نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر18)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر18)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

میلبورن (آسٹریلیا) میں واقفین نو بچوں کی کلاس
(منعقدہ 12اکتوبر 2013ء)

پروگرام کے مطابق ساڑھے سات بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لائے جہاں میلبورن کے واقفن نو بچوں کی حضور انور کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔
پروگرام کا آغازتلاوت قرآن کریم اور اس کے انگریزی ترجمہ سے ہوا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث پیش کی گئی:

’’اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوْا اَدَبَھُمٗ‘‘۔

ترجمہ: اپنے بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اور ان کی بہترین تربیت کرو۔
بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نظم

اک نہ اک دن پیش ہوگا تُو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے

خوش الحانی سے پیش کی گئی۔ اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ االصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’انسان جب اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اور ساری راحت اور لذّت اللہ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دن یا بھی اُس کے پاس آجاتی ہے مگر راحت کے طریق اَور ہو جائیں گے۔ وہ دنیا اورا س کی راحتوں میں کوئی لذّت اور راحت نہیں پاتا۔ اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دنیا کو لاکر ڈال دیا گیا ہے مگ ان کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا کیونکہ اُن کا رُخ اور طرف تھا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ جب انسان دنیا کی لذّت چاہتا ہے تو وہ لذّت اُسے نہیں ملتی۔ لیکن جب خدا تعالیٰ میں فنا ہوکر دنیا کی لذّت کو چھوڑتا ہے اور اُس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دنیا ملتی ہے مگر ا س کی لذّت باقی نہیں رہتی۔ یہ ایک مستحکم اصول ہے۔ اس کو بھولنا نہیں چاہئے۔ خدایابی کے ساتھ دنیایابی وابستہ ہے۔ خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اُسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور پر اُسے رزق دے گا کہ اُسے علم بھی نہ ہوگا۔ یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکل سے آدمی نجات پاجاوے اور اللہ تعالیٰ اُس کے رزق کا کفیل ہو۔ لیکن یہ بات جیسا کہ خود اُس نے فرمایا تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہے اور کوئی امر اس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکر و فریب سے یہ باتیں حاصل ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں۔ پس جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اُسے مل جاوے۔ وہ یہ راہ اختیار کرے۔ اگر اس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اَور راہیں اختیار کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بہت سے لوگ ہوں گے جن کو نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بول اٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی۔ لیکن اُس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دے گا۔ اصل موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغام موت کا آجائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 195)
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بچوں سے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ االصلوٰۃ والسلام کا جو اقتباس پڑھا گیا ہے اس کا خلاصہ بتاؤ۔
پھر حضور انور نے فرمایا کہ خدا کے ساتھ تعلق سے ہی خدا کی رضا حاصل ہوتی ہے اور خدا ملتا ہے اور جب خدا مل گیا تو پھر دین بھی ملا اور ساتھ دنیا بھی ملی۔ لیکن جو صرف دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ان کو نہ دین ملتا ہے اور نہ دنیا ملتی ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ ایک شعر بھی ہے:

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

حضور انور نے فرمایا کہ جو پڑھائی مکمل کرچکے ہیں کیا انہوں نے لکھ کر دے دیا ہے اور اپنے آپ کو وقف کرکے خدمت کے لئے پیش کردیا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: جب آپ نے اپنی پوری زندگی وقف کی ہے تو پھر وقف یہ ہے کہ جہاں ہم بھجوانا چاہیں گے، بھجوائیں گے۔

واقفین نو کے ساتھ مجلس سوال و جواب

حضور انور نے ازراہ شفقت واقفین نَو،نوجوانوں اور بچوں کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا حضور انور خطبہ جمعہ خود تیار کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: مَیں خود تیار کرتا ہوں اور حوالے بھی خود ہی نکالتا ہوں۔ اگر حوالے پرنٹ یا ٹائپ کرنے کی ضرورت ہو تو پھر باقاعدہ اپنے دفتر کو حوالہ کا صفحہ اور ریفرنس اور کتاب کا نام بتاتا ہوں کہ یہ یہ حوالہ ٹائپ کرکے یا فوٹوکاپی کرکے دے دیں۔
ایک واقف نو نے عرض کیا کہ Ph.D. کا پروگرام ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب Ph.D. کرلیں تو پھر بتائیں اور اپنے آپ کو پیش کریں۔ پھر ہماری مرضی ہوگی جہاں چاہیں گے خدمت لیں گے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ باقاعدہ وقف میں ہیں لیکن فی الحال اپنا کام کریں۔
حضور انور نے فرمایا کہ دو ہی صورتیں ہیں۔ واقفین نو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو باقاعدہ وقف کرکے خدمت کے لئے پیش کریں گے اور پھر وہ باقاعدہ وقف زندگی ہو جائیں گے اور دوسری صورت یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو پیش نہیں کریں گے اور خود ہی کوئی کام شروع کرلیں گے تو وہ وقف نو سے فارغ ہوجائیں گے اور ان کا وقف ختم ہوجائے گا۔
ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا ہم فاسٹ فوڈ (Fast Food) جو میکڈونل یا اس طرح کے ریسٹورنٹ میں ہوتا ہے استعمال کرسکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: ان جگہوں پر ایک ہی تیل (Oil) میں چکن ، فِش اور سؤر وغیرہ فرائی کرتے ہیں۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ایک ہی تیل میں یہ سب چیزیں تو فرائی نہیں کی جارہیں۔ تو اگر ایسا ہے تواِس صورت میں نہیں کھانا چاہئے۔ بہرحال ایسی چیزوں سے بچنا ہی بہتر ہے۔ حضور انور نے فرمایا: کوئی اضطراری کیفیت تو نہیں ہے۔ نہ کھاؤ اور احتیاط کرو۔
حضور انور نے فرمایا: اگر انہیں کہا جائے کہ علیحدہ تیل میں تیار کرکے دو تو وہ تیار کردیتے ہیں۔
تبلیغ کے حوالہ سے ایک سوال پر حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے دس فیصد آبادی کو احمدیت کا پیغام پہنچانے کی ہدایت کی ہوئی ہے کہ کم از کم لیف لیٹس کی تقسیم سے ملک کی دس فیصد آبادی تک پیغام پہنچ جائے۔ اب میلبورن کی آبادی چار ملین ہے۔ کم از کم اس کے دس فیصد تک تو احمدیت کا پیغام پہنچائیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ آسٹریلیا کا ایک جزیرہ تسمانیہ ہے وہاں جائیں اور پیغام پہنچائیں اور تبلیغ کریں اور لمبا قیام کریں۔ چند دن کے قیام سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں کے لوگ مذہب کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔ تسمانیہ میں ہمارے خدام کو وقف عارضی کرکے جانا چاہئے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جرمنی کے خدام نے ڈیڑھ ملین کی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کئے ہیں۔ آپ کو بھی تبلیغ کے میدان میں بہت محنت کرنی ہوگی۔
فیس بُک (Face Book) کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’الاسلام‘‘ ویب سائٹ پر جو فیس بُک موجود ہے وہ تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ اپنی ذاتی فیس بُک بناکر استعمال کی جائے اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگر خدام الاحمدیہ بنانا چاہتی ہے اور پھر مکمل طور پر خود کنٹرول کرسکتی ہے، نگرانی رکھ سکتی ہے تو پھر اجازت دی جاسکتی ہے۔ لیکن جو خدام ابھی میچور (Mature) نہیں ہوں گے تو ان سے اس کے استعمال میں غلطیاں ہوسکتی ہیں اور اس کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ’’الاسلام‘‘ کی ہی فیس بُک استعمال کریں۔
لیف لیٹس کی تیاری کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: آجکل دنیا مذہب سے دُور جارہی ہے۔ جو شخص خدا کو نہیں مانتا تو اس کو مذہب سے کیا غرض ہوگی۔ تو ایسے لوگوں کے لئے ایسا لیف لیٹ ہو اور ایسا پیغام ہو کہ انہیں پہلے خدا کے بارہ میں بتایا جائے۔ پہلے انہیں خدا کا قائل کیا جائے تو ایسا لیف لیٹ بناؤ کہ اسے پہلے خدا کا قائل کرو۔
حضور انور نے فرمایا کہ بیلجیم میں ایک انڈونیشین دوست نے بیعت کی تھی۔ وہ خدا کے قائل نہیں تھے۔ وہاں ہمارے مبلغ سے اس سلسلہ میں ان کی کافی بحث ہوئی۔ بالآخر ان کو خدا پر یقین آگیا اور اس بات پر ایمان لے آئے کہ خدا ہے۔ جب خدا کو مان لیا تو کہنے لگے اب مذہب کو ماننا بھی ضروری ہے تو مبلغ کو کہنے لگے کہ چونکہ تم نے مجھے خدا کی ہستی کا قائل کیا ہے اس لئے مَیں آپ کی جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے احمدیت قبول کی۔ اس کی بیوی بیلجین تھی۔
ایک نوجوان نے سوال کیا کہ بعد لوگ جو خدا کو نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہر چیز کو کوئی بنانے والا ہے، پیدا کرنے والا تو پھر جو پیدا کرنے والا، بنانے والا ہے اس کو بھی تو کسی نے بنایا ہے۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اربوں سال لگے ہیں ہماری اس زمین کو بننے میں۔ کسی نہ کسی وجود کو تو ماننا پڑے گا جس نے یہ سب کچھ بنایا اور خود اُس کو کسی نے نہیں بنایا۔ کہیں نہ کہی ںجاکر تو رُکوگے۔ جہاں بھی رُکوگے وہی ہمارا خدا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ’’ہمارا خدا‘‘ پڑھیں۔ اس کا انگریزی ترجمہ ہوچکا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ایک بڑی دلیل دعا کی قبولیت کی ہے کہ مَیں نے دعا کی تو خدا تعالیٰ نے قبول کی۔
حضور انور نے فرمایا کہ ایک عورت نے ایک دوسری لڑکی سے جو خدا کی قائل نہیں تھی، یہ کہا کہ اگر تم نے یونیورسٹی میں جاکر امتحان دینا ہے اور تم امتحان کے لئے جا رہی ہو۔ راستہ میں کوئی روک پڑ جائے۔ تاخیر ہو رہی ہو اور وقت پر پہنچنا مشکل لگ رہا ہو تو پھر ایسی صورت میں تم کیا کروگی۔ اس پر اُس لڑکی نے جواب دیا کہ مَیں Hope (امید) رکھوں گی۔ تو اس پر اُس عورت نے اُسے جواب دیا آخر تم کسی نہ کسی وجود سے ہی Hope (امید) رکھوگی۔ پس جس سے تم Hope رکھوگی وہی خدا ہے۔اس پر اُس بچی نے کہا کہ پھر مَیں سوچوں گی۔
حضور انور نے فرمایا کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی کتاب “Revelation, Rationality, Knowledge and Truth” ہے اس کا پانچواں چھٹا باب پڑھیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ ایک دھریہ کو خدا کے وجود کا قائل کرنے کے لئے دلیل دینے کے لئے جب تک آپ کا اپنا تجربہ نہیں ہوگا۔ آپ اس کو قائل نہیں کرسکتے۔
ایک نوجوان طالبعلم کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’احمدیہ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘‘ یہاں قائم کرنی چاہئے۔ خدام الاحمدیہ میں جو ’’مہتمم امور طلبائ‘‘ ہے وہ اس کا انچارج ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہونی چاہئے اور جماعت کا جو سیکرٹری تعلیم ہے۔ وہ اوپر سے اس کی نگرانی کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں یہ قائم ہے۔ یہ ایسوسی ایشن تو بہت پرانی ہے۔ جب مَیں خود فیصل آباد یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو مَیں خود بھی اس کا وائس پریذیڈنٹ تھا۔ AMSA کے نام سے یہ مختلف ملکوں میں بنی ہوئی ہے۔ یہاں بھی بنائیں۔ جرمنی میں تو لڑکوں میں علیحدہ ہے اور لڑکیوں میں علیحدہ ہے۔ اب آپ بھی بنائیں۔
ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ جو واقفین نو ہیں اور پندرہ سال کی عمر کے بعد وقف کرچکے ہیں اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ مزید تعلیم کے لئے کوئی بھی فیلڈ اختیار کرنے سے قبل مرکز سے دریافت کریں تو مرکز اُن کو بتائے گاکہ مرکز کو کس پروفیشن کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے اس پروفیشن کے علاوہ کچھ کرنا ہے تو پھر آپ کو مرکز سے اجازت لینی پڑے گی اس کے بعد ہی کسی دوسری فیلڈ میں جاسکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ خواہ آپ واقف نو، واقف زندگی کسی بھی فیلڈ میں ہوں، آپ کے لئے ضروری ہے کہ پانچوں نمازیں ادا کرنے والے ہوں، باقاعدہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہوں۔ اور دین کا علم بھی رکھتے ہوں۔ مسلسل اپنے دینی علم میں اضافہ کرتے رہیں۔ خواہ آپ کی کوئی بھی فیلڈ ہو آپ کو دینی علم کے لحاظ سے تیار ہونا چاہئے۔
واقفین نو کی یہ کلاس آٹھ بج کر بیس منٹ پر ختم ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں