وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعًا

محمد کریم الدین شاہد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 31 مئی 2022ء)
خلافت احمدیہ کے حوالے سے مکرم محمد کریم الدین شاہد صاحب کی جلسہ سالانہ برطانیہ 2013ء کے موقع پر کی گئی تقریرمجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرودسمبر 2013ء کی زینت ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔اور اپنے اُوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے)تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پاجاؤ۔ (آل عمران:103)
’حَبْلُ اللہ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ نے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم تفرقہ اور انتشار سے بچ جاؤگے۔تمہارا شیرازہ قائم رہے گا۔تمہارے اندر قومی اور ملّی وحدت کا قیام ہوگا۔اور یہ اتحاد اُمتِ واحدہ بننے کا ضامن ہوگا۔
مفسّرین نے حبل اللہ سے مراد قرآن مجید، اسلام، اطاعتِ رسول ﷺ اور جماعت مومنین سے موافقت اختیار کرنا لیا ہے۔لیکن ان سب باتوں کے ساتھ دراصل یہ نبوّت اور خلافت ہی کا وجود ہےکیونکہ بغیر نبوّت کے کلام الٰہی اوراس کی اتباع ممکن نہیں اور نہ ہی جماعت مومنین سے موافقت اختیار کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان

قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ (آل عمران:32)

کہ ’’توُ کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘ کے مطابق رسول ﷺ کی پیروی کے بغیر اللہ کی محبت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ اللہ کی وہ مضبوط رسی ہیں جس کو مضبوطی سے پکڑے بغیر نہ اللہ کی محبت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی قوم کا شیرازہ مجتمع رہ سکتا ہے۔اور حضور ﷺ کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ ہی وہ اللہ کی مضبوط رسّی ہے جس کے ذریعہ اتحادِ ملّت وابستہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرو۔کیونکہ وہ دونوں خدا کی وہ لمبی رسّی ہیں کہ جس نے ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا ،اس نے نہ ٹوٹنے والے کڑ ے کو پکڑ لیا۔ (تفسیرالدّر المنثور جز اول صفحہ584)
پس آسمان سے اترنے والی یہ حبل اللہ پہلے نبوت اور پھر خلافت ہی ہے جو بنی نوعِ انسان کے لیے ایک انقلاب انگیز،عہد آفرین اور تاریخ ساز دَور کا آغاز کیا کرتی ہے۔ چنانچہ وحشی اور درندہ صفت قوم نے جب آنحضرت ﷺ جیسے مزکیّ اور مقدّس رسول کا دامن تھاما اور حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا تو اُن کی کایا پلٹ گئی۔اور تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے خالص توحید کے علمبردار اور زندگی بخش و خُدا نما پیغام سے تمام معمورئہ عالم کو منوّر کرنے کے لیے یہ جماعت مجسّم عمل بن کر ہر مشکل سے ٹکرا گئی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزراکہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پُشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بِینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں یکدفعہ ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا۔کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا ؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا۔اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّیِ بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللَّھمّ صلِّ وسلّم وبارک علیہ واٰلہٖ۔‘‘

(برکات الدعا۔روحانی خزائن جلد6صفحہ10-11)

حضور علیہ السلام اپنے ایک عربی شعر میں فرماتے ہیں:

(ترجمہ) اَے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپؐ نے اپنی قوم کو گوبر کی طرح ذلیل حالت میں پایا تھا۔ لیکن اپنی قوت قدسیہ کے ذریعہ انہیں آپؐ نے سونے کی ڈالیوں کی مانند بنا دیا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک فرانسیسی مؤرخ لکھتا ہے کہ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر آتی ہے کہ ہمیں چند آدمی پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں جس پر کھجور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی اور جو ذرا سی بارش سے بھی ٹپکنے لگ جاتی تھی، سرگوشیاں کرتے دکھلائی دیتے ہیں اور جب ہم ان کے قریب پہنچ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو کس طرح شکست دیں۔اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چند سالوں کے اندر اندر واقعہ میں ایسا ہی ہوگیا اور اُن بے سرو سامان اور کمزور درویشوں نے قیصر و کسریٰ کی حکومت کو پاش پاش کر دیا۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ303)
خلافت راشدہ کے دَور میں جب مسلمانوں نے ایران و روم کو فتح کر لیا تو قیصر و کسریٰ خلفاء کرام کے احکام پر بےچون و چرا عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنی خصوصیات کو ترک کرتے گئے اور حبل اللہ سے اپنا دامن چھڑا لیا تو اُن کے اندر اندرونی اور بیرونی زوال شروع ہو گیا۔ اُمّتِ مسلمہ فرقہ در فرقہ بٹتی چلی گئی۔ کُفر سازی۔ قتل و غارت گری اور باہمی نفرتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ایسے ہی پُرآشوب دَور کے متعلق آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ (ترجمہ:) جب تک اللہ چاہے گا تم میں نبوّت قائم رہے گی پھر اُسے اُٹھا لے گا اور بعدہ نبوّت کے طریق پر خلافت (راشدہ)ہوگی۔جو اللہ کے منشاء تک رہے گی، پھر اسے بھی اللہ اُٹھا لے گا۔پھر سخت گیر بادشاہی ہوگی۔اُسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا۔پھر اُسے بھی اُٹھا لے گا۔پھر جابرانہ سلطنت ہوگی جو منشاء باری تک رہے گی پھر اُسے بھی اُٹھا لے گا۔اور اس کے بعد نبوّت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی پھر آپؐ چپ ہوگئے۔ (مسند احمد بن حنبلؒ جلد 5صفحہ 404)
گویا آنحضرتﷺ نے اُمّتِ محمدیہ میں خلافت علیٰ منھاجِ نبوّت کے دو اَدوار کی بشارت فرمائی ہے جن کے درمیانی زمانہ میں دنیوی بادشاہت ہوگی۔ چنانچہ پہلے دَور کی خلافت حضرت ابو بکرؓ کے ذریعہ قائم ہوئی اور آنحضور ﷺ ہی کی ایک پیشگوئی کے مطابق الخلافۃ ثلاثون سنۃً۔ (مشکوٰۃ) تیس سال کے بعد 40 ہجری میں حضرت علی ؓکی شہادت کے ساتھ اس خلافتِ راشدہ کا خاتمہ ہوگیا۔ بعد ازاں خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو کر ظالم و جابر حکمرانوں کے ایک طویل اور پُرازمصائب دَور سے گزرتی ہوئی اُمّتِ محمدیہ اس آخری زمانہ میں پہنچی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر خاص اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر دوبارہ خلافت علیٰ منھاجِ نبوّت کا سلسلہ قائم فرما دیا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں خلافت علیٰ منھاجِ نبوت کایہ دوسرا دوَردائمی ہے جس کا اشارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سکوت اور خاموشی سے دیا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اس کے دائمی ہونے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا: ’’سو اَے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلادے۔سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہترہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جائوں۔لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘ (رسالہ الوصیّت صفحہ 7)
پس یہی وہ حبل اللہ اور عظیم نعمت الٰہی ہے جس سے آج کے دَور میں اُمّتِ مسلمہ کی وحدت اور شیرازہ بندی وابستہ ہے۔نظام خلافت کے قیام اور استحکام کے علاوہ کوئی اَور دنیاوی تحریک و تدبیر مسلمانوں کی موجوہ پستی اور زبوں حالی اور افتراق و تشتّت کو دُور کرنے اور اسلام کی عظمت و غلبہ کو ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔مسلمان مفکّرین اور دانشور اس کا اظہار وہ بارہا کر چکے ہیں۔ چنانچہ مفکّرِ اسلام مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں: ’’اتنے تفرق اور تشتّت کے باوجود کبھی کسی کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ عراق کا مُنہ کدھر اور شام کا رُخ کس طرف ہے۔مصر کدھر اور حجاز کدھر ،یمن کی منزل کون سی ہے اور لبنان کی کونسی۔ایک خلافت اسلامیہ آج ہوتی تو اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑیوں میں آج مملکتِ اسلامیہ کیوں تقسیم در تقسیم ہوتی … تُرک اور دوسرے مسلم فرمانرواآج تک تنسیخِ خلافت کی سزا بھگت رہے ہیں۔اور خلافت کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی قومیّتوں کاجو افسوں شیطان نے کان میں پھُونک دیا ہے وہ دماغوں سے نہیں نکالتے۔‘‘ (صدق جدید لکھنؤ یکم مارچ 1974ء)
مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی نے لکھا کہ: ’’اِس وقت عالمِ اسلام خلافت کے اُس ضروری ادارے اور اُس مبارک نظام سے محروم ہے جس کے قیام کے مسلمان مکلّف بنائے گئے تھے۔اور جس کی محرومی کا جُرمانہ وہ مختلف شکلوں میں ادا کر رہے ہیں۔‘‘ (اخبار تعمیر حیات لکھنؤ 25اگست 1988ء)
اہلِ سنّت والجماعت کا پاسبان رسالہ ’’جدوجہد‘‘ لاہور لکھتا ہے: ’’سب سے بڑا ظلم جو مسلمانوں نے اپنی خود غرضی کی بنا ء پر کیا وہ یہ تھا کہ خلافت علیٰ منھاجِ نبوّت کا سلسلہ ختم کر کے دم لیا اور اُمّتِ مسلمہ کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح جنگل میں ہانک دیا کہ جاؤ چروچگُواوراپنا پیٹ پالو۔ صرف خلافت ہی ایسامنصب تھا جو مسلمانوں کو منتشر ہونے کی بجائے ایک مرکز پر جمع رکھتا اور ایک نصب العین مقرر کر کے ان کی تنظیمی قُوّت کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘ (ماہ دسمبر 1960ء)
مدیر ہفت روزہ ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ لاہور نے لکھا: ’’اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں بھی ایک دفعہ خلافت علیٰ منہاجِ نبوّت کا نظارہ نصیب ہو گیا تو ہو سکتا ہے کہ ملّتِ اسلا میہ کی بگڑی سنور جائے اور رُوٹھا ہوا خدا پھر سے مَن جائے اور بھنور میں گھری ہوئی ملّتِ اسلامیہ کی یہ نائو شاید کسی طرح اُس کے نرغے سے نکل کر ساحلِ عافیت سے ہمکنار ہو جائے۔ ورنہ قیامت میں ہم سب سے خُدا پوچھے گا کہ دنیا میں تم نے ہر ایک کے اقتدار کے لیے زمین ہموار کی۔کیا اسلام کے غلبہ اور قرآن حکیم کے اقتدار کے لیے بھی کچھ کیا!؟‘‘ (12دسمبر 1969ء)
’’اسلامِک دعوہ سنٹر‘‘ امریکہ لکھتا ہے کہ: ’’آج مسلمان ہر طرف سے کافروں کے چنگل میں ہیں۔یوگو سلاویہ میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو یا ایتھوپیا اور صومالیہ میں قحط، پاکستان میں قتلِ عام ہو یا کشمیر کے مسائل … ان سب مسائل کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے خلافت کا قیام۔دُنیا بھر کے سب مسلمانوں پر خلافت کا قیام اور پھر اُن پر صرف ایک خلیفہ کا رہنا ایسے فرائض کی طرح ہے جن کو چھوڑ دینا اللہ عزّ و جلّ نے حرام قرار دیا ہے۔یہ فرض ایسا فرض ہے جس سے کسی مسلمان کی پسند یا ناپسند کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اور نہ ہی اس فرض کی تکمیل میں کوئی غفلت ،تساہل یا لاپرواہی ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے خلافت کے فرض کو اتنی اہمیت دی ہے جس کی کوتاہی سے اللہ تعالیٰ انہیں شدید ترین عذاب دے گا۔‘‘ (ندائے خلافت 29ستمبر تا 12اکتوبر 1992ء)
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمان علماء اور دانشوروں نے خلافت کے قیام کے لیے کوششیں بھی بے شمار کیں کہ کسی طرح اُمّتِ مسلمہ میں اتحاد پیدا ہو جائے لیکن ناکامی و نامرادی ہی ان کا مقدر بن گئی۔ان کوششوں کے حسرتناک انجام کے بارے میں علاّمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں : ’’مسلمانوں کا سیاسی انتشار اب کچھ چھپا راز نہیں۔ہم نے پہلے لیگ بنائی۔پھر خلافت قائم کی۔پھر جمعیت کھڑی کی۔ بعد ازاں مسلم کانفرنس کو پیدا کیا۔پھر جماعت احرار میدان میں آئی۔ ان میں سے ہر ایک کو مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا دعویٰ ہے اور ہر ایک پوری قوم کی زبان ناطق بننے کی مدّعی۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کا کوئی پروگرام اب تک نہ قابلِ عمل ہو سکا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔اس سے پہلے کہ مسلمانوں کی اصلاح کی دعوت دی جائے،ضرورت ہے کہ ان انجمنوں کی شکست وریخت کی جائے۔ان میں سے بعض کو دفن کر دیا جائے اور بعضوں کے مقاصد بدل دیے جائیں اور صرف ایک انجمن قائم رکھی جائے۔‘‘ (رسالہ معارف ستمبر 1993ء)
پس امرِ واقعہ یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق مسلمانوں کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کا مصداق بن جائیں تو اُن سے اتحادِ اُمّت کی توقع کرنا ایک امرِ محال ہے۔کیونکہ دلوں کو جوڑنا، اُن میں باہمی اُلفت و محبت پیدا کرنا اور پھر پوری اُمّت میں وحدت اور اتحاد پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے ما مُو و مُرسل ہی کیا کرتے ہیں۔ اور اسی کے لیے خدا تعالیٰ نے چودھویں صدی کے سر پر خلیفۃ المہدی مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور اس خاتم الخلفاء کو یہ حکم دیا کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو دین واحد پر (تذکرہ صفحہ 490)۔ اور آپ کو یہ دعا بھی سکھائی

رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔

اے اللہ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح فرمادے۔ (براہین احمدیہ جلد اول صفحہ266)۔ آپؑ کا فارسی الہام بھی ہے کہ (ترجمہ) جب فارسی الاصل بادشاہ کا دور شروع ہوگا تو نام نہاد مسلمانوں کو از سرِ نَو مسلمان کیا جائے گا۔ (تذکرہ صفحہ 514)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تعلق سے فرماتے ہیں : ’’خد ا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام رُوحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں۔ کیا یورپ اور کیا ایشیا، اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کر ے۔یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (الوصیّۃ)
آپؑ فرماتے ہیں : ’’اس زمانہ کا حصنِ حصین مَیں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتاہے وہ چوروں اور قزاقو ں اور درندو ں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اُس کو موت درپیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘ (فتح اسلام صفحہ34)
اور فرمایا: ’’خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیٰحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا ،بادشاہ ہو یا غیربادشاہ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 302)
پس حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاء ہی اس زمانہ میں وہ حبل اللہ ہیں جس سے آنکھیں مُوند کر مسلمان مفکّرین حسرت سے آہیں بھر رہے ہیں اور ایسی صورت میں ان کا مقدر سوائے محرومی اور ناکامی کے اَور کچھ نہیں ہوسکتا۔ وہ خلافت جو اتحاد قائم کرتی ہے، جس سے تمکنِ دین وابستہ ہے، جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور اسلام کے عالم گیر غلبہ کی ضامن ہے وہ انسان کے ہاتھ سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ سے قائم ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ نے خلافتِ احمدیہ کی صورت میں جاری کردی ہے جس کے پیچھے رہ کر ہی موجودہ زمانے کی دجالی سازشوں اور فتنوں سے بچا جاسکتا ہے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ امّتِ مسلمہ کے 72 فرقے اپنے اندرونی شدید اختلافات اور فتاوٰیٔ کفر کے باوجود اگر کبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہیں تو وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ یا قادیانیت کے نام پر ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت اس بات کا اشارہ کر رہی ہے کہ چاہے منفی رنگ میں ہی سہی اگر یہ 72 فرقے کبھی متحد ہوسکتے ہیں تو صرف احمدیت کے نام پر ہی متحد ہو سکیں گے۔
جماعت احمدیہ مخالفین کی حد درجہ مخالفت اور سینکڑوں افرادِ جماعت کی شہادتوں اور قُربانیوں کے باوجود اگر منزل بہ منزل ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور

یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْضَ بِھِمُ الکُفَّارَ

کے مصداق احمدیت کی کھیتی سر سبز ی و شادابی سے لہرا لہرا کر مخالفین کے سینے پر مونگ دل رہی ہے تو اس کا راز حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لینے میں ہی پنہاں ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :


’’میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو۔قرآن تمہارا دستورِعمل ہو۔باہم کوئی تنازع نہ ہو۔کیونکہ تنازع فیضانِ الٰہی کو روکتا ہے … چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مُردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظُلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔استغفار کثرت سے کرو اور دُعائوں میں لگے رہو۔وحدت کوہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملہ گی میں کوتاہی نہ کرو۔تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔پس اس نعمت کا شُکر کرو۔کیونکہ شُکر کرنے پر ازدیادِ نعمت ہوتا ہے۔‘‘(خطباتِ نُور صفحہ 131)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:

’’اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ خلافت حبل اللہ ہے اور ایسی رسّی ہے کہ اس کو پکڑ کر تم ترقی کر سکتے ہو۔اِس کو جو چھوڑ دے گا وہ تباہ ہو جائے گا۔‘‘ (درس القرآن فرمودہ یکم مارچ 1912ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا :

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

’’ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس کے شکرگزار بندے بن کے اپنی زندگیوں کے دن گذاریں اور جماعت کے اندر اتحاد اور اتفاق کو ہمیشہ قائم رکھیں۔اور اس حقیقت کو نظر انداز نہ کریں کہ سب بزرگیاں اور ساری ولایت خلافتِ راشدہ کے پاؤں کے نیچے ہیں۔‘‘ (تعمیر بیت اللہ کے 23عظیم الشان مقاصد صفحہ 116)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا:

’’پس یاد رکھیں کہ آپ کی وحدت خلافت سے وابستہ ہے۔اور اُمّتِ واحدہ بنانے کا کام خلافتِ احمدیہ کے سپرد ہے اَور کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا۔میں خدا کی قسم کھا کر اِس مسجد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں کو اُمّتِ واحدہ بنانے کا کام خدا تعالیٰ نے اس دَور میں خلافتِ احمدیہ کے سپرد کر دیا ہے۔جو اس سے تعلق کاٹے گا وہ اُمّتِ واحدہ سے اپنا تعلق کاٹے گا اور اس کی کوئی کوشش خواہ نیکی کے نام پر ہی ہو کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 16جولائی 1993ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’واضح ہو کہ اب اللہ کی رسّی حضرت مسیح موعودؑ کا وجود ہی ہے۔آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے۔اور پھر خلافت سے چمٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا۔ خلافت تمہاری اکائی ہوگی اور خلافت تمہاری مضبوطی ہوگی۔ خلافت تمہیں حضرت مسیح موعودؑ اور آنحضرتﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی۔پس اس رسّی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا۔نہ صرف خود برباد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کر رہا ہوگا … آج ہر احمدی کو حبل اللہ کا صحیح ادراک اور فہم حاصل کرنے کی طرف توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔صحابہ کی طرح قربانیوں کے معیار قائم کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔قرآن کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ اگر فردِ جماعت اس گہرائی میں جاکر حبل اللہ کے مضمون کو سمجھنے لگے تو وہ حقیقت میں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنّت نظیر معاشرہ کی بنیاد ڈال رہا ہوگا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 26اگست 2005ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں