نیند کے مسائل اور اُن کا حل – جدید تحقیق کی روشنی میں

نیند کے مسائل اور اُن کا حل – جدید تحقیق کی روشنی میں
تحقیق و مرتّب: فرخ سلطان محمود

نیند کے حوالے سے یہ بات بھی دلچسپ اور اہم ہے کہ ہم میں سے بعض کو دوسروں کی نسبت نیند کی قدرتی طور پر زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ذاتی طبائع کے فرق کے علاوہ عمر اور صنف بھی اِس فرق کو نمایاں کرتی ہے۔ چنانچہ ایک تحقیق کے بعد امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند پوری کرنا ہر انسان کی صحت کے لئے ضروری ہے لیکن بچوں میں نیند کی کمی کے اثرات بڑوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ذہن کی نشوونما کا عمل 21 سال تک جاری رہتا ہے اور یہ عمل زیادہ تر نیند کے دوران ہوتا ہے اور اسی لئے ابتدائی عمر میں نیند پوری نہ کرنے کی صورت میں بچوں کا ذہن مکمل نشوونما سے محروم رہ جاتا ہے۔ چنانچہ بچوں میں نیند کی کمی نہ صرف ذہنی صلاحیتوں کو متأثر کرتی ہے بلکہ مستقل ذہنی بیماری کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
برطانوی اخبار ’’دی میل‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین کے لئے نیند کی کمی زیادہ خطرناک ہے اور ایسی خواتین جو دن بھر میں آٹھ گھنٹے سے کم نیند کرتی ہیں ان میں امراض قلب کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ بائیومیڈیکل سکول کی اِس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے ایک تہائی افراد روزانہ پانچ گھنٹے نیند لیتے ہیں جس سے ذیابیطس اور عارضۂ قلب کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ زیادہ نیند سے زکام اور بخار ہونے کے خدشات کم ہوجاتے ہیں۔ بائیوکیمیکل کے پروفیسر میشل ملر کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو سات سے آٹھ گھنٹے تک نیند لینی چاہئے جبکہ خواتین کے لئے نیند پوری کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ شادی شدہ خواتین میں بھی مردوں کے مقابلے میں ہارمونز کے فرق کی وجہ سے دل کی بیماریوں کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کم نیند لینے والے مریضوں کے موٹاپے کا شکار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ برطانیہ کے ایک طبّی مرکز میں ماہرین نے اخذ کیا کہ نیند اور موٹاپے کا آپس میں متضاد قسم کا تعلق ہے یعنی بہت کم یا بہت زیادہ نیند لینے والا مریض موٹاپے کا شکار ہوسکتا ہے۔
ایک تحقیق نے اِس خیال کو ردّ کیا ہے کہ اپنے فرائض کی خوش اسلوبی سے انجام دہی کے لئے پُر سکون نیند ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پُرسکون نیند لینے اور انسان کی کارکردگی کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن پر سکون نیند نہ آنے کا احساس انسانی کارکردگی پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔
جریدے ’سلیپ‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نیند کے بارے میں اپنا اندازِ فکر یا رویہ تبدیل کرلیں تو ہم کم تھکاوٹ محسوس کریں گے۔ یہ تحقیق ایری زونا سٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف نرسنگ اینڈ ہیلتھ انوویشن میں کی گئی ہے جس میں 3078 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جنہیں سونے کے دوران سانس کے مسائل کا سامنا تھا۔ پانچ برس تک اِن افراد کے معمولات پر نظر رکھی گئی، جس سے ظاہر ہوا کہ روزمرہ کے معمولات کی انجام دہی میں صرف ان لوگوں کی کارکردگی خراب تھی جو رات کے وقت پُرسکون نیند نہ آنے کی شکایت کیا کرتے تھے۔ ایسے افراد ڈپریشن اور سماجی مسائل میں بھی مبتلا تھے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نیند کے مسائل میں مبتلا افراد کے مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید خرابی آئی لیکن اس کا ان روزمرہ کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
جن افراد کو نیند نہ آنے کے مسائل درپیش ہیں، اُن کے لئے ماہرین نے کچھ امور خاص طور پر بیان فرمائے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی طور پر رات کی آمد کے ساتھ ہی سونے کی خواہش بیدار ہوجانی چاہئے اور بستر پر لیٹنے کے بعد پندرہ منٹ میں نیند آجانی چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہو تو معلوماتی کتاب کا مطالعہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر نیند نہ آنے کا مسئلہ پرانا ہوجائے تو اس کے لئے عمر کے مطابق ورزش کو معمول بنالینا چاہئے تاہم سونے سے قبل کوئی ورزش نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ اِس طرح آپ کی نیند کی آمد ملتوی ہوجائے گی۔ ورزش کرنے کا بہترین وقت صبح کا ہے جس کا رات کی نیند پر عمدہ اثر پڑے گا۔
دوسری ہدایت یہ ہے کہ سونے سے قبل پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے گریز کریں۔ کیونکہ جب تک کھانا اچھی طرح ہضم نہیں ہوجاتا وہ متحرک رہتا ہے اور بے سکون نیند کا باعث بنتا ہے۔ اس کے لئے سونے سے دو گھنٹے پہلے کھانا کھالینا چاہئے البتہ سونے سے قبل ایک گلاس گرم دودھ پُرسکون نیند لانے میں مدد کرسکتا ہے۔ ماہرین کی تیسری ہدایت یہ ہے کہ اپنے رات کو سونے اور صبح جاگنے کا وقت مقرر کریں اور اپنے مقررہ وقت کی پابندی کریں۔ نیند نہ بھی آرہی ہو تو نیند کا ماحول بناکر وقت پر بستر میں چلے جائیں۔ ماہرین کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جو لوگ زندگی میں مختلف دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، اُنہیں نیند بہت کم آتی ہے۔ لیکن اگر آپ واقعی خود کو ذہنی دباؤ میں محسوس کرتے ہیں تو اُس حوالے سے کسی معالج یا ہمدرد دوست سے استفادہ کریں۔ رپورٹ میں ایک ہدایت یہ بھی ہے کہ سونے سے قبل گرم پانی سے غسل کرلیا جائے۔ اس سے جسم اور دماغ کو پُرسکون رکھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لیکن سونے سے قبل ٹھنڈے پانی سے نہ نہائیں کیونکہ اس طرح آپ خود کو تر وتازہ محسوس کریں گے اور نیند آپ سے دُور ہوجائیگی۔ نیند لانے کے سلسلے میں ماہرین کی آخری ہدایت یہ ہے کہ اپنے بستر کے لئے آرام دہ گدے کا انتخاب کریں، کمرے کو صاف ستھرا، ٹھنڈا اور کم روشن رکھیں۔ اور اپنے سونے والے کمرے کو گہما گہمی والی تقریبات مثلاً پارٹی یا میٹنگ وغیرہ کے لئے استعمال نہ کریں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو بیڈروم میں ٹی وی اور کمپیوٹر بھی نہ رکھیں۔
اور آخر میں پُرسکون نیند کے حوالے سے یہ رپورٹ ہے جس میں ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگ صرف آنکھوں کے ذریعے دماغ پر ہی اثرانداز نہیں ہوتے بلکہ یہ سارے ماحول کو متأثر کرتے ہیں اور نیند کے دوران بھی ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ سونے کے کمرے کا ماحول اور خاص طور پر پردوں، دیواروں اور بستر کا رنگ ہماری نیند پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ رنگوں کے انسانی نیند پر اثرات کا جائزہ لینے کے لئے آسٹریلوی ماہرین نے 200 افراد پر تجربات کئے جن میں انہیں مختلف رنگوں سے مزین ماحول میں سلایا گیا اور اُن کی نیند کو زیر مشاہدہ رکھا گیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ نیلے رنگ سے سجے کمرے میں سونے والے دوسروں کی نسبت زیادہ پُرسکون نیند لیتے رہے جبکہ زرد اور سرخ رنگ کئے ہوئے کمروں میں سونے والوں کی نیند میں نمایاں زیادہ خلل پیدا ہوا اور انہوں نے بے خوابی کی شکایت کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں