نماز کے بعد کی دعائیں اور تسبیحات

قرآن کریم میں آتا ہے: اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورۃالجمعہ:11)
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ نومبر 2011ء میں مکرم صوبیدار محمدرفیق صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں نماز کے بعد کی جانے والی دعاؤں اور تسبیحات کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
نمازوں کے بعد ذکر اور تسبیح کرنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ انسان چونکہ کمزور ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنی کمزوریوں اور سستیوں کی وجہ سے نماز کو کبھی وقت سے بے وقت، کبھی بے توجہی سے پڑھتا ہے اور کبھی نمازوں میں اس کا خیال کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے۔ اس واسطے حکم ہے نماز کا سلام پھیرنے کے ساتھ ہی معاً استغفار پڑھ کر اپنی کمزوریوں اوراگر نماز میں کوئی نقص رہ گیا ہے تو اس کی تلافی خدا سے چاہے اور آئندہ کے واسطے بطریق احسن عبادت کرنے کی توفیق چاہے۔
حضرت مسیح موعودؑ سے جب کسی شخص نے تسبیح گِن کر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپؑ نے فرمایا کہ گنتی پوری کرنے والا توجہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو خدا تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گِن کر لیا کرتا ہے!؟
اسی طرح ایک صاحب کی طرف سے نماز کے بعد 33 بار اللہ اکبر وغیرہ پڑھے جانے کے متعلق دریافت کرنے پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا۔ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذّت سے یاد کرتا ہے اُسے شمار سے کیا کام!۔ جب تک ذکرِ الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذّت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے، حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ نے جو 33 بار فرمایا وہ زمانی اور شخصی بات ہوگی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگاتو آپؐ نے اسے فرمادیا۔ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں، یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں