نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر20)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر20)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

جاپان کے واقفین نَو بچوں کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ کلاس
07 ؍نومبر بروزجمعرات 2013 ء

پروگرام کے مطابق واقفین نَو بچوں کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔
پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا جاپانی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ بعدازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی درج ذیل حدیث پیش کی۔
’’حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر قابل قدر اور سنجیدہ کام اگر خداتعالیٰ کی حمد و ثنا کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت اور ناقص رہتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر وہ کام جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ناقص اور برکت سے خالی ہوتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب الھدیٰ فی الکلام)
اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا درج ذیل پاکیزہ منظوم کلام خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنایا گیا۔ ؎

یارو مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار
رہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مَرْ گئے
آئے بھی اور آ کے چلے بھی گئے وہ آہ!
ایام سعد ان کے بسرعت گزر گئے

٭ بعد ازاں نے ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جاپان اور جاپانیوں کو تبلیغ اسلام کے بارے میں ارشادات‘‘ پیش کئے گئے:
26؍اگست 1905ء کو نماز ظہر سے قبل مسجد مبارک قادیان میں ذکر آیا کہ جاپان میں اسلام کی طرف رغبت معلوم ہوتی ہے اور بعض ہندی مسلمانوں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’جن کے اندر خود اسلام کی روح نہیں وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے۔ جب یہ قائل ہیں کہ اب اسلام میں کوئی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ خدا اس سے کلام کرے اور وحی کا سلسلہ بند ہے تو یہ ایک مردہ مذہب کے ساتھ دوسروں پر کیا اثر ڈالیں گے۔ یہ لوگ صرف اپنے پر ہی ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کو اپنے عقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ان کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے غیرمذاہب کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ اِن کی بوسیدہ اور ردّی متاع کون لے گا۔ چاہئے کہ اس جماعت میں سے چند آدمی اس کام کے واسطے تیار کئے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اورتقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد نمبر4 صفحہ 351۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
نیز جاپان کے متعلق مزید فرماتے ہیں:
’’ضعف اسلام کے زمانہ میں جبکہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے اسلام کی ضرور مدد کرنی چاہئے۔ جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح و بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے۔‘‘ ( ملفوظات جلد 8)
پھر فرماتے ہیں:
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کی اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے اس لئے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کردی جائے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو ۔ جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پائوں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے اس طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں اس کی تعلیم کے سارے پہلوئوں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں۔ اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے۔
(ملفوظات جلد 8)
٭ اس کے بعد عزیزم مرتاض احمد رضی نے ’’جاپان میں احمدیت‘‘ کے عنوان سے اپنا درج ذیل مضمون پیش کیا:

جاپان میں احمدیت

جاپان میں اشاعتِ اسلام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کی تکمیل کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے قیام کے بعد جاپان میں تبلیغِ اسلام کے منصوبہ کی بنیاد رکھی۔6مئی1935ء کو تحریک جدید کے ماتحت قادیان سے بیرونی ممالک کے لئے مبلغین کا پہلا قافلہ روانہ ہوا۔ان تین مبلغین میں سے ایک مکرم صوفی عبد القدیر صاحب نیاز ؔ تھے جو 4جون 1935ء کو جاپان کے ساحلی شہر کوبے (KOBE) پہنچے۔ آپ نے زبان سیکھی،سخت مشکل حالات میں بھی خدمت دین کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ کچھ عرصہ کے لئے آپ اسیرِ راہ مولیٰ ہوئے۔آپ کی موجودگی میں ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دوسرے مبلغ مکرم مولوی عبدالغفور صاحب کو جاپان روانہ فرمایا اور اپنے قلمِ مبارک سے 15نصائح لکھ کر دیں۔ جنگ عظیم دوم کی وجہ سے 1941ء میں ا ٓپ کو واپس قادیان جانا پڑا۔
جنگ عظیم میں شکست کے بعد 1951ء میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے ایک ٹوٹے پھوٹے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے تاریخی کردار ادا کیا۔
1959ء میں مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب ربوہ گئے اور حصول تعلیم کے بعداسلام احمدیت کی آغوش میں داخل ہوگئے۔1968ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب۔ وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر تحریک جدید جاپان تشریف لائے اور آپ کے دورہ کے بعد 8ستمبر1969ء کو مکرم میجر عبد الحمید صاحب مبلغ سلسلہ ربوہ سے ٹوکیو کے لئے روانہ ہوئے اور جاپان میں اسلام احمدیت کی تبلیغ اور اشاعت کا مستقل مرکز قائم ہوگیا۔
11ستمبر1981ء کو جاپان کے وسطی شہر ناگویا میں ایک مکان خریدنے کی توفیق ملی ۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے اس کا نام ’’احمدیہ سنٹر‘‘ تجویز فرمایا۔
1989ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یاد گار سال ہے ۔ جب جماعت کے قیام پر 100سال مکمل ہوئے۔جماعت احمدیہ جاپان کے لئے یہ سال غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ اسی سال جماعت کو قرآن کریم کا جاپانی زبان میں ترجمہ شائع کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔اور یہی وہ مبارک سال ہے جب سر زمین جاپان نے پہلی دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح کے قدم چومنے کی سعادت حاصل کی۔حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ ایک ہفتہ جاپان میں قیام پذیر رہے۔آپ نے 28جولائی1989ء کا خطبہ جمعہ بھی ناگویا سے ارشاد فرمایا۔
خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی سے قبل2006ء کا سال بھی جماعت احمدیہ جاپان کے لئے ایک یادگار حیثیت رکھتا ہے،جب ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز جاپان تشریف لائے۔ 12 مئی 2006ء کا خطبہ جمعہ جاپان سے Liveنشر ہوا۔
اس وقت ٹوکیو اور ناگویا دو مقامات پر جماعت کے مراکز قائم ہیں ۔جاپان میں پہلی مسجد کے لئے جگہ خریدی جاچکی ہے اور پیارے حضور کی خدمت میں دعا ؤں کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو پورا فرمائے اور جماعت احمدیہ جاپان احسن رنگ میں اسلام احمدیت کی تبلیغ کرنے والی ہو۔آمین
٭ بعد ازاں عزیزم مرزا معظم بیگ نے ’’جاپان میں آنے والے زلزلے و تسونامی اور حضور انور کی خدمت میں دعاؤں کی درخواست‘‘ کے موضوع پر اپنا درج ذیل مضمون پیش کیا:
3مارچ2011ء کو جاپان کے شمال مشرقی علاقوں میں ایک شدید زلزلہ آیا جس کی شدت 9.0ریکارڈ کی گئی۔دنیا کی تاریخ میں اب تک آنے والے زلزلوں میں سے اسے چوتھا بد ترین زلزلہ کہا جا رہا ہے۔ اس زلزلہ کے بعد چھ اور سات شدت کے کئی آفٹر شاکس بھی آئے لیکن سب سے زیادہ بد ترین اور خوفناک آفت تسونامی تھی۔
تسونامی جاپانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے سمندر کی لہر۔ اور اس زلزلہ کے بعد دنیا کی سب سے بلند اور خطرناک تسونامی برپا ہوئی۔زلزلہ کا مرکز جاپان کے ساحل سے 69کلومیٹر دور تھا اور 10سے 30منٹ کے دوران ہی تسونامی کی بڑی لہریں خشکی تک آپہنچیں۔تسونامی کی بلندترین لہر 40میٹر سے بھی زائد تھی لیکن دس بارہ میٹر تک کی لہریں سیندائی اور دیگر نواحی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے گئیں۔Minami Sanrikuشہر میں دس ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہوئے اور سب سے زیادہ اموات اشی نوماکی شہر میں ریکارڈ کی گئیں۔
تیس منٹ کے اندر ہی تسونامی نے بڑے بڑے جہازاور گاڑیوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر سمندر میں لا پھینکا اور ہزارہا کی تعداد میں کشتیاں اوربحری جہاز سمندروں سے نکل کر خشکی پر آپہنچے۔
زلزلہ اور تسونامی کے فوری بعد سے جماعت احمدیہ جاپان کو بھی چھ ماہ تک متاثرین کی خدمت کا موقع ملا۔ہیومینٹی فرسٹ جاپان کی مختلف ٹیموں نے جو تصاویر لیں ان میں سے کچھ اس طرح ہیں ۔ (اس کے بعد کچھ تصاویر پیش کی گئیں)
جاپان میں بکثرت زلزلے آتے رہتے ہیں اور آئندہ تیس سالوں کے دوران ناگویا اورٹوکیو کے علاقوں میں بھی ایک بہت بڑے زلزلے کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔جاپان میں سکولوں کے پہلے دن بچوں کو زلزلوں سے بچنے کی مشقیں کروائی جاتی ہیں اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے طریق سکھائے جاتے ہیں۔ عام طور پر عمارتیں اور پل وغیرہ بھی ایسے بنائے جاتے ہیں جو آٹھ تک کی شدت کے زلزلہ کو بھی برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن تسونامی ایک ایسی آفت ہے جس نے جاپانی قوم کو بہت پریشان کر رکھا ہے۔ خاص طور پر ایٹمی ری ایکٹرز کی تباہی نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں سے بھی زیادہ تشویش پھیلائی ہے۔
پیارے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ جاپانی قوم کو زلزلوں اور تسونامی کی آفات سے محفوظ رکھے اور انہیں اپنے خالق ومالک کو پہچاننے اور اس کی حفاظت میں آنے کی توفیق بخشے۔آمین

مجلس سوال جواب

بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے بعض بچوں نے سوالا ت کئے۔
٭…ایک بچے نے سوال کیاکہ خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سب سے بڑا نبی کیوں بنایا؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی ہیں۔ آپؐ پر شریعت کامل ہوئی ہے۔ حضور انور نے فرمایا: جس طرح انسان کی آہستہ آہستہ ڈویلپمنٹ ہوئی ہے اور انسان کی ذہنی سوچ اور صلاحیت کا ارتقاء ہوا ہے اور انسان ترقی کرتے کرتے اپنی کاملیت کو پہنچا ہے۔ اسی طرح انسان کی صلاحیت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ مذہب اور شریعت میں بھی ارتقاء ہوتا رہا۔ مختلف اقوام اور علاقوں کی طرف انبیاء اپنے اپنے دور میں آتے رہے اور ہر نئے دور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت کے نئے احکامات نازل ہوتے رہے ہیں اور شریعت آہستہ آہستہ اپنی کاملیت کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ بالآخر جب انسان کا ارتقاء اپنے کمال تک پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا اور آپؐ پر دین بھی کامل ہوا اور شریعت بھی کامل ہوئی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام کو علم تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب انسان کامل ہوگا اور اس وقت اللہ تعالیٰ ایک ایسے عظیم الشان نبی کو مبعوث فرمائے گا جس پر دین بھی اور شریعت بھی کامل کر دی جائے گی۔ اسی لئے تو حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے خدا! جو ایسا عظیم المرتبت نبی آنا ہے وہ میری اُمّت میں سے آئے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس لئے سب سے عظیم المرتبت نبی ہیں کہ آپ پر اللہ تعالیٰ نے دین بھی کامل کیا اور شریعت بھی کامل کی اور شریعت کی آخری کتاب قرآن کریم آپؐ پر نازل ہوا۔
حضور انور نے فرمایا: ابھی تک جو معلوم دنیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی سب سے بڑا مقام ہے اور قرآن کریم کی شریعت ہی کامل ہے اور آئندہ زمانوں کے لئے بھی ہے۔ اگر آئندہ کسی وقت کوئی ایسے علاقے یا زون سامنے آئیں اور نئی دنیا کی دریافت ہوئی تو وہاں آباد قوموں کے لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہی یہ شریعت ہوگی اور آپؐ کا ہی پیغام ان تک پہنچے گا۔ کیونکہ آپ کو رحمۃ للعالمین کہا گیا ہے۔
حضور انور نے آسٹریلیا میں آباد Aborigines قوم کی مثال دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ یہ قوم پچاس ساٹھ ہزار سال پرانی ہے۔ لیکن جب اس قوم کے وجود کا پتہ چلا تو پھر ان تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا، اور اس قوم میں سے بعض لوگوں نے اسے قبول بھی کیا۔
٭…ایک بچے نے یہ سوال کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف گئے اور پھر وہاں دفن ہیں۔ عیسائیوں نے بھی اس بارہ میں بہت بہتر ریسرچ کی ہے تو پھر وہ کیوں نہیں مانتے کہ حضرت عیسیٰؑ کشمیر میں دفن ہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ عیسائیوں کی اس بارہ میں بہتر ریسرچ ہے ٹھیک ہے لیکن آنکھیں اندھی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی ایک عیسائی سے بحث ہو رہی تھی۔ آپ نے ثابت کیا کہ تمہارا نظریہ تثلیث کا غلط ہے۔ اس پر عیسائی کو جواب دینے کے لئے کوئی دلیل نہ ملی تو کہنے لگا کہ ایشین کا دماغ ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتا۔
اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے کہا کہ تم نے مسئلہ حل کر دیا ہے۔ تمہاری تو اپنی کتابوں کی رو سے عیسیٰ ؑ ایشین تھے جب ان کو اس مسئلہ کی سمجھ نہیں آئی تو پھر تم کو کہاں آنی ہے۔
٭…ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ اور سیاروں میں زندگی ہے۔ لیکن ابھی تک تو ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن ہر جگہ خدا کی مخلوق ہوسکتی ہے۔
٭…ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ نے جب اس بات کا اظہار کیا کہ میں خداتعالیٰ کی ذات کو دیکھنا چاہتا ہوں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ہرگز مجھے نہ دیکھ سکے گا۔ لیکن تو اس پہاڑ کی طرف دیکھ۔ پس اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو پھر تو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے پہاڑ پر اپنی تجلی کی اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تو موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے۔ حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو نور ہے۔ اس کو کیسے دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ پر ایمان پہلے ہی تھا۔ لیکن خداتعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو خداتعالیٰ کا جلوہ بھی نہ دیکھ سکے۔
حضور انور نے فرمایا خداتعالیٰ تو ہمیں ہر چیز میں نظر آتا ہے۔ آپ کا یہاں فیوجی (Fuji) پہاڑ ہے، درخت ہیں، جنگل ہے، دوسرے پہاڑ ہیں، سبزے ہیں اور زلزلے بھی آتے ہیں۔ ان سب میں خداتعالیٰ کے جلوے، خداتعالیٰ کی قدرتیں نظر آتی ہیں۔
٭…روزانہ موصول ہونے والے خطوط کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا۔ روزانہ پندرہ سو سے دوہزار خطوط ہو جاتے ہیں۔ چھ سات سو خطوط کا میں روزانہ دستخط کرکے جواب دیتا ہوں۔ باقی کچھ جواب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں۔ لیکن مَیں سب خطوط پڑھتا ہوں یا اس کا خلاصہ دیکھ لیتا ہوں۔ اس طرح ہر خط میری نظر سے گزرتا ہے۔
٭…ایک بچے نے سوال کیا کہ حضور انور نے کیا سوچا تھا کہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا جو سوچا تھا وہ بنا نہیں۔ ایک خیال تھا کہ ڈاکٹر بنوں گا، پھر فوج میں بھی جانے کی خواہش تھی جو پوری نہ ہوئی۔
واقفین نو بچوں کی حضور انور کے ساتھ یہ کلاس چھ بج کر پچپن منٹ پر ختم ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں