واقفین زندگی کے ساتھ الٰہی تائیدات و نصرت

تعارف کتاب (تبصرہ: عبادہ عبداللطیف)

واقفین زندگی کے ساتھ الٰہی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین نومبر دسمبر 2014ء)

انسان اپنی ذات میں جس قدر بھی بلند و بانگ دعوے کرلے وہ تب بھی اُس قادر و مقتدر ہستی کا محتاج ہے جس کی اجازت کے بغیر کسی انسان کی جسمانی بالیدگی یا ذہنی نشوونما اپنے نفسی نقطۂ عروج تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ پھر یہ اُسی احکم الحاکمین کے فیصلے ہیں کہ اُس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے والوں کو اُن کی نیتوں کے مطابق اجر عطا کئے جاتے ہیں اور دنیا کی نظروں میں بظاہر نہایت کمتر اور حقیر نظر آنے والے وجود بھی اشرف المخلوقات میں ممتاز و نامور دکھائی دینے لگتے ہیں۔ آج ہمارے پیش نظر ایک ایسی ہی کتاب ہے جس میں اُن افراد کے ساتھ ربّ کریم کے حسن و احسان کا ایک خاص سلوک دکھائی دیتا ہے جنہوں نے اُس کے دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں پیش کرنے کی سعادت پائی اور پھر اُن کے ہر سانس نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے اپنے آقا و مولا کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے جو عہد کیا تھا، مقدوربھر مساعی کے ذریعے اپنے عہد کو پورا کرنے کی توفیق بھی پائی ہے۔ اُن کی مساعیٔ جمیلہ جہاں اپنے ربّ اور اُس کے پیاروں سے عشق اور اُس کے دین سے سچی محبت کی عکاس ہے وہاں سوز و گداز سے لبریز اور گریہ و زاری سے لبالب اُن نیم شبینہ دعاؤں کی بھی آئینہ دار ہے جن سے اُن کی روح کو آستانۂ الوہیت پر پگھلتے چلے جانے سے مَن کی وہ شکتی عطا ہوئی کہ وہ اپنی ذات میں ایسے روشن چراغ کی مانند اپنے معاشرہ میں پہچانے جانے لگے جنہیں دیکھ کر سینکڑوں اور ہزاروں کو صراط مستقیم پر چلنا نصیب ہوا۔
پس واقفین زندگی … ایسے مخلصین کا لقب ہے جو حقیقی زندگی کے اسرار و رموز سے ایسے واقف ہوئے کہ گویا خدمت میں جس قدر بھی ترقی کی غالبؔ کا یہ شعر اُسی قدر اُن کی ذات سے وابستہ نظر آنے لگا کہ:
جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
امرِ واقعہ یہی ہے کہ ایسے وجود ہی کسی قوم کا وقار اور قومی زندگی کی ضمانت ہوا کرتے ہیں۔
جس قوم میں شہادت کا عزم ایک دولت متصوّر ہو اور زندگیاں وقف کرنے کی تڑپ کو نعمت عظمیٰ قرار دیا جائے، ایسی عظیم الشان قوم کو مٹانے کا زُعم لے کر اگر کوئی بدبخت سوچ کبھی اُٹھنا بھی چاہے گی تو محض چند ناکامیوں اور نامرادیوں کے سوا اُس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آسکے گا۔
جو لوگ اپنی عزیز ترین زندگی کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں وہ خود بھی جانتے ہیں اور اُن کے قرب و جوار میں رہ کر مشاہدہ کرنے والے بھی اس امر سے واقف ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اُن وجودوں کی خاطر ایسے خارق عادت معجزات اور نشانات ظاہر کرتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف اُن مجاہدین کے دل امتنان و شکر اور حمد کے جذبات سے مغلوب نظر آتے ہیں بلکہ اُن کی نسلیں بھی ظہورِ معجزات سے مسرور دکھائی دیتی ہیں۔ محترم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب نے اپنی کتاب میں ایسے ہی ہزاروں فدائیانِ احمد میں سے چند ایک کی زندگیوں کے بعض روشن پہلوؤں کو پیش کرنے کی نہایت کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ چند ایسے سرفروشوں کی داستانیں ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر ہمّت و استعداد کے ذریعے دعوت الی اللہ کی مہم میں ایسی سعیٔ مشکور سرانجام دینے کی توفیق پائی جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اُن کی زبان و بیان میں وہ برکت رکھ دی کہ اُن کی زبان سے اداشدہ الفاظ ہی نہیں بلکہ اُن کے قلب صافی میں موجزن پاکیزہ خواہشات بھی دربار الٰہی میں قبولیت کا شرف پانے لگیں اور روح القدس کے ذریعے ظہور میں آنے والی تائید کے نظاروں پر ایک دنیا گواہ ٹھہرائی گئی۔
’’واقفین زندگی کے ساتھ الٰہی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ‘‘ A5 بڑے سائز کے 760 صفحات پر مشتمل یہ مجلّد کتاب ظاہری طور پر بھی خوبصورتی کا مرقّع ہے۔ کتابت (ٹائپنگ) و طباعت نہایت عمدہ ہے۔ کتاب کے آغاز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسی پاکیزہ ہستیوں کی زندگیوں میں پیش آنے والے بے شمار غیرمعمولی معجزات میں سے چند ایک کا ذکر ہے۔ پھر بعض بزرگانِ امّت اور خلفاء عظّام کی زندگیوں کے بعض ایمان افروز پہلوؤں کا بیان ہے۔ اس کے بعد قریباً 70 واقفین زندگی کے سینکڑوں ایسے واقعات شاملِ کتاب ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان واقفین زندگی کے ساتھ اس عارضی دنیا میں احسان و اکرام کا کس قدر سلوک روا رکھا اور اُس کے فضل سے ہی امید ہے کہ وہ ان وفاداروں کو اپنی رضا کی اُن جنتوں کا بھی وارث بنائے گا جن کے ثمرات اِسی دنیا میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان واقفین زندگی میں چند صحابہ کرام بھی شامل ہیں اور بہت سے ایسے فدائی وجود بھی جن کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، نشست و برخواست… غرضیکہ ہر قول و فعل اور حرکت و سکون محض اپنے ربّ رحمن کی رضا کے حصول کے لئے وقف ہوچکا تھا۔ کتاب میں شامل بہت سی تصاویر سے بعض فرشتہ سیرت وجودوں کی ظاہری پاکیزگی کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے جن کے زندگی کے دلکش پہلوؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کا دل خدا تعالیٰ کی محبت کا اسیر ہوئے بِناء نہیں رہ سکتا۔ پس اس کتاب کا مطالعہ تعلق باللہ کے حوالہ سے بھی نہایت مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کتاب کے تراجم بعض دیگر زبانوں (مثلاً عربی، انگریزی اور فرانسیسی) میں بھی کئے جارہے ہیں۔
اس کتاب کی تالیف کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ محترم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب کی ایک پہلی تصنیف ’’وقف زندگی کی برکات‘‘ کے موضوع پر طبع ہوکر احباب جماعت سے سند قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اُس کتاب کی اشاعت کے بعد خاکسار نے نہ صرف خود اسے پڑھا تھا بلکہ اپنے بعض دوستوں کو بھی برائے مطالعہ پیش کی تھی۔ تب ایک عزیز نوجوان نے مجھے بتایا کہ کتاب پڑھ کر وہ خود بھی زندگی وقف کرنے کا اپنا ارادہ پختہ کرچکا ہے۔ اُس کتاب میں واقفین زندگی کے ایمان افروز واقعات کے حوالہ سے بھی ایک باب شامل ہے۔ اور دراصل اِس دوسری کتاب کی داغ بیل اُسی باب کی مرہون منت ہے۔ اور امر واقعہ یہی ہے اِس کتاب نے دنیائے احمدیت کے ادبی ذخیرہ میں نہایت گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ اور اِس امر میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس میں شامل مواد، اس کی ترتیب اور پیشکش کی جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ ایسی ایمان افروز داستانیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی روشنی کا ایک مینار ثابت ہوں گی اور اس کتاب کے مؤلف کے لئے کی جانے والی دعاؤں کے اَنمول ذخیرہ میں قیامت تک اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
محترم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب ایک علم دوست شخصیت ہیں اور اب تک آپ کی 5 ضخیم کتب طباعت کے مراحل سے گزر کر علمی طبقۂ فکر سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں جبکہ چند مزید کتب بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ آپ کے بے شمار علمی و تحقیقی مضامین مختلف بلند پایہ جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ نیز دنیاوی طور پر اعلیٰ سطحی کانفرنسوں کے علاوہ مختلف ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ سمیت متعدد اجتماعات میں کی جانے والی آپ کی تقاریر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نہایت نپی تُلی، منطقی اور تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی مؤثر گفتگو کرنا آپ کا خاصہ ہے جو دراصل آپ کے مثبت انداز فکر کی ہی عکاس ہے۔ شفقت و نرم گفتاری کا جو پہلو آپ کی شخصیت کا حصہ ہے اُس کا عکس آپ کے حُسن خطابت اور قوّت تحریر میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ کو اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لئے اردو اور انگریزی زبان پر یکساں قدرت حاصل ہے۔
اگرچہ محترم ڈاکٹر صاحب کی دنیاوی مصروفیات گوناگوں ہیں اور ان کا اندازہ اُن مراتب اور شاندار اعزازات سے کیا جاسکتا ہے جن سے مختلف سطحوں پر آپ کو نوازا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود آپ کی علمی اور عملی دینی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دراصل آپ ایک حقیقی واقف زندگی کی طرح سے ہی اپنے شب و روز بسر کررہے ہیں اور اس پہلو سے آپ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کو اعزازی مبلغ کے خطاب سے نوازا تھا اور آپ کی اُس مساعی کو نہایت پیارے الفاظ میں قبولیت کی سند بخشی تھی جس کے نتیجہ میں متعدد ممالک خصوصاً مشرق بعید کے جزائر میں احمدیت کا پیغام پہنچنے کی صورت پیدا ہوئی تھی۔ کئی ممالک میں خلیفۂ وقت کے نمائندہ کی حیثیت سے خدمات بجالانے کی توفیق بھی آپ کو مل چکی ہے۔
خلیفۂ وقت کی مثالی اطاعت کرتے ہوئے (کسی صلہ کی پرواہ اور تحسین کی تمنّا کئے بغیر) نہایت انکساری سے خدمتِ دین اور خدمتِ خلق کرتے چلے جانا محترم ڈاکٹر ایازؔ صاحب کا شیوہ ہے۔ آپ کی خدمات کے حوالہ سے کہی جانے والی جناب عبدالکریم قدسیؔ صاحب کی ایک طویل نظم کا پہلا بند کچھ یوں ہے کہ:

ڈاکٹر ایازؔ ، امن و محبت کا اِک چراغ
وہ گفتگو کریں تو طبیعت ہو باغ باغ
قدرت نے اعلیٰ بخشا ہوا ہے انہیں دماغ
وہ صاحبِ قلم ہیں ، مقرر کمال ہیں
وہ عجز و انکسار کی اعلیٰ مثال ہیں

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی کو شرف قبولیت عطا فرماتا چلا جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں