میجر جنرل چودھری ناصر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍ستمبر 2010ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم صفدر نذیر صاحب گولیکی مربی سلسلہ نے میجر جنرل (ر) چودھری ناصر احمد صاحب شہید کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم جنرل ناصر صاحب کا تعلق بہلول پور ضلع نارووال سے تھا۔ 1920ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم چوہدری صفدر علی صاحب پولیس میں سب انسپکٹر تھے جو 1930ء میں ڈیوٹی کے دوران شہید ہوگئے۔ وہ بہت خوش مزاج اور کھلے دل کے مالک تھے۔ کہا کرتے تھے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ میرے ڈیرے پر ہر روز ایک کلو نمک خرچ ہو، یعنی خوب مہمان آئیں۔
محترم جنرل ناصر صاحب نے اپنا بچپن اپنے ننھیال (دولت پور۔ پٹھانکوٹ) میں گزارا۔ پٹھانکوٹ سے میٹرک کیا۔ ایف اے فیصل آباد سے کیا اور پھر گریجوایشن کیا۔ جب پولیس اور آرمی کی آفر آئی تو آرمی کو ترجیح دی۔ 1942ء میں بنگلور سے کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم میں برما محاذ پر جنگ میں حصہ لیا۔ 1946ء میں برما سے واپسی ہوئی۔ 1948ء میں ایبٹ آبادمیں بطور کیپٹن تقرر ہوا۔ مختلف مقامات پر متعین رہے اور ترقی کرتے رہے۔
1965ء کی جنگ میں آپ GHQ میں بطور ڈائریکٹر ملٹری آپریشن رہے۔ دوبارہ کوئٹہ بھیجا گیااور نئی 33 ڈویژن بنائی گئی۔ 1971ء میں راجستھان میں زخمی ہوئے۔ بائیں گھٹنے میں گولی لگی۔ زخمی ہونے کے بعد 3،4ماہ بعد ہسپتال سے فارغ ہوئے اور 1975ء میں ریٹائرڈ ہوگئے۔ 1976ء میں لاہور آگئے اور تا وفات ماڈل ٹاؤن میں رہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا 1985ء میں بطور مربی سلسلہ ماڈل ٹاؤن تقرر ہوا ۔ تب سے جنرل صاحب سے ہمیشہ کے لئے دوستی ہوگئی۔ آپ نہایت صائب الرائے اور اصولی آدمی تھے۔ ہر معاملہ نہایت خوش اسلوبی سے طے کرواتے۔ پھر میری تقرری افریقہ میں ہوئی تو واپس آکر بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس بڑھاپے کی عمر میں بھی آپ پانچ وقت نماز مسجد میں ادا فرماتے جبکہ آپ کے دل کا آپریشن بھی ہوا تھا۔ باقاعدگی سے دارالذکر بھی جایا کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ نے ایک بار آپ کو کہا کہ کام کم کر دیں اور اصلاح وارشاد کا کام ہی کسی کو دیدیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اصل کام تو وہی ہے باقی تو بونس ہے۔ مسجد نور کی خوبصورت عمارت آپ کی مرہون منت ہے۔ اس قدر بلند قامت ہونے کے باوجود عاجزی اور انکساری آپ میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
1943ء میں آپ کی شادی محترمہ امۃ السلام صاحبہ سے ہوئی جو کہ خدا کے فضل سے حیات ہیں۔ آپ نے اپنے پیچھے بیوہ محترمہ کے علاوہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔
آپ کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے سیدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11جون 2010ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ راجھستان میں اِن کے گھٹنے میں گولی لگی جو ان کے جسم کے اندر ہی رہی ہے۔ ڈاکٹر اس کو نکال نہیں سکے ۔ اِس حملے کے دوران میں اِن کا پرسنل سیکرٹری بھی زخمی ہوا تھا اُس کو تو اِنہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سے حیدرآباد بھیجا اور خود ٹرین کے ذریعے حیدر آباد پہنچے۔ ڈاکٹر کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دوبارہ چلنے لگ جائیں تو معجزہ ہو گا۔ اس لئے گولی بھی نہیں نکالی کہ خطرہ تھا کہ مزید خرابی پیدا ہوجائے گی۔ لیکن بڑی قوتِ ارادی کے مالک تھے۔ ورزش کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی ٹانگ اس قابل ہو گئی کہ چل سکتے تھے اور پھر اپنی کیٹیگری بھی ’’اے‘‘ کروالی کیونکہ کیٹیگری ’’بی‘‘ میں نوکر مل جاتا ہے (لیکن خودداری کی وجہ سے نوکر لینا گوارا نہ کیا۔ یہی خودداری تھی کہ) ایک دفعہ ڈرائیور کی مشکل پیش آئی تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ اپنی پلٹن سے ڈرائیور مانگ لیں تو جواباً کہا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے، خود ہی خرچ کروں گا۔
بیس سال تک یہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد ضلع لاہور رہے ہیں۔ 1987ء سے لے کر شہادت کے وقت تک بطور صدر حلقہ ماڈل ٹاؤن خدمت سرانجام دیتے رہے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 91سال تھی۔ 1943ء میں نظامِ وصیت میں شامل ہوئے۔ ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت مخلص اور خلافت سے محبت کرنے والے تھے۔ نمازی، پرہیزگار، جماعت کا درد رکھنے والے انسان تھے۔ لاہور کے ایک نائب امیر ضلع مکرم میجر لطیف احمد صاحب ان کو مذاق میں کہا کرتے تھے کہ دیکھو آج جنرل بھی میرے نیچے کام کررہا ہے۔ تو شہید مرحوم ہنس کے کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو اطاعت ہے۔ جب مَیں احمدی ہوں اور جماعت کی خاطر کام کر رہا ہوں تو پھر میجری اور جرنیلی کا کوئی سوال نہیں۔
مسجد نور ماڈل ٹاؤن میں عموماً ہال سے باہر کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اور اس دن جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو ایک دوست نے کہا کہ اندر آجائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ باقی ساتھیوں کو پہلے اندر لے جائیں اور پھر آخر میں خود اندر گئے اور ہال کے آخری حصہ میں لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد لوگ تہہ خانے کی طرف جاتے رہے اور ان کو بھی لے جانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے یہاں ہی رہنے دو۔ اسی دوران دہشتگرد نے ایک گرنیڈ ان کی طرف پھینکا جو ان کے قدموں میں پھٹا۔ گرنیڈ پھٹنے سے نیچے گرے لیکن اس کے بعد اٹھ کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر دہشتگرد نے ان پر فائرنگ کی جس سے گردن میں ایک گولی لگی اور کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کی حالت میں شہید ہوئے۔ بڑی عاجزی سے اور بڑی وفا سے انہوں نے اپنی جماعت کی خدمات بھی ادا کی ہیں اور عہدِ بیعت کو بھی نبھایا ہے۔ شہادت کا رتبہ تو ان کو فوج میں بھی مل سکتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کی کوئی نہ کوئی نیک ادا پسند آتی ہے ۔ ان کی یہ ادا پسند آئی کہ شہادت کا رتبہ تو دیا لیکن مسیح موعود کے ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اور عبادت کرتے ہوئے دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں