نہ کوئی موج ہے نہ میلہ ہے – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم دسمبر 2011ء میں مکرم ناصر احمد سید صاحب کی ایک غزل شائع ہوئی ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:

نہ کوئی موج ہے نہ میلہ ہے
آدمی کس قدر اکیلا ہے
ہر کوئی کھیلنے میں ہے مصروف
کھیل کیا زندگی نے کھیلا ہے
رُوح نہ ہو تو جسم ہے کیا چیز
خشک مٹی کا ایک ڈھیلا ہے
عشق کی اَور کوئی ذات نہیں
عشق ہر ذات میں اکیلا ہے
ہر گھڑی آگہی ہے ایک نئی
ہر گھڑی رقص اِک نویلا ہے
جانے کب وہ بہا کے لے جائے
آنکھ میں گمشدہ جو ریلا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں