وقت پہلے بھی ہم پہ کڑے آئے تھے – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 2011ء میں مکرم مبارک صدیقی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ اس طویل نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

وقت پہلے بھی ہم پہ کڑے آئے تھے
اُن کے جیسے ستم گر بڑے آئے تھے
تب بھی آنسو دمک کے ستارے ہوئے
اب بھی موسم لہو سے نکھر جائیں گے
دن گزرتے ہیں یہ بھی گزر جائیں گے

شہرِ دار و رسن میں نیا کچھ نہیں
قتلِ انسانیت کی سزا کچھ نہیں
ہم بھی چلتے ہیں سر پہ کفن باندھ کے
تاک اہلِ جفا کے نشانے بھی ہیں
جان دینے کو لاکھوں دِوانے بھی ہیں

وہ جو سورج سے اُس کی ضیا چھین لیں
وہ جو گلشن سے بادِ صبا چھین لیں
وہ جو ہم سے ہماری وفا چھین لیں
ایسے طوفان اب تک بنے ہی نہیں
ایسے زندان اب تک بنے ہی نہیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں