نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر22)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر22)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ میں احمدی طلباء کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نشست
( منعقدہ6؍مئی 2013 ء ۔ بمقام لاس اینجلس۔ امریکہ)

اس نشست کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمہ سے ہوا جس کے بعد نیشنل سیکرٹری تعلیم USA نے تعارفی ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ سکول اور کالج جانے والے طلباء اور طالبات کا Data مکمل کیا جائے۔ نیز اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کیا روکیں ہیں۔ حضور انور نے ہدایت دی تھی کہ ہر احمدی طالب علم کو کم از کم 12th Grade تک تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور ہمارے احمدی طلباء کا ٹارگٹ Nobel Prize ہونا چاہیے۔
نیشنل سیکرٹری تعلیم نے بتایا کہ اس وقت امریکہ کے مغربی حصّہ کی جماعتوں میں احمدی طلباء کی تعداد 163 اور طالبات کی تعداد 243 ہے۔ طلباء میں سے 94طلباء ہائی سکول سے نچلے لیول میں زیر تعلیم ہیں۔ 32طلباء ہائی سکول میں ہیں اور 19 طلباء Bachelor کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ دس طلباء Associate Degree اور چار طلباء ماسٹرز کر رہے ہیں۔ جب کہ تین طلباء ڈاکٹر بن رہے ہیں اور ایک پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
زبانوں کے جاننے کے لحاظ سے 147 طلباء اردو زبان جانتے ہیں، 24 طلباء سپینش زبان، پانچ طلباء فرنچ زبان جب کہ دو طالب علم چائنیز زبان اور ایک طالب علم Yoruba زبان جانتے ہیں۔
اس رپورٹ کے بعد Ph.D کرنے والے تین طلباء نے اپنے اپنے مضامین پر Presentations دیں اور ریسرچ پیش کی۔
…٭… مکرم ڈاکٹر ارمان بٹ صاحب نے بتایا کہ ان کی ریسرچ کا مقصد انسانی جسم میں مصنوعی آلات مثلاً مصنوعی جوڑ یا Dental Implants کو جسم کے اندر Loosing، Dislocation اور Infection وغیرہ سے بچانا ہے۔ اس کے لئے وہ ان آلات کی Outer Surface یعنی بیرونی تہ کو زنگ آلود ہونے سے بچانے پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ دانتوں کی اس سرجری کے خرچ کا اندازہ گیارہ ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر تک ہے۔
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو بڑا مہنگا علاج ہے۔
…٭… اس کے بعد ڈاکٹر محمد البراقی صاحب نے شہد کی مکھی کے حوالہ سے اپنی ریسرچ پیش کی کہ کیڑے مار ادویات اور مختلف Viruses کس طرح شہد کی مکھی کی بقا، اس کی زندگی اور اس کے کام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ کیڑے مارنے والے کیمیا اور ادویات سے Fungic مارنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور سبزے کے مارنے والے کیڑوں کا Pollen میں پایا جانا شہد کی مکھی کے نقل و حرکت کی تعین کرتا ہے۔ سیاہ رنگ کی مکھی کے خلیوں میں جو Virus پایا جاتا ہے وہ سردی میں زیادہ بنتا ہے اور “Deformed Wing Virus” ہر موسم میں پایا جاتا ہے۔ کیڑے مارنے والے کیمیاوی اجزاء اور Virus کے ملاپ سے مکھیوں کی آبادی کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال پر کہ کیا یہ بات درست ہے کہ اگر ایک شہد کی مکھی مر جائے تو باقی تمام کارکن مکھیاں اس کو چھتّہ سے باہر نکال دیتی ہیں؟ اس پر موصوف نے بتایا کہ ہماری ریسرچ کے مطابق یہ بات بالکل درست ہے۔ شہد کی مکھی بہت صاف ستھری رہتی ہے اور کسی قسم کی گندگی چھتّہ میں برداشت نہیں کرتی۔ چھتہ کے اندر ایک بڑی اعلیٰ تنظیم ہے۔ اس لئے اگر کوئی مکھی مر جائے تو دوسری مکھیاں اس کو چھتہ سے نکال باہر پھینکتی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: شہد کی مکھیوں کا تحقیقی عمل گرم علاقوں میں نسبتاً آسان ہوتا ہے اگریہاں پر مکھیوں کی افزائش کی جائے ۔ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ بالکل ایسے ہی ہے۔ جس قدر زیادہ پھول ہوں گے اور جتنے زیادہ پھولوں کے ادوار ہوں گے اسی قدر شہد کی مکھیاں ترقی کریں گی اور ان کی آبادی بھی بڑھے گی۔ مکھیوں کی افزائش نسبتاً گرم موسم میں ، ان سبزہ زاروں میں بڑی عمدگی سے ترقی کرتی ہے۔ گرم علاقوں میں ایک متوازن آب و ہوا سب سے موزوں ماحول ہے جس میں ترقی سب سے اچھی ہوتی ہے۔ مقامی ماحول کی اچھی مکھیاں افزائش نسل کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: اس بارہ میں آپ کی ریسرچ کیا کہتی ہے کہ اگر چھتّے میں شہد کا سٹاک کم ہو جائے تو کیا وہ کالونی کی زندگی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے؟ موصوف نے عرض کی کہ اگر شہد کی مقدار کم ہو جائے اور زیادہ مقدار میں شہد نکال لیا جائے تو سردیوں میں ان کالونیز کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔
موصوف نے بتایا کہ شہد کی مکھیاں نشے میں مدہوش ہو جائیں تو وہ باقی کالونی کی دوسری مکھیوں کی فاصلے اور سمت کے لحاظ سے غلط نشاندہی کر سکتی ہیں۔ اس طرح غلط نشاندہی کی وجہ سے مکھیاں اپنے ہدف پر نہیں پہنچ پائیں گی۔
Pollenکے حوالہ سے ایک سوال پر موصوف نے عرض کیا کہ Pollen شہد کی مکھی کی غذا ہے۔ اس سے وہ ننھی مکھیوں کے لئے روئی بناتی ہے جو ان کے لئے بطور غذا کے کام آتی ہے۔
موصوف نے بتایا کہ اس بات پر بھی ریسرچ ہو رہی ہے کہ سیٹلائٹ اور موبائل فون وغیرہ کی Rays بھی شہد کی مکھیوں کی ڈائریکشن اور سگنل کو خراب کرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ اپنا راستہ اور سمت کھو دیتی ہیں۔
…٭… بعد ازاں مکرم مظفر احمد ظفر صاحب نے بتایا کہ ہم اس بات پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ مختلف Organisations کیوں کامیاب نہیں ہوتیں؟ وہ کون سی مخفی چیز ہے جو ان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔ ان کی کامیابی کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ اس تحقیق کے تین ادوار ہیں۔ پہلے Phase میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بنیادی وجہ کو معین کریں جو کامیابی میں روک بن رہی ہے۔ ایک بات یہ ہے کہ تنظیمی ساخت کے سلسلہ میں کافی ابہام اور وساوس ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عمل اور اقوال میں تضاد نظر آتا ہے۔
دوسرے Phaseمیں، تنظیم کی وسعت میں تین اجزاء ہیں جن کے توازن سے ترقی کی راہیں استوار ہوتی ہیں۔ یہ اجزاء وہ ہیں جن کے باہم اشتراک سے مزید وسعت اور ترقی کے صحیح خطوط استوار ہوتے ہیں۔ ان کی شناخت کے لئے انٹرویو اور تبصروں کے سلسلہ پر غور اور تدبّر کی ضرورت ہے۔ یہ انٹرویو تنظیم کے کارکنان سے کئے جاتے ہیں۔
تیسرا Phase وہ ہے جب ان تمام انٹرویو اور تبصروں سے ماخوذ Data کو بغور دیکھا جائے جن سے تنظیم کی تشکیل نو ہو سکتی ہے۔
ان Presentationsکے بعد بعض طلباء نے ریسرچ کے حوالہ سے مختلف امور دریافت کئے۔ سوالات کا معیار بہت اچھا تھا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مجھے خوشی ہے کہ بڑی ذہین جنریشن آئندہ آرہی ہے۔
…٭… پروگرام کے آخر پر ایک طالب علم نے معاشرتی برائیوں سے بچنے کے حوالہ سے دریافت کیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ استغفار کیا کرو اور

لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم

پڑھا کرو۔ نیز فرمایا کہ: سوسائٹی میں اچھی چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن جو بری چیزیں ہیں ان سے بچو۔
…٭… ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ یورپین ممالک میں یورپین سٹوڈنٹ ریسرچ میں نہیں جا رہے۔ ان کا اس طرف کم رجحان ہے اس لئے میں نے احمدی طلباء کو کہا ہے کہ وہ اپنے مختلف مضامین میں ریسرچ میں جائیں اور یہ جو ریسرچ کا خلا ہے اس کو پُر کریں۔ اگر آپ لوگ بھی کسی مضمون میں اچھے ہیں تو اس میں ریسرچ کریں۔ یہاں ان ممالک میں ایشین اور افریقن طلباء کو بہت زیادہ تحقیق اور چھان بین کرنے کے بعد اہم اور حسّاس اداروں میں ملازمت ملتی ہے۔ آپ ریسرچ ورک میں جائیں اور اپنا نام پیدا کریں تو پھر آگے بڑھنے کے مواقع بہت زیادہ ہو ں گے۔
…٭… مڈل سکول کے ایک طالب علم نے اپنی کسی تکلیف کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ مدد کرے ۔ حضور انور نے فرمایا ناامید نہیں ہونا، اپنی پڑھائی مکمل کرو، پورے عزم کے ساتھ تعلیم جاری رکھو۔ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں