مکرم چودھری ناظر حسین صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 جنوری 2005ء میں مکرم خادم احمد سعید صاحب اپنے والد محترم چودھری ناظر حسین صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 1926ء میں ضلع لائلپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق دیو فیملی سے تھا۔ آپ نے 21سال کی عمر میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔
آپ انگریز کی فوج میں جیپ ڈرائیور تھے۔ جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کے ہاتھوں قید ہوئے اور پانچ سال بعد رہائی ملی۔ اپنی بیعت کا واقعہ آپ یوں بیان کرتے تھے کہ ہمارے گھر کے قریب احمدیوں کی مسجد تھی، بڑے بھائی احمدی ہوچکے تھے جس کی وجہ سے مجھے احمدیت کے بارے میں کچھ معلومات مل چکی تھیں لیکن میں بیعت کرنے کے لئے دل سے تیار نہیں تھا۔ جنگ عظیم میں جب ہماری فوج مغلوب ہوگئی اور ہم مجبوراً پیچھے ہٹے تو ایک بڑا نالہ تھا جسے عبور کرکے ہم نے اپنی فوج سے ملنا تھا۔ جب مَیں نے نالہ پار کرنے کی کوشش کی تو مَیں ایک بھنور میں پھنس گیا۔ جب میں اپنی تمام تر مہارت کے باوجود پانی کے سامنے بے بس ہوگیا اور مزید ہاتھ پاؤں مارنے کے قابل نہ رہا تو میں نے انتہائی اضطراب کی حالت میں خدا کو پکارا کہ اے میرے مولا وہ آدمی جسے تُو نے امام مہدی کر کے بھیجا ہے اور مسیح موعود کا نام دیا ہے، اگر یہ سچا ہے تو مجھے آج اس مصیبت سے نجات بخش دے۔ یہ الفاظ منہ سے نکلے ہی تھے کہ پانی کی ایک سیلابی لہر نے مجھے اس بھنور سے نکال کر اونچے پانی میں پھینک دیا جہاں سے میں آسانی سے نالے سے پار گزر گیا۔ جب مَیں نالہ عبور کرچکا تو مکمل طور پر احمدی ہوچکا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہمیں چونکہ قید کر لیا گیا۔ اور پانچ سال بعد رہائی ملی چنانچہ 1947ء سے کچھ پہلے مجھے احمدیت باقاعدہ قبول کرنے کی توفیق ملی۔
آپ ایک مخلص فدائی احمدی تھے۔ خلیفہ وقت سے آپ کو عشق تھا۔ MTA پر نشر ہونے والا حضور کا خطبہ باقاعدگی سے سنتے۔ آپ کی ربوہ میں آباد ہونے کی خواہش بھی خداتعالیٰ نے پوری کر دی۔ مجھے اکثر شام کے بعد اشد مجبوری کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جماعتی کام کے لئے ہمیشہ بخوشی جانے دیتے۔ ساری زندگی فروتنی، مسکینی اور خوش خلقی سے بسر کی۔ دنیاوی علم نہ رکھنے کے باوجود حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء سلسلہ کا بہت سا منظوم کلام یاد تھا۔
آپ صلح جُو آدمی تھے۔ اگر کوئی جھگڑتا یا ناراض ہوتا تو بھی آپ پہلے اُس کے گھر جاتے اور منالیتے۔ رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ جب ہم ربوہ شفٹ ہوئے تو گاؤں والا مکان آپ نے اپنے بھائی کو بیچ دیا جس نے دوسرے گاہک سے پندرہ ہزار روپے کم دینے تھے۔ مہمان نوازی کا اتنا شوق تھا کہ گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس مقصد کے لئے قرض پکڑ لیتے۔
7جون 2004ء کو آپ کی وفات ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں