نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر10)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر10)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

کینیڈا میں واقفین نو بچوں کی کلاس
(منعقدہ 20 مئی 2013ء بمقام مسجد بیت الرحمن وینکوور)

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ آیات کریمہ کے اردو اور انگریزی ترجمہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث مبارکہ پیش کی گئی:
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور ناخوشی، حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔
بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا گیا:
’’میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے مَیں نے اس راحت اور لذّت سے حظّ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مَر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور پھر زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذّت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔ اس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں، بلکہ تکلیف اور دکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 370۔مطبوعہ لندن2003ء)
بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام خوش الحانی کے ساتھ پیش کیا گیا کہ

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما

اس کے بعد ’’تحریک وقف نو کا تعارف اور اس کا مقصد‘‘ کے عنوان پر انگریزی زبان میں اور ’’ہم اور ہماری منزل‘‘ کے عنوان پر اردو زبان میں تقاریر کی گئیں۔ پھر وینکوور (Vancouver)کے شہر کے بارہ میں ایک Presentation دی گئی جس میں وینکوور شہر کی تاریخ، تعارف، یہاں کے مشہور مقامات اور اس شہر میں جماعت احمدیہ کا قیام اور مسجد بیت الرحمن کی تعمیر کے حوالے سے بتایا گیا۔ اور ساتھ ساتھ تصاویر بھی دکھائی جاتی رہیں۔

واقفین نو بچوں کے ساتھ مجلس سوال و جواب

اسPresentationکے بعد پروگرام کے مطابق واقفین نو بچوں نے سوالات کئے جن کے جوابات از راہ شفقت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عطا فرمائے۔
…٭… ایک بچیّ نے سوال کیا کہ نجاشی کے فوت ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا تھا۔ کیا ہم عیسائیوں کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟
اس سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وہ مسلمان تھا۔ اس نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو عزت و احترام دیا تھا۔ نجاشی کی وفات کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا۔ کوئی ٹیلیگراف، Text اور ٹیلیفو ن سسٹم تو نہیں تھا ناں جو نجاشی کی وفات کی اطلاع مل گئی ہو۔اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تھا کہ نجاشی فوت ہو گیا ہے۔اور اس وقت پتہ نہیں اس کی تدفین بھی ہوئی تھی کہ نہیں لیکن اللہ تعالی ٰ نے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ پسندیدہ تھا اور یقینا ًدل میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہوا تھااور وہ مومنین میں سے تھا۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھادیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: عیسائی تمہیں کب کہتے ہیں کہ تم جنازہ پڑھو؟ ہاں اگر کوئی مسلمان جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوبھی نہیں مانا ہوااگر وہ فوت ہو جاتا ہے اور اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہے تو پھر احمدیوں کو اس کا جنازہ پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایمان لانے والا اور کلمہ طیبہ پڑھنے والا کوئی شخص بغیر جنازہ کے دفن نہیں ہونا چاہئے۔ اگر احمدی کو پتہ لگے تو یہ ہمارا اخلاقی اور مذہبی فرض ہے کہ ایسے آدمی کا جنازہ پڑھ کر اس کی تدفین کر دیں۔عیسائیوں کو تو جنازے کی ضرورت ہی کوئی نہیں وہ تو اپنی سروس کرتے ہیں۔
٭…ایک بچّے نے سوال کیا کہGenetic Engineering کہاں تک استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جس حد تک یہ بنی نوع انسان کیلئے فائدہ مند ہے ، اس حد تک استعمال ہونا چاہئے۔ صحت کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ مگر کلوننگ کے لئے نہیں۔ ہاں اعضاء اور دوسری بیماریوں کے علاج کے لئے کلوننگ کا استعمال ہو سکتا ہے۔
٭… اسی بچّے نے سوال کیا کہ کیاکلوننگ کا کوئی فائدہ ہے؟
اس پر حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:کلوننگ تو بالکل منع ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اگر تم اس کی تخلیق میں دخل اندازی کرو گے تو تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔اگرچہ کلوننگ کرنا ممکن ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے جہاں تک انسان کے فائدہ کا سوال ہے اس حد تک کلوننگ کا استعمال ٹھیک ہے۔ ورنہ کلوننگ میں تو وہ پورے جینیٹک سسٹم کو خراب کر رہے ہوتے ہیں۔
…٭…ایک بچّے نے سوال کیا کہ ہم غیر از جماعت نوجوانو ں سے اسلام یا دین کے بارہ میں کیسے بات کریں؟
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: لوگ آج کل مذہب کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس لئے پہلی چیز یہ ہے کہ انہیں خدا کی ذات پر یقین دلایا جائے۔ اگر خدا کی ذات پر یقین آجائے تو پھر مذہب کے بارہ میں بات ہو سکتی ہے۔جو لوگ خدا پر ہی یقین نہیں رکھتے انہیں مذہب کی کیا پرواہ۔ تواس طرح ہر ایک کے ساتھ علیحدہ معاملہ کرنا پڑے گا۔ دہریہ کو پہلے خدا کی ذات پر یقین دلانا پڑے گا۔ جو خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں انہیں مذہب کے بارہ میں اور اس کی ضرورت کے بارہ میں بتانا پڑے گا۔ اور پھر بتا نا ہوگا کہ اسلام ہی کیوں سچا مذہب ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان سب باتوں کیلئے آپ واقفینِ نَو کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی کتاب Introduction to the Study of the Holy Qur’an (دیباچہ تفسیر القرآن) پڑھنی چاہئے۔اس کے پہلے سو صفحات میں مذہب کیا ہے، مذہب کی کیوں ضرورت ہے اور سچا مذہب کون سا ہے، کے موضوعات کو پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف سوال نہ پوچھتے رہا کرو، خود بھی پڑھا کریں ، مطالعہ کیا کریں۔
…٭…بچّے نے سوال کیا کہ جنّ کیا ہوتے ہیں ؟
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جنّ کے بہت سے مطالب ہیں، کوئی بھی ایسی چیز جو بہت شاذ کے طور پر نظر آتی ہو،یا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے، یا بڑے لوگ جو عام لوگوں سے نہیں ملتے ان سب کو جنّ کہا گیا ہے۔ بیکٹیریا کو بھی جنّ کہا گیا ہے کیونکہ اس کو دیکھ نہیں سکتے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی وغیرہ کے لئے ہڈیاں استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ان میں بیکٹیریا رہتا ہے۔ اور اس کی جگہ خشک پتھر استعمال کرنے کا کہا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن کریم میں جنّ کیلئے بہت سی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ جنّ وہ لوگ بھی تھے جن کا قرآن شریف میں اس طرح ذکر آیاہے کہ بعض قبیلوں سے بعض لوگ آئے تھے جو اپنے لوگوں کے سردار اور لیڈرز تھے۔ یہ لوگ پہاڑی علاقوں یا دور دراز کے علاقوں سے آئے تھے اور ممکن ہے کہ کشمیر وغیرہ کے علاقہ کے تھے جو بنی اسرائیل کے لوگ تھے۔ انہوں نے قرآنِ کریم کی آیات سنیں اور چلے گئے۔ اور اپنی قوم کو جا کر کہا کہ جس نبی نے آنا تھا وہ آگیا ہے۔اور یہ اس کی تعلیم ہے۔ پس ایسے لوگوں کو بھی جنّ کہا گیا ہے۔
…٭…ایک بچّے نے سوال کیا کہ ہم اپنے ہم عمر لڑکوں کو تبلیغ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ وہ مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے؟
اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اصل کام Follow upہے جو آپ نہیں کرتے۔ آپ لوگ صرف بروشرز دے کر آجاتے ہیں اور جو نگرانی کا اصل کام ہے وہ نہیں کرتے۔اگر آپ نگرانی کریں تو میراخیال ہے کہ آپ جو سوال کرنے لگے تھے اس کا جواب بھی مل جائے گا۔اسی لئے میں نے کہا تھا کہ ایک بروشر کے بعد اگلا بروشر آنا چاہیے۔پہلے Introduction of Ahmadiyyat یا Message of Peaceہو۔ پھردوسرا بروشر یہ ہونا چاہئے کہ یہ امن کا پیغام کون لے کر آیا؟اس زمانہ میں جس امام نے آنا تھا وہ آچکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پیغام ہے اوراس طرف آؤ گے تو دنیا میں امن قائم ہو گا، دنیا میں خدا سے جوڑ پیدا ہو گا اورتم خدا کو دیکھو گے۔
حضورانو ر ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: چونکہ ایک بڑی تعداد تک یہ پیغام نہیں پہنچا اور جن تک پہنچا ہے ان کا ٹھیک طرح سے follow-upنہیں ہوا۔ اسی لئے دہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ مذہب سے بے پرواہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اب اگلا قدم اۡٹھانا پڑے گا۔ایک جگہ اگر آپ نے نگرانی نہ کی تو پھر تو اس کا یہی مطلب ہے کہ آپ چھوڑ کر آگئے۔آپ بھی بھول جائیں گے اور وہ بھی بھول جائیں گے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مَیں 2005ء میں یہاں آیا تھااور اب 2013ء میں یہاں آیا ہوں۔ بہت سارے احمدی مجھے ملے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو یاد ہے کہ ہم 2005ء میں آپ سے ملے ہیں۔ آٹھ سال میں مجھے تو وہ یاد رہتے ہیں جو بار بار ملتے رہتے ہیں۔ اسی طرح آپ کو وہ یاد رہیں گے اور آپ کا پیغام وہ یاد رکھیں گے جن کو آپ بار بار ملیں گے۔ایک بارملنے سے تو اس طرح یاد نہیں رکھا جاسکتا؟
…٭…ایک بچّے نے سوال کیا کہ سگریٹ اسلام میں جائزکیوں ہے؟
اس پرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کون سے اسلام میں جائز ہے؟ اسلام میں تو کہیں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اسلام تو قرآن کریم ہے اور وہ سنّت ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔اۡس زمانہ میں تو سگریٹ تھا ہی نہیں تو اس کا اسلام سے کیا تعلق؟ ہاں اسلام نے ہر اس چیز کو برا کہا ہے جس سے نشہ کی عادت پڑجاتی ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ سگریٹ پینا منع ہے۔ یعنی منع اس لحاظ سے ہے کہ بری بات ہے اور جس کواس کی عادت پڑ جائے اس کو چھوڑ دینی چاہیے۔ایک دفعہ ایک مجلس میں آپ نے فرمایا تو آپ کے صحابہ بیٹھے ہوئے تھے جو حُقّہ پیتے تھے اور وہ گھروں میں گئے اور ساروں نے اپنے حقّے توڑ دئیے۔ بلکہ ایک اور جگہ یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ تمباکو ،سگریٹ اور حقّہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو شاید یہ بھی منع ہوتا۔
…٭…ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا واقفینِ نو بچے ہنر سیکھ سکتے ہیں جیسے آٹو میکینک وغیرہ؟
اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر ایسے پیشوں میں جانے کا شوق ہو تو پہلے اجازت لینی ہوگی۔ ہمیں ہر طرح کے ہنر جاننے والے چاہئیں۔ ہمیں آٹومیکینک، الیکٹریشن، الیکٹریکل انجینئرز، مکینکل انجینئرز سب چاہئیں۔ اگر تمہیں کسی ایسی چیز میں انٹریسٹ ہے تو تم وہ پڑھ لو لیکن پہلے پوچھ لو کہ مَیں یہ پڑھنا چاہتا ہوں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی لئے میں نے کہا تھا کہ 15 سال بعد اپنا عہد دوبارہ تازہ کریں۔ پھر18سال کے بعد جب یونیورسٹی میں جاتے ہوتو پہلے اجازت لو کہ میں یہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ اگر اجازت مل جائے تو تم وہ پڑھ لو اور اس کے بعد جب اس تعلیم سے فارغ ہو جاؤ اور اپنی تعلیم مکمل کرلوتو اس کے بعد پھرتمہیں بتا دیں گے کہ خود اپنا کام کرنا ہے یا جماعت تم سے کام لے گی۔ لیکن اگر کو ئی آٹو میکینک یا الیکٹریشن یا پلمبنگ یا پھر اس قسم کے ہنر میں جانا چاہے تو اس قسم کے لوگ بھی ہمیں چاہئیں۔مگر آپ اپنے عزائم بلندکیوں نہیں رکھتے ؟
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر اسی بچے نے بتایا کہ وہ بارہواں گریڈ ختم کرنے والا ہے اور آگے بزنس کرنے کا خواہش مند ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بزنس سے بہتر ہے آٹو میکینک کرلیں۔ آپ کے بزنس کو جماعت احمدیہ کیا کرے گی ؟
…٭…اس کے بعدایک بچے نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں عرض کی کہ اس نے سورۃالجمعہ زبانی یاد کر لی ہے اور وہ حضورانورکو سنانا چاہتا ہوں۔
اس پر حضورانو رایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ماشاء اللہ۔ابھی تو وقت نہیں ہے۔چلو پہلی پانچ آیتیں سنا دو۔اس پر بچے نے سورۃ الجمعہ کی پہلی پانچ آیات سنائیں۔
…٭…اس کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر ایک افریقن واقفِ نو طالبعلم نے بتایا کہ اس کا تعلق نائیجیریا سے ہے اور وہ یہاں کیلگری میں الیکٹریکل انجنیئرنگ کررہے ہیں۔
اس پرحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب پڑھائی مکمل کرلیں تو پھر ملیں۔
…٭…اس کے بعد ایک بچّے نے سوال کیاکہ اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت ہے۔لیکن مسلمان عورت کیوں اہلِ کتاب سے شادی نہیں کر سکتی؟
اس کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:بات یہ ہے کہ عدم مساوات اس لئے نہیں ہے کہ اگر تم اہلِ کتاب لڑکی سے شادی کر وتووہ لڑکی تمہارے اثر میں رہے گی۔لیکن اگرکوئی مسلمان عورت کسی عیسائی سے شادی کرتی ہے تو وہ اس کے مذہب کے زیر اثر ہوگی۔ اس لئے اسلام عورت کو غیر مذہب والے شخص سے شادی کی اجازت نہیں دیتا۔اس طرح عورت اسلام سے دور ہو جائے گی اور آئندہ نسلیں ضائع ہو جائیں گی۔
…٭…ایک بچّے نے سوال کیا کہ ابلیس نے فرشتہ ہونے کے باوجود اللہ کا انکا ر کیوں کیا؟
اس پرحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وہ فرشتہ تھا ہی نہیں۔ تمہیں کس نے کہا کہ وہ فرشتہ ہے؟ اس پر بچے نے عرض کی کہ وہ شیطان بننے سے پہلے تو فرشتہ تھا۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ابلیس شیطان بننے سے پہلے بھی شیطان ہی تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی اس کو فرشتہ کہیں نہیں کہا۔ وہ تو ایک بُروں اور اچھوں کی مجلس تھی۔ جو فرشتے تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بات مان لی اور جو شیطانی صفت تھا اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتا۔ وہ تو پہلے ہی اس کی فطرت میں انکارتھا۔اسی لئے اس نے کہا تھا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور یہ انسان مٹی سے بنا ہے۔ تو ناری فطرت آگ کی فطرت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت کی صلاحیت ہی نہیں رکھی۔ وہ پہلے ہی آگ تھا۔ وہ فرشتہ تھا ہی نہیں۔ فرشتے تو ٹھنڈی چھاؤں ہوتے ہیں۔ اور جو آگ تھا وہ کس طرح فرشتہ ہو سکتا ہے؟
کلاس کے آخر پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت تمام بچوں کو قلم، ٹوپیاں اور چاکلیٹ تقسیم فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں