نمک کا استعمال – جدید تحقیق کی روشنی میں

نمک کا استعمال – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

انسانی جسم کے لئے نمک کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ غذا کے ہضم ہونے کے بعد جب توانائی پیدا ہوتی ہے تو نمک کے ذریعے ہی یہ توانائی سارے جسم میں پھیل جاتی ہے۔ نمک کی مدد سے ہی اعصاب دماغ تک مختلف پیغامات پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح جسم میں پٹھوں کو پھیلنے اور سکڑنے کے قابل رکھنے کے لئے بھی نمک کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ ہمارا دل بھی پٹھوں میں ہی شامل ہے اس لئے دل کی کارکردگی، نمک کی بھی مرہون منت ہے اور ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو روزانہ اڑہائی سو سے پانچ سو ملی گرام تک نمک کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر جسم میں نمک کی مقدار زیادہ ہوجائے تو گردے زیادہ مقدار میں پانی خارج کرنے لگتے ہیں جس سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دل کو زیادہ زور لگاکر یہ خون جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانا پڑتا ہے اور اس طرح بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔ اگر طویل عرصے تک خون کا یہ دباؤ بڑھا ہوا رہے تو خون کی نالیوں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ بھی متأثر ہوجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دل کی بیماریوں اور فالج کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند بالغ افراد کو ایک دن میں 2300ملی گرام سے زیادہ نمک قطعاً استعمال نہیں کرنا چاہئے اور خصوصاً ایسے افراد کو اِس مقدار سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے جن کے ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ جن لوگوں کو ہائی بلڈپریشر ہونے کا امکان ہوسکتا ہے، اُن میں موٹے افراد، رنگدار قومیں اور ایسے افراد شامل ہیں جن کے خاندان میں کسی کو ہائی بلڈپریشر، فالج یا دل کی بیماری ہوچکی ہو۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جو لوگ ہائیپرٹینشن یعنی ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہوچکے ہیں، اُنہیں روزانہ پانچ سو ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
طبّی ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں دواؤں کی بجائے فطری طور پر اپنے بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کے ہر دس سال کے بعد Systolic بلڈپریشر میں قدرتی طور پر چار پوائنٹس کا اضافہ ہوجاتا ہے چنانچہ تمام بالغ افراد کو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ غذا میں نمک کی مقدار بھی کم کردینی چاہئے۔ یعنی پچاس سال سے زیادہ عمر کے صحتمند افراد کو روزانہ 1500 ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال نہیں کرنا چاہئے جبکہ 70 سال سے زائد عمر کے صحتمند افراد کے لئے یہ حد 1200ملی گرام ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ نمک اور سوڈیم دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عام خوردنی نمک میں چالیس فیصد سوڈیم اور ساٹھ فیصد کلورائیڈ ہوتا ہے۔ لیکن ایسی غذا جسے پروسس کرکے محفوظ رکھا گیا ہو، اُس میں سوڈیم کی مقدار کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ چنانچہ سوڈیم سے بچنے کا ایک آسان طریق یہ بھی ہے کہ پراسسڈ فوڈ کی جگہ تازہ غذائی اشیاء استعمال کی جائیں جو نہ صرف سوڈیم کی زائد مقدار سے پاک ہوتی ہیں بلکہ ریشے، وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھی مالامال ہوتی ہیں۔
بلڈپریشر کو کم کرنے میں سوڈیم کی کمی کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم کی مقدار میں کسی قدر زیادتی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پوٹاشیم ویسے تو زمین کے نیچے اُگنے والی سبزیوں، بہت سے پھلوں اور پالک جیسی سبز پتوں والی سبزیوں میں پایا جاتا ہے لیکن طبّی ماہرین نے جب بلڈپریشر پر قابو پانے کے لئے سوڈیم کی یومیہ مقدار کم کرنے کی سفارش کی تھی تو پوٹاشیم کی یومیہ مقدار 3500ملی گرام سے 4700ملی گرام تک بڑھادینے کا مشورہ بھی دیا تھا کیونکہ متعدد تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پوٹاشیم سے لبریز غذائی اشیاء کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے نتیجے میں بلڈپریشر اوسطاً تین پوائنٹس کم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوٹاشیم ہمارے جسم میں سوڈیم کے اثرات کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
امریکی ماہرین غذائیات نے کہا ہے کہ مشہور فاسٹ فوڈ کمپنیوں کے کھانوں میں نمک کی مقدار معمول سے زیادہ پائی جاتی ہے جو بالغوں کے لئے تجویز کردہ نمک کی مقدار سے دوگنی اور بچوں کے لئے تجویز کردہ نمک کی روزانہ مقدار سے چار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ماہرین نے 346 کھانوں اور مشروبات نیز 264 اقسام کی دیگر خوراک میں نمک کی موجودگی کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ بعض کھانوں میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ پائی گئی جتنی کہ سمندری پانی میں ہوتی ہے اور صحت کے لئے نہایت نقصان کا باعث بنتی ہے۔
ڈونر کباب یا شوارما دنیا کے اکثر حصوں میں کثرت سے کھائے جاتے ہیں لیکن برطانیہ میں کئے جانے والے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اِن میں نمک، چکنائی اور حراروں کی سطح ناقابل یقین حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے لئے عموماً بکرا، گائے اور چکن کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے۔ 76برطانوی کونسلوں سے تعلق رکھنے والے معائنہ افسروں نے ان کبابوں میں غذائیت کا اندازہ لگانے کے لئے 494 کبابوں کے نمونے حاصل کئے تھے جن کے ساتھ سلاد اور چٹنی شامل نہیں تھی۔ تجزیئے سے معلوم ہوا کہ ایک درمیانے سائز کے ڈونر کباب میں حراروں کی تعداد اُس سے نصف ہوتی ہے جتنی ایک خاتون کو پورے دن میں درکار ہوتی ہے۔ اور ایک بالغ فرد کو یومیہ جتنا نمک استمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے، ایک درمیانے ڈونر میں اُس کا 98 فیصد موجود تھا۔ جبکہ جمنے والی چکنائی کی ایک دن میں جتنی اجازت دی گئی ہے اس سے 48 گنا زیادہ چکنائی کباب میں پائی گئی۔ کبابوں کے جو نمونے حاصل کئے گئے تھے۔ ایک بہت افسوسناک پہلو یہ بھی تھا کہ اِن نمونوں میں سے 35فیصد کے لیبل پر گوشت کی جو قسم درج تھی، پیکٹ میں موجود گوشت اُس سے مختلف تھا۔ چھ کبابوں میں ’’پورک‘‘ شامل تھا جبکہ لیبل پر درج اجزا میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ حتّٰی کہ اِن چھ سے میں دو کو ’’حلال‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ انسپکٹرز نے اس سروے کے دوران بدترین قسم کے جن ڈونر کبابوں کا سراغ لگایا وہ 1990کیلوریز پر مشتمل تھے یعنی خواتین کو یومیہ جتنے حرارے استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے، اس ایک کباب سے ان کے دن بھر کی 95 فیصد سے زائد ضرورت پوری ہورہی تھی۔ علاوہ ازیں خواتین کے لئے سیچوریٹڈ فیٹ کی یومیہ سفارش کردہ مقدار کی 346 فیصد زائد چکنائی ان کبابوں میں پائی گئی جبکہ بالغ افراد کو یومیہ جتنا نمک استعمال کرنا چاہئے اس کا 277فیصد نمک بھی اس میں موجود تھا۔
امریکہ میں سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں 35 سال سے 84 سال تک کی عمر کے دل کے مریضوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ خوراک میں روزانہ نمک کی مقدار میں تین گرام یعنی صرف ایک چمچہ کمی کرنے سے سالانہ 32 ہزار فالج کے حملوں اور 54 ہزار دل کے دوروں کو روکا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق کے شریک مصنف کولمبیا کے یونیورسٹی کے ڈاکٹر لی گولڈمین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ صحت بخش خوراک کھانے کے حوالے سے صرف کیلوریز کا خیال رکھتے ہیں لیکن نمک کی مقدار کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ گزشتہ سال نومبر میں ایک برطانوی طبّی جریدے میں بھی ایک جائزے میں بیان کیا گیا تھا کہ اگر ہر برطانوی اپنی خوراک میں نمک کی مقدار نصف کردے تو فالج اور دل کی بیماریوں میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کسی انسان کو ایک دن میں پانچ گرام سے زیادہ نمک استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں