نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر19)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر19)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

واقفین نو بچوں کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ کلاس
بمقام مسجد بیت المقیت نیوزی لینڈ بتاریخ 31 ؍اکتوبر بروز جمعرات 2013 ء

پروگرام کے مطابق مسجد بیت المقیت نیوزی لینڈ میں بچوں کی کلاس حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شروع ہوئی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی پیش کیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل دو احادیث پیش کیں اور ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ ان احادیث کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے:
1۔ اے اللہ ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر اور اس سے پہلے ہی ہمیں معاف کردے۔(سنن ترمذی کتاب الدعوات)
2۔ اے اللہ یقینامیں تجھ سے اس آندھی کی بھلائی مانگتا ہوں اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کی بھی بھلائی چاہتا ہوں جس کے ساتھ وہ بھیجی گئی ہے اور میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس کے شر سے جو کچھ اس میں ہے اور اس کے شر سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں جس کے ساتھ وہ بھیجی گئی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ الاستسقاء)
اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا گیا:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیںآئی ہوگی اور اکثر مقامات زیروزبرہوجائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اوراس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیرمعمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا

وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا

اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچاسکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہوگا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا‘‘۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ 268)
بعدازاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل منظوم کلام خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنایا گیا۔ ؎

اک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد
جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار

اس نظم کے بعد عزیزم میکائیل گنائی نے نیوزی لینڈ کے شہر Christ Church میں آنے والے زلزلہ پر اپنا مضمون پیش کیا اور بتایا کہ کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈکا دوسرا بڑا شہر ہے، جہاں فروری 2011ء میں ایک بڑی طاقت کا زلزلہ آیا اور 185 لوگ اس زلزلہ میں ہلاک ہوئے، عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ شہر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں عمارتوں کا بہت نقصان ہوا۔ کم طاقت کے زلزلے تو قبل ازیں آتے رہے ہیں لیکن اتنی بڑی طاقت کا زلزلہ پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ ہیومینیٹی فرسٹ اور خدام الاحمدیہ کی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کرمتاثرین کی مدد کی۔
موصوف نے بتایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے اس میں آپؑ نے پہلے سے ہی ان زلازل کی خبر دی ہے۔ موصوف نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ اب تو دنیا کے ہر حصہ میں زلزلے آرہے ہیں اور کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں رہا۔
اس کے بعد عزیزم اسحاق شمیم نے پروفیسر Clement Wragge صاحب کے بارہ میں اختصار کے ساتھ ایک مضمون پیش کیا۔

پروفیسر کلیمنٹ ریگ (Clement Wragge)

جب بھی جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں پروفیسر Clement Wragge کا ذکر ضرور شامل کیا جائے گا۔
پروفیسر Clement Lindley Wragge غیرمعمولی قابلیت اور جرأت والے انسان تھے۔ انگلستان میں پیدا ہوئے اور Law Navigation Meteorology میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور موسمیات اور علم ہیئت (Astronomy) کے میدانوں میں اپنا لوہا منوایا۔ آپ نے آسٹریلیا میں بھی ایک لمبا عرصہ قیام کیا اور وہاں آپ کو ایک اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔
آپ ہندوستان کے سفر کے دوران لاہور بھی آئے اور 12 مئی اور 18 مئی 1908ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دوبار ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ان کے ساتھ ان کی بیوی اور چھوٹا لڑکا بھی تھا۔
پروفیسر صاحب نے 12 مئی 1908ء کو دوران ملاقات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مختلف سوالات بھی کئے۔ مثلاً جب خدا کی مخلوق بے شمار اور غیرمحدود ہے تو اس کے فضل کو کیوں صرف اس حصہ زمین یا کسی مذہب و ملت میں محدود رکھا جائے؟ گناہ کیا چیز ہے؟ شیطان کسے کہتے ہیں؟ آئندہ زندگی کس طرح سے ہوگی؟ اور وہاں کیا کیا حالات ہوں گے۔
خاتون نے سوال کیا کہ کیا مُردوں سے رابطہ کرکے ان کے صحیح حالات دریافت کئے جاسکتے ہیں؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تمام سوالات کے نہایت لطیف اور جامع جوابات عطا فرمائے۔ جنہیں سن کر مسٹر ریگ بے حد متأثر ہوئے اور حضور علیہ السلام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا : مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ مجھے ہر طرح سے کامل اطمینان دلانا یہ خدا کے نبی کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔
مسٹر ریگ 18 مئی 1908ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملاقات کے لئے دوبارہ حاضر ہوئے اور اس دفعہ بھی حضور سے کئی سوالات کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر سوال کے جواب میں ایسی مختصر مگر جامع روشنی ڈالی کہ وہ وجد میں آکر کہنے لگے میں تو خیال کرتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے۔ جیسا کہ عام طور پر علماء میں مانا گیا ہے۔ مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں۔ بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنا ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اسلام کے اصولوں کو ہرگز ہرگز نہ جھٹلا سکے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ملفوظات جلد10 میں ان دونوں ملاقاتوں کا تفصیل سے ذکر ہے۔
ہندوستان کے اس سفر کے بعد پروفیسر صاحب نیوزی لینڈ چلے گئے بعد میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سے آپ کی خط و کتابت رہی۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ پروفیسر ریگ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ پروفیسر بعد میں احمدی مسلمان ہو گیا تھا اور مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہا اور اس کے خطوط میرے پاس آتے رہے۔
سال 2006ء میں جماعت آسٹریلیا اور جماعت نیوزی لینڈ نے پروفیسر صاحب کے عزیزوں اور اولاد کو تلاش کرنے کے بارہ میں بہت تحقیق کی۔ جماعت آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ میں اس گھر کا پتہ لگالیا جہاں پروفیسر صاحب مرحوم رہا کرتے تھے۔ پھر ان کی تصاویر بھی حاصل کرلیں۔ اس قبرستان اور قطعہ کا بھی پتہ لگالیا جہاں پروفیسر صاحب دفن ہیں۔ ان معلومات کی بنا پر جماعت نیوزی لینڈ نے مزید تحقیق کی اور بالآخر 1922ء کے بعد جو پروفیسر صاحب کی وفات کا سال ہے یعنی 84 سال بعد ان کے پوتے اور پوتی سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
جماعت نیوزی لینڈ نے، جماعت آسٹریلیا کی طرف سے ہونے والی تحقیق ملنے پر Astronomical Society سے رابطہ کیا اور ان کے خاندان کے بارہ میں دریافت کیا۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ آپ Birkenhead Historical Society سے رابطہ کریں۔ چنانچہ ویب سائٹ پر اس سوسائٹی سے رابطہ کیا گیا اور اپنا جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے پروفیسر ریگ کے عزیزوں کے بارہ میں دریافت کیا۔ اس پر ان کے پوتے اور پوتی نے بذریعہ ای میل رابطہ کیا تو اس طرح جماعت کا ان سے رابطہ قائم ہوگیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ نیوزی لینڈ سال 2006ء کے دوران چھ مئی کو یہ دونوں پوتا اور پوتی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لئے آئے تھے۔
دوران ملاقات حضور انور نے ان سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کے دادا احمدی مسلمان تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان دونوں نے بتایا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پروفیسر صاحب کی ایک بیوی انڈیا سے تھی جو ہماری دادی ہے۔ لیکن ہم اپنی دادی سے نہیں مل سکے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا تھا کہ کیا آپ کے دادا کے پاس اسلام کا لٹریچر تھا اور کچھ کتب وغیرہ تھیں۔ اس پر ان دونوں نے بتایا تھا کہ ان کی کچھ کتب وغیرہ میوزیم میں موجود ہیں۔ چونکہ پروفیسر صاحب سائنٹسٹ تھے اس لئے ان کی کتب وغیرہ اور دیگر مسودات کو ایک میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ ان کی بعض چیزیں آگ لگ جانے کی وجہ سے ضائع ہوگئی تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ پروفیسر صاحب کی آسٹریلین بیوی سے سات بچے ہیں۔ ہم دونوں کا باپ انڈین بیوی سے تھا۔
حضور انور نے دریافت فرمایا تھا کہ کیا آپ کے دادا نے آپ کو کبھی احمدیت کی تبلیغ کی؟ جس کے جواب میں انہوں نے بتایا تھا کہ ہم اتنا جانتے ہیں کہ وہ بہت نیک سیرت اور بالکل جدا اور مختلف آدمی تھا اور اس نے اسلام قبول کیا تھا۔
بعدازاں حضور انور نے ان دونوں Mr. Stewirt Wragge اور مسز Catherine Wragge کو ان دونوں کے نام لکھ کر اور اپنے دستخط کرکے کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی دی اور فرمایا اس کو پڑھیں۔ آپ کو اسلام کے بارہ میں پتہ چلے گا۔
اگلے روز 7 مئی 2006ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آک لینڈ شہر کے بعض علاقوں کے وزٹ کے دوران پروفیسر Clement Wragge کی قبر پر دعا کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ مرحوم قبرستان Pompallier کے ایک حصہ Anglican کے بلاک B کے پلاٹ نمبر 47 میں مدفون ہیں۔ کتبہ پر آپ کی تاریخ پیدائش 1852ء درج ہے اور تاریخ وفات 10 دسمبر 1922ء درج ہے۔ حضورانور نے مرحوم کی قبر پر دعا کی تھی۔ احباب جماعت بھی حضورانور کے ساتھ دعا میں شامل ہوئے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں