وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا

جماعت احمدیہ سویڈن کے سہ ماہی رسالہ ’’ربوہ‘‘ جنوری، فروری، مارچ 2006ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی سیرۃ پر مکرم سہیل ثاقب بسراء صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1914ء میں مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلے جلسہ سالانہ پر ہی برکاتِ خلافت کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ اس میں آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے۔ کوئی بھی فرق نہیں لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق ہے بھی اور وہ یہ ہے کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگر ان کے لئے نہیں۔ تمہارا اُسے فکر ہے، درد ہے اور تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔‘‘
٭ محترم عبدالسلام اختر صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے بچوں کے استاد تھے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ غالباً 1956ء کا ذکر ہے کہ حضور علیہ السلام کے قافلے کے ہمراہ خاکسار بھی مری گیا۔ سیدہ مہر آپا اور صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب مجھ سے پڑھتے تھے اور ہم سب خیبر لاج میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ عید کے دن قریب تھے اور بہت سے دوست عید کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ خاکسار کی اہلیہ اور بچے اس وقت ربوہ میں رہتے تھے … جب عید کو دو دن رہ گئے تو اچانک حضور ہماری پڑھائی کے کمرہ میں تشریف لائے اور فرمایا: ’’آپ عید پر گھر تو جانا چاہتے ہوں گے؟ ‘‘ میں نے بصد ادب عرض کیا ’’حضور! گھر تو یہی ہے ابھی تو یہاں آکر صرف 10-8 دن ہوئے ہیں‘‘۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’مگر آپ کے بچوں نے تو بھی عید کرنی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر تبسم فرمایا اور تشریف لے گئے۔ چند لمحوں کے بعد حضورؓ کی طرف سے ایک صد روپیہ کا نوٹ خاکسار کو موصول ہوا۔ میں اس بندہ نوازی پر حیران تھا اور بے حد ممنون بھی۔ کیونکہ میرے چھوٹے بیٹے نے میرے ربوہ سے روانہ ہوتے وقت مجھ سے پوچھا تھا ’’ابّا آپ عید کو آئیں گے نا‘‘؟ مجھے دفعۃً اس کا خیال آیا اور میں اللہ تعالیٰ کی ذرّہ نوازی پر سر بسجود ہوگیا۔
٭ مکرم لطیف احمد صاحب ننھا بیان کرتے ہیں کہ 1914 ء کا واقعہ ہے کہ حضورؓ ڈلہوزی میں تھے۔ وہاں سے ایک دن سیر کے لئے دیان کنڈ پہاڑی پر تشریف لے گئے۔ وہاں چائے کا بھی پروگرام تھا مگر اتنے میں بارش شروع ہوگئی۔ میں اور دیگر خدام آگ جلانے میں مصروف تھے مگر لکڑیوں کے گیلے ہونے کی وجہ سے بڑی دقّت تھی اور پتھروں کے چولہے پر جھکے پھونکیں مار رہے تھے کہ اتنے میں حضور خود دو چار سوکھی لکڑیاں لئے تشریف لے آئے اور ہمارے سروں پر چھتری کر دی۔ ہم نے وہ لکڑیاں رکھ کر آگ جلائی۔ جب تک پانی اُبل نہیں گیا حضور چھتری کا سایہ کئے دھوئیں میں ہمارے پاس ہی کھڑے رہے۔
٭ مکرم مرزا فتح دین صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ اپنے خدام کے کھانے اور رہائش کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضور باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھایا اور سب کو ایک ایک پراٹھا اور ایک سادہ یا زیادہ روٹیاں دیں۔ جب کھانا کھا چکے تو نذیر احمد صاحب ڈرائیور جو serve کررہے تھے، انہیں فرمایا: آپ بھی کھانا کھالیں۔ پھر حضورؓ نے اپنے سامنے سے ایک پراٹھا اٹھاکر انہیں دیا اور فرمایا کہ میں نے دو اٹھا کے رکھ لئے تھے۔ تا ایسا نہ ہو کہ کھا نے والے اس بات کو بھول جائیں کہ serve کرنے والے نے بھی کھانا ہے!۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں