والد محترم چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 21؍اکتوبر 2011ء بروز جمعۃ المبارک بعمر 80 سال وفات پاکر اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے۔
مکرم چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب 1931ء میں اپنے آبائی گاؤں مونگ (سابقہ ضلع گجرات)میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چودھری خوشی محمد کُلّاصاحب اپنے علاقے کے جانے پہچانے اور ذی اثر زمیندار تھے۔ وہ جنگِ عظیم اول میں بصرہ (عراق) میں زخمی ہوجانے پر جلد گھر آ گئے تھے۔ اس سے پہلے اُن کی والدہ محترمہ شرفاں بی بی صاحبہ نے ایک نہایت مبشر خواب دیکھا تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مونگ میں اُن کے محلّے میں آئے ہیں اور اَنّ تقسیم کر رہے ہیں جو اُن کی ہتھیلی پر بھی رکھ دیا ہے اور انہوں نے اس نعمت کو اپنے چاروں بیٹوں میں اس طرح تقسیم کر دیا کہ زیادہ خوشی محمد صاحب کو دیا اور آخر پر خود بھی ہتھیلی چاٹ لی۔ چنانچہ اس رؤیا کے مطابق خداتعالیٰ کے فضل سے سب احمدیت کی نعمت سے نوازے گئے۔ جبکہ سعیدالفطرت چودھری خوشی محمد کُلّاصاحب کو اپنی برادری میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی۔
محترم چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب اوائل عمر میں ہی فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ ستمبر 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت ہر دو جنگوں میں شرکت کی۔ ستمبر 1953ء میں مکرمہ زینب اختر صاحبہ بنت مولوی نور احمد صاحب مولوی فاضل موضع کالووالی سے آپ کا نکاح ہوا۔ اُس وقت احمدیوں کے خلاف فسادات جاری تھے۔ ان مشکل ایامِ مخالفت میں محترمہ زینب صاحبہ نے اپنی غیر احمدی برادری کے انتہائی دباؤ، تحریص و ترغیب کوردّکردیا اور استقامت سے اپنے فرشتہ سیرت تایا صوبیدار عبدالغنی صاحب (موصی و یکے ازپانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید، منڈی بہاؤالدین) کا ساتھ دے کر اپنا عہدِ بیعت نبھایا۔
چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب نے شاہ تاج شوگر ملز منڈی بہاؤالدین میں کئی سال تک نہایت دیانتداری اور وفاداری سے ملازمت کی۔ آپ نے اپنے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ اکثر کہا کرتے کہ ہماری تعلیم ہی جائیداد ہے اور اسے جتنا خرچ کروگے اُتنی ہی بڑھے گی۔ تعلیم ایک روشنی ہے، جس سے اپنے آپ کو اور اردگرد ماحول کو منور کرتے رہو۔
آپ نہایت محنتی اور ایماندار انسان تھے، نرم خُو اتنے کہ اولاد کو بھی احترام سے بلاتے۔ گھر میں یا باہر کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ کوئی بڑی بات ہوجاتی تو بس خاموش ہو جاتے۔ بڑے ہی حوصلہ والے انسان تھے۔ ہمیشہ پورے نام سے پکارتے تھے۔ مجھے آرمی میں کمیشن ملنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے ربوہ شفٹ ہو گئے جس کا مقصد بچوں کو اچھی تعلیم دلانا تھا۔ اسی دوران حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ مونگ تشریف لائے اور کھانے کا انتظام ہماری حویلی میں کیا گیا۔ آپ نے اس سارے انتظام و انصرام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ہمیشہ اس پر شکر ادا کرتے کہ ایک بابرکت وجود نے یہاں کھانا تناول فرمایا تھا۔
7؍اکتوبر 2005ء کو سانحہ مونگ پیش آیا جس میں فجر کی نماز کے دوران آٹھ نمازیوں کو شہید کر دیا گیا۔ شہداء میں آپ کے چھوٹے بھائی چوہدری محمد اسلم کُلّا شہید اور ان کا جواں سال بیٹا یاسر احمد (پہلا وقفِ نو شہید) بھی شامل تھے جب کہ خاکسار شدید زخمی ہوکر مستقل طور پرمعذور ٹھہرا۔ والد صاحب نے اس موقع پر غایت درجہ صبر و حوصلہ دکھایا۔
آپ اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے اور اُن کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے۔ ہم اگر کہیں دُور بھی ہوتے تو بھی آپ کو بارہا سچے خوابوں کے ذریعے پتہ چل جاتا۔ چنانچہ خط لکھ کر، بذریعہ فون یا خودوہاں پہنچ کر حوصلہ دیتے۔
آپ با ریش، خوبصورت چہرے والے، پابندیٔ وقت کا بہت خیال رکھنے والے، دعا گو شخصیت، نہایت درجہ شفیق اور دھیمی آواز والے دل کے سخی انسان تھے۔ پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ فجر کی نماز کے بعد روزانہ لمبی تلاوت کرتے اور پھر ٹیلی ویژن پر پورا ایک گھنٹہ تلاوت سننا معمول تھا۔ بڑے اہتمام سے خلیفۃ المسیح کا خطبہ ایم ٹی اے پر سنتے اور اس مائدہ کے جاری ہونے پر خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لیے دعا گو ہو جاتے۔
آپ کا ایک نمایاں خلق شکرگزاری تھی، خالق کی بھی اور مخلوق کی بھی۔ کسی نے کوئی معمولی سی بھی بھلائی کی ہوتی تو اسے ہرگز نہ بھُلاتے بلکہ ہمیں بتاتے کہ اس خاندان کا ہم پر یہ احسان ہے اور تم تمام عمرلحاظ رکھنا۔
آپ نے بحرین اور سعودی عرب میں بھی ملازمت کی اور اس دوران آپ کو حج کی سعادت بھی ملی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں