پارٹیشن کے زمانہ کی چند یادداشتیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 اگست 2010ء کے شمارہ سے تین اقساط میں محترم سید میر محمد احمد صاحب کا ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس میں جماعت احمدیہ کے اُن ہوائی جہازوں کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے جو قیام پاکستان کے وقت مختلف خدمات کو بجالانے کے لئے استعمال کئے گئے تھے۔
مضمون نگار تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ ایک ذہین، بیدار مغز، بہادر ، اولوالعزم اور دُور اندیش لیڈر تھے۔ آپؓ کی دُوربین نگاہ نے پارٹیشن سے بہت عرصہ پہلے ہی یہ اندازہ لگالیا تھا کہ چونکہ قادیان کے اردگرد متشدد مزاج سکھوں کے بہت سے گاؤں آباد ہیں اس لئے بدامنی کی صورت میں قادیان کا زمینی رابطہ باقی دنیا سے کٹ سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارا بھی ایک آدھ چھوٹا ہوائی جہاز ہونا چاہئے۔
مسٹر چاولہ کے پاس ایک چھوٹا سا تین سیٹر ہوائی جہاز تھا اور اُن کا ارادہ تھا کہ وہ اس پر لندن کا سفر کرکے ایک ریکارڈ قائم کریں۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستانی ریاستوں کے مہاراجوں اور نوابوں سے عطیات کی اپیل کی۔ اُن کے خط کی ایک کاپی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھی آئی تو حضورؓ نے انہیں لکھا کہ اگر تم اپنا جہاز قادیان لائو اور ہمارے چند افراد کو اس میں سیر کروائو تو میں تمہیں پانچ صد روپے کا عطیہ دوں گا۔ چنانچہ 30 دسمبر 1932ء کو وہ اپنا جہاز لے کر قادیان آگئے۔ اگلے روز انہوں نے حضورؓ سے ملاقات کرکے جہاز کو دیکھنے کی درخواست کی۔ یکم جنوری 1933ء کی صبح 11 بجے حضورؓ وہاں تشریف لائے اور مسٹر چاولہ کی درخواست پر صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ہمراہ جہاز میں سوار ہوئے۔ جہاز اُڑا اور قادیان سے مشرق کی جانب دُور چلا گیا اور تھوڑی دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود احباب بہت گھبراگئے۔ بعض کو تو یہ وہم بھی ہو گیا کہ کہیں یہ حضور کو اغوا کرنے کی کوئی خفیہ سازش تو نہیں؟بعض احباب تو رونے بھی لگ گئے۔ ابھی بلند آواز دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا کہ جہاز واپس آتا نظر آیا۔ لوگوں کی گھبراہٹ ختم ہوئی اور بعض نے سجدۂ شکر بھی ادا کیا۔ لینڈ (Land) کرنے کے بعد حضورؓ نے بتایا کہ مَیں نے مسٹر چاولہ کو کہا تھا کہ مجھے دریائے بیاس تک لے چلو تاکہ میں قادیان سے دریائے بیاس تک کے علاقے کو اوپر سے دیکھ سکوں۔
حضورؓ کے ارشاد پر کئی بزرگوں اور بچوں نے بھی جہاز کی سیر کی۔ میری عمر آٹھ سال تھی اور مجھے بھی اس سیر کا موقع ملا اور تب سے فلائنگ سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ 1939ء میں مَیں نے قادیان سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے B.Sc کیا اور پھر اگست 1943ء میں ایئرفورس میں بھرتی ہو گیا۔ جنگ عظیم دوم کے باعث ہمیں صرف ڈیڑھ سال میں ہی وہ ٹریننگ دیدی گئی جو عموماً پانچ سال میں دی جاتی ہے۔ مارچ 1944ء میں مجھے کمیشن ملا اور مارچ 1945ء میں ٹریننگ مکمل ہوئی تو مجھے لڑاکا سکواڈرن میں برما محاذ پر بھیج دیا گیا۔ جنگ کے دوران کئی چھوٹے بڑے حادثے دیکھے۔ ایک بار جہاز کا انجن فیل ہوگیا تو مجھے پانی سے بھرے چاولوں کے کھیت میں Crash Landing کرنی پڑی۔ جہاز تباہ ہو گیا۔ پھر ایک بار میرے جہاز سے فالتو پیٹرول ٹینک گرگیا۔
برما میں آٹھ ماہ رہنے کے بعد جنگ بندی ہوگئی تو ہم واپس انڈیا آگئے۔1947 ء میں میری ٹرانسفر سول ایوی ایشن میں ہو گئی۔ جولائی 1947ء میں خاکسار اپنے والد (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ) کی وفات پر بذریعہ ریل قادیان گیا تو پتہ چلا کہ جماعت نے حضورؓ کی ہدایت پر ایک چھوٹا سا دو سیٹر جہاز خریدا ہے جسے چند دن پہلے ڈپٹی محمد لطیف صاحب قادیان لائے تھے۔ یہ L-5قسم کا چھوٹا جہاز تھا جسے امریکی فوج فضائی سروے اور زخمی فوجیوں کو ہسپتال پہنچانے کے لئے استعمال کرتی تھی۔ یہ ایک سخت جان جہاز تھا جسے بہت چھوٹی جگہ پر لینڈ کیا جاسکتا تھا اور اسی وجہ سے ہوائی جیپ بھی کہلاتا تھا۔ اس کی پچھلی سیٹ پر بھی جہاز کو اڑانے کے کنٹرول موجود تھے اور یہ سیٹ اسٹریچر میں بھی تبدیل کی جاسکتی تھی۔
ڈپٹی محمد لطیف صاحب اور خاکسار کو اُس دَور میں جماعت کے ہوا ئی جہازوں کو اڑانے کی توفیق ملی اور ہم دونوں نے اُن دِنوں بہت سے نشانات بھی دیکھے۔ ڈپٹی محمد لطیف صاحب ابن محترم ڈپٹی محمد شریف صاحب آف لاہور نے جنگ عظیم کے شروع میں ائیرفورس جائن کی تھی۔ 1943ء میں برما محاذ پر اُن کے جہاز کو جاپانیو ں نے مار گرایا اور وہ جنگی قیدی بنالئے گئے۔ کئی برس بعد جنگ کے اختتام پر جب وہ واپس آئے تو ایک ہندو کی جھوٹی شکایت پر اُنہیں باغی فوجی شمار کرکے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ چنانچہ وہ بمبئی کی ایک کمپنی میں بطور پائلٹ کام کرنے لگے۔
جنگ کے بعد امریکی فالتو جنگی سامان میں سے چند چھوٹے جہاز بیچے گئے تو جماعت نے بھی یہ جہاز پانچ ہزار روپے میں خرید لیا۔
جولائی 1947ء کا آخر تھا کہ قادیان سے ایک صاحب دہلی تشریف لائے۔ رات کو مجھے جگاکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خط دیا جس میں لکھا تھا کہ آپ فوراً لاہور جائیں اور جماعت کا جہاز لے کر قادیان پہنچیں۔ چنانچہ خاکسار اپنی کمپنی کو اطلاع دیئے بغیر علی الصبح لاہور پہنچا اور جہاز کا جائزہ لیا جو کافی عرصہ سے کھڑا تھا۔ تینوں ٹائر قریباً فلیٹ تھے اور گرد سے اٹا پڑا تھا۔ بیٹریاں مکمل طورپر ڈسچارج ہو چکی تھیں۔ آدھا دن لگاکر مَیں نے اس کی صفائی کی اور گو کہ اس قسم کا جہاز مَیں نے کبھی اڑایا نہیں تھا مگر اپنی سمجھ سے جہاز کو سٹارٹ کر کے ایک ٹیسٹ فلائٹ کرلی اور پھر اس جہاز میں قادیان کے لئے روانہ ہو گیا اور پونے گھنٹے میں قادیان پہنچ گیا۔ وہاں سڑک پر کیچڑ کی وجہ سے بڑی مشکل سے لینڈ کیا اور پھر دفتر میں حاضر ہو گیا۔ وہاں طے پایا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ جہاز کے انچارج ہوں گے جو صدر خدام الاحمدیہ اور حفاظتِ مرکز کے انچارج بھی تھے۔ اُن کی اجازت سے چند دن قادیان کے نواحی علاقہ کا فضائی سروے کیا۔ اس دوران بعض سکھوں کی طرف سے مسلمانوں کے دیہات پر حملے بھی شروع ہوگئے اور کئی جگہ مسلمانوں کے کئی مکانات جلتے ہوئے نظر آتے تھے۔
کئی بار مَیں خدام کی زمینی سروے ٹیم کے جھنڈی لہرانے پر اپنا جہاز قریبی کھیتوں میں اُتار لیتا اور اُن کی زبانی رپورٹ فوری طور پر قادیان پہنچاتا جو عموماً مسلمانوں پر حملوں کے متعلق ہوتی۔
جب علاقہ کے مسلمان کثرت سے قادیان آنا شروع ہوگئے تو ایک دن اطلاع ملی کہ بٹالہ کے قریب علی وال میں سکھ گھڑ سواروں نے پانچ مسلمان دیہات پر حملہ کر دیا ہے۔ مَیں فوری طور پر وہاں پہنچا۔ جگہ جگہ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ مَیں نے بار بار بہت ہی نیچی پرواز کر کے سکھوں کو ڈرانے کی کوشش کی جس میں کامیابی بھی ملی اور گھڑسوار مختلف اطراف میںبھاگنے لگے۔
اگست کے تیسرے ہفتے تک تو مختلف گائوں میں لگی ہوئی آگیں اور ان کا دھواں اتنا زیادہ ہو گیا کہ امرتسرسے دریائے بیاس تک سارے گائوں جلتے ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مویشی آوارہ پھرتے نظر آتے۔ یہ ایک بھیانک نظارہ ہوتا جو ہمیں بے حد افسوس اور دکھ کے ساتھ دیکھنا پڑتا۔
17؍اگست کے بعد جہاز کی زیادہ پروازیں قادیان سے لاہور اور واپس قادیان تک کی رہ گئیں۔ روزانہ انجمن کا ایک کارکن بھی ساتھ جاتا جو وہاں جماعتی کام کرتا، کچھ خریداری کرتا اور مغرب کے وقت ہم واپس قادیان آجاتے۔ایک صبح حضورؓ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ آج تم نے میری زندگی کی سب سے قیمتی چیز لاہور لے کر جانی ہے اور اس چیز کی راستے میں پوری حفاظت کرنی ہے اوراس چیز کو شیخ بشیر احمد صاحب (امیر جماعت لاہور ) کے سپرد کرکے یہی ہدایت اُن کو دینی ہے اور اُن سے اس کی وصولی کی رسید لاکر مجھے دینی ہے۔ یہ کہہ کر حضور اٹھے اور ساتھ والے کمرے میں سے ایک میلا سا چھوٹا سا کینوس کا ٹریول بیگ لائے۔ اس کا اوپر کا زپ بھی ٹوٹا ہوا تھا اور یہ کاغذات سے بھرا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا جب بھی کوئی نیا مطلب ذہن میں آئے تو مَیں ایک کاغذ پر لکھ کر اس بیگ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔اور یہ میرے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ مَیں نے حضورؓ سے بیگ لیا، لاہور جاکر شیخ صاحب کے سپرد کیا اور اُن سے رسید لاکر حضورؓ کو دیدی۔
ان دنوں پرائیویٹ جہازوں کے لئے پٹرول راشن پر ملتا تھا۔ ہمارا کوٹا صرف چار گیلن فی ہفتہ تھا جبکہ لاہور سے قادیان اور واپسی تک بارہ گیلن لگ جاتے تھے۔ یہ اتفاق تھا کہ والٹن ائیرپور ٹ پر چھوٹے جہازوں کے لئے موجود پٹرول پمپ کا انچارج شہر میں کرفیو کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ مَیں نے اُس کو پیشکش کی کہ مَیں اُس کے لئے حسب ضرورت بیکری، سبزی، گوشت وغیرہ قادیان سے لادیا کروں گا۔ اس پر اُس نے ہمیں بغیر واؤچر کے پٹرول دینے کی پیشکش کی اور اضافی پٹرول ہم قادیان میں ایک ڈرم میں محفوظ کرنے لگے تاکہ اگر پٹرول ملنا بالکل ہی بند ہوجائے تو پھر بھی ہمارا جہاز چلتا رہے۔
لاہور میں ایک ہندو نوجوان کا ذاتی چھوٹا جہاز تھا جو اُس نے ہمیں پانچ ہزار روپے میں یہ کہہ کر دیدیا کہ جب ہم رقم دیں گے تو وہ کاغذات دیدے گا۔ لیکن حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ وہ اچانک لاہور سے انڈیا چلا گیا اور پھر اُس سے رابطہ نہ ہوسکا۔ تاہم اُس کا جہاز ہمارے پاس ہی رہا جسے ڈپٹی محمد لطیف صاحب اڑانے لگے۔
پارٹیشن کے فوراً بعد لاہور شہر میں ٹیکنیکل سہولتیں (مثلاً بیٹری چارجنگ وغیرہ) ناقابل بیان حد تک کم تھیں۔ ایک مخلص احمدی محمد لطیف صاحب کی کاروں کی بیٹریوں کو چارج کرنے کی دکان تھی۔ انہوں نے اپنی دکان میں ایک خاص سرکٹ بنایا تاکہ جماعت کے جہازوں کی بیٹریاں ری چارج کرسکیں۔
قادیان سے لاہور جانے والا پہلا قافلہ 25اگست 1947ء کو روانہ ہوا۔ اس قافلے میں خاندانِ حضرت اقدسؑ کی خواتین بشمول حضرت اماں جانؓ بھی شامل تھیں۔ قافلہ کی سب سے اگلی نیلی ویگن صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی ملکیت تھی۔ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اپنے تین دن کے نومولود بچے مرزا مغفور احمد صاحب کے ساتھ اس ویگن میں سوار تھیں۔ مَیں جہاز میں قادیان سے لاہور آرہا تھا کہ اس قافلے کو بٹالہ اور امرتسر کے درمیان اسی نیلی گاڑی کی وجہ سے پہچانا اور پھر شوقیہ ایک کھیت میں لینڈ کرکے قافلہ والوں سے ملاقات کی اور پھر لاہور روانہ ہوگیا۔
حضورؓ 31؍اگست کو بذریعہ کار قادیان سے لاہور آئے۔ آپ کسی قافلے میں نہیں آئے بلکہ آپ کی کار کے ساتھ ایک فوجی حفاظتی دستہ تھا جس کا انچارج ایک فوجی کمانڈو انگریز کپتان تھا۔
ستمبر1947 ء کے آغاز میں ہی مشرقی پنجاب کی حکومت نے ہمارے جہاز ضبط کرنے کے آرڈر جاری کردئے۔ جب پولیس افسر یہ آرڈر لے کر قادیان آیا تو مَیں اور ڈپٹی لطیف صاحب اپنے اپنے جہازوں میں ایک ایک جماعتی کارکن اور ضروری سامان لے کر لاہورسے قادیان آرہے تھے۔ دفتر والوں کو علم تھا کہ ہماری لاہور سے قادیان واپسی عنقریب متوقع ہے۔ اس لئے انہوں نے چار خدام گرائونڈ کی جانب بھگائے کہ جونہی ہم لینڈ کریں تو وہ جلدی جلدی سامان اتار لیں اور حالات بتاکر دونوں کو فوری طور پر لاہور واپس چلے جانے کی ہدایت کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے بعد مَیں روزانہ لاہور سے پرواز کرکے قادیان کے اردگرد کا فضائی سروے کرتا کہ کہیں قادیان پر حملے کا ڈر تو نہیں اور یہ کہ قادیان سے احمدی مہاجرین کے روزانہ لاہور آنے والے قافلے کو راستہ میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آرہی۔ مگر چند دن بعد یہ سروے بھی بند کرنا پڑا کیونکہ قادیان میں انڈین فوجیوں نے مجھ پر فائرنگ شروع کردی۔ پہلی بار جب جہاز پر فائرنگ ہوئی تو خاص قسم کے پلاسٹک Perspax سے بنی ہوئی جہاز کی چھت میں گولی نے سوراخ کردیا اور میرے سر کے کچھ بال بھی جل گئے۔ ﷲ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بچالیا اور ہم بحفاظت لاہور پہنچ گئے۔ میرے ساتھ جو کارکن گئے تھے۔ لینڈ کرنے کے بعد مَیں نے اُنہیں فائرنگ کا بتایا اور جہاز کی چھت میں سوراخ اور اپنے جلے ہوئے بال دکھائے۔ یہ دیکھ کر اُنہیں اِتنا شاک لگا کہ وہیں بیہوش ہوکر گرگئے۔ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ روزانہ میرے ساتھ قادیان کی فلائٹ پر جایا کریں گے مگر اس واقعہ کے بعد انہوں نے توبہ کرلی۔
ایک معجزانہ واقعہ ستمبر کے آغاز میں اُس وقت پیش آیا جب حضورؓ نے ایک ضروری لفافہ قادیان بھیجنا تھا۔ مَیں نے ایک ترنگا (Streamer) بنوایا جس میں یہ لفافہ ڈال کر خدام کے کیمپ کے قریب پھینکنا تھا۔ جنگ عظیم کے دوران برما کے جنگلوں میں اپنے دستوں کو ہم ایسے ہی پیغامات پہنچایا کرتے تھے۔ چنانچہ مَیں حضورؓ کا پیغام سٹریمر میں ڈال کر روانہ ہوگیا۔ چونکہ مجھے یقین تھا کہ میرے جہاز پرزبردست فائرنگ ہو گی اس لئے مَیں سارا راستہ بہت نیچی پرواز کرکے قادیان پہنچا تاکہ وہاں پہنچ کر ہی پتہ چلے کہ ہوائی جہاز سر پر آگیا ہے۔ خیال تھا کہ پہلی بار میں ہی سٹریمر گرادوںگا تاکہ جب تک فوجی گولیاں چلانے کی تیاری پکڑیں مَیں اپنا کام کر چکا ہوں۔ مگر مَیں جونہی اپنے ٹارگٹ سے چند سو گز فاصلہ پر ذرا سا اونچا ہوا تو مشین گن کا مسلسل فائر جہاز پر شروع ہو گیا۔ الحمدﷲ جہاز کو کوئی گولی نہیں لگی۔ مَیں سیدھا اُڑتا گیا اور ٹارگٹ کے عین اوپر تقریباًایک سو فٹ کی بلندی سے وہ سٹریمر نیچے پھینک دیا۔ پھر بہت نیچی پرواز کرتا ہوا واپس لاہور آگیا۔ بعد میں فون آگیا کہ حضور کا ضروری لفافہ صحیح جگہ پہنچ گیا ہے۔ لیکن تفصیل قادیان سے آنے والوں کے ذریعہ یہ پتہ چلی کہ ڈیوٹی پر موجود 2 خدام نے سٹریمر کو گرتا ہوا دیکھا تو اُسے اٹھانے کے لئے میدان کی طرف بھاگے۔ میدان کے دوسری طرف سے دو سپاہی بھی اپنی پوسٹ سے بھاگ کر آئے اور خدام سے کہا کہ جو کچھ بھی جہاز نے گرایا ہے وہ ہمیں دے دو۔ پھر انہوں نے خدام کی تلاشی لی لیکن کچھ برآمد نہ ہوا۔ جب وہ واپس چلے گئے اور خدام بھی پریشان تھے کہ جہاز نے کیا چیز گرائی تھی اور وہ کہاں غائب ہوگئی کہ ایک دس گیارہ سال کا بچہ وہاں آیا اور اپنی قمیص کے اندر سے سٹریمر نکال کر خدام کو دیا اور کہا کہ یہ میرے قریب گرا تھا مگر جب دُور سے مَیں نے پولیس والوں کو آتے دیکھا تو اسے اٹھا کر اپنی قمیص کے نیچے چھپالیا۔
ایک معجزانہ واقعہ ستمبر کے تیسرے ہفتہ میں پیش آیا جب تقریباً روزانہ سینکڑوں افراد کا قافلہ قادیان سے لاہور آیا کرتا تھا۔ عموماً یہ قافلے صبح چلتے اور شام تک لاہور پہنچ جاتے۔ ایک دن ایک قافلہ لاہور نہ پہنچا تو حضورؓ بے حد فکرمند ہوگئے۔ جب رات ہو گئی اور پتہ نہ چل سکا کہ قافلہ کا کیا حشر ہوا تو حضورؓ نے میٹنگ بلوائی تو کسی نے مشورہ دیا کہ اپنا جہاز بھیجا جائے اور پائلٹ گھریلو ٹارچ کی روشنی میں گمشدہ قافلہ ڈھونڈے۔ مَیں نے بتایا کہ پانچ سو فٹ کی بلندی سے گھریلو ٹارچ کی روشنی زمین پر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ اور جہاز میں رات کے وقت راستہ ڈھونڈنے کے آلات بھی موجود نہیں ہیں۔
مگر پھر مشکلات کے باوجود مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں اس قافلے کو ڈھونڈنے کے لئے جاؤں گا۔ وجہ یہ تھی کہ حضورؓ بے حد پریشان تھے اور مجھ سے آپؓ کی پریشانی دیکھی نہیں جارہی تھی۔ چنانچہ مَیں اور صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ایئرپورٹ پہنچے۔ صاحبزادہ صاحب نے چند سال قبل فلائنگ کی ٹریننگ مکمل کی تھی۔ ہم دونوں ائیرپورٹ مینیجر کے گھر پہنچے اور ان سے اپنا مدّعا بیان کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ سرکاری طور پر تو آپ رات کو یہاں سے فلائی نہیں کرسکتے کیونکہ ائیر پورٹ اور ائیر ٹریفک کنڑول بند ہیں۔ مگر اگر آپ اپنے رِسک پر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو رَن وے کی دونوں جانب وہ روشنیاں خود لگانی ہوں گی جو رات کو اُڑنے اور لینڈ کرنے کے لئے لازمی ہوتی ہیں اور یہ روشنیاں فلاں گودام میں موجود ہیں۔ اُس زمانہ میں یہ روشنی ایک بڑے سائز کا لوٹا نما برتن ہوتی تھی جس میں مٹی کا تیل بھر اہوتا تھا اور لوٹے کی بڑی سی ٹونٹی میں ایک موٹی سی گول کاٹن کی بتی ہوتی تھی جس کو ماچس سے جلایا جاتا تھا اور تیز ہوا میں بھی یہ نہیں بجھتی تھی بلکہ استعمال کے بعد انہیں خود بجھانا پڑتا تھا۔ اُس رات اتنا سخت اندھیرا تھا کہ جیپ کی ہیڈلائٹس میں بھی راستہ مشکل سے نظر آرہا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں ہم نے اتنی روشنیاں لگالیں جو ہمارے ٹیک آف اور لینڈنگ کرنے کے لئے کافی تھیں۔ پھر ہم دونوں جہاز میں بیٹھے اور رَن وے پر جہاز کو تیزی سے دوڑایا۔ ابھی تقریباً ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ طے ہوا تھا کہ زور دار دھماکہ کے ساتھ جہاز اس طرح کسی چیز سے ٹکرایا کہ جہاز کا اگلا حصہ نیچا ہوکر زمین سے جالگا اور دُم اوپر کی طرف اٹھ گئی اور جہاز قلابازی کھا کر اُلٹ کر زمین پر گھسٹتا چلا گیا۔ اگرچہ میرے دونوں گھٹنوں پر چوٹیں آئی تھیں مگر مَیں جلدی سے اپنا حفاظتی بند کھول کر اُتر کر بھاگا کیونکہ ڈر تھا کہ کہیں آگ نہ لگ جائے۔ پٹرول کی بو بھی آرہی تھی۔ مگر پھر جلدی سے اس لئے پلٹا کیونکہ بھائی منیر اپنی سیٹ میں اُلٹے لٹکے پھنسے ہوئے تھے۔ جہاز الٹنے کی وجہ سے ان کی سیٹ زمین سے دس فٹ اونچی ہو گئی تھی اور ان سے اپنی حفاظتی بیلٹ بھی نہیں کھل رہی تھی۔ میری مددسے وہ مشکل سے نکلے بلکہ سیدھے زمین پر گرے۔ جہاز بالکل ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ ٹارچ جلاکر دیکھاکہ معلوم ہو سکے کہ ہم کس چیز سے ٹکر ا ئے تھے۔ پتہ چلا کہ ایک گائے تھی جو رَن وے کے درمیان میں کھڑی تھی۔ اس کا آدھا دھڑ ہمارے قریب پڑا تھا اور باقی آدھا تقریباً پچاس گز پیچھے یعنی ٹکرانے والی جگہ پر۔ دراصل ایئرپورٹ کے قریب مہاجرین کے قافلے رُکتے تھے۔ اُن کے مویشی ایئرپورٹ کے قریب بھی چرتے رہتے تھے۔ یہ مویشی دن کو تو نظر آجاتے تھے لیکن اندھیری رات میں بالکل دکھائی نہ دیئے۔ جب ہم رَن وے پر آگے چلے تو قریباًایک سو گز دُور ہمیں ایک سپاہی نے چِلّاکر روکا۔ ٹارچ جلائی تو دیکھا کہ سامنے ایک مسافر بردار Dakota جہاز عین رن وے کے درمیان میں کھڑا ہے اور وہ سپاہی اُس جہاز کا پہرہ دے رہا تھا۔ یہ نظارہ دیکھ کر ہم دونوں لرز گئے۔ اگر اﷲتعالیٰ نے اس بیچاری گائے کو ہماری جانیںبچانے کے لئے اس وقت وہاں نہ بھیجا ہوتا تو ہم اس Dakota جہاز سے اتنی تیز رفتارسے ٹکراتے کہ وہ جہاز بھی اور ہم بھی ریزہ ریزہ ہو جاتے۔ کیونکہ وہاں تک پہنچنے تک ہماری رفتار ایک سو میل فی گھنٹہ ہو چکی ہوتی۔ اﷲتعالیٰ نے ہمیں بالکل معجزانہ طور پر بچا لیا۔ الحمدﷲ
ائیرپورٹ مینیجر نے تو اسے ایک غیرقانونی اور بِلااجازت پرواز کے طور پر اپنی رپورٹ میں لکھ دیا مگر ہمیں Flares وغیرہ واپس سٹور تک پہنچانے میں کافی دیر لگ گئی اس لئے ہم بہت ہی لیٹ رتن باغ واپس پہنچے۔ صبح حضورؓ کو جب تمام واقعہ کا علم ہوا تو لاپرواہی پر ہم سے بہت ناراض ہوئے کیونکہ ہم سے ایک حکم عدولی ہوگئی تھی۔ اور وہ یہ کہ پچھلی رات کو حضورؓ نے چلتے وقت ہمیں فرمایا تھا کہ ائیر پورٹ پر جاتے ہوئے راستہ میں چودھری ظفراﷲخانصاحبؓ کی قیامگاہ سے ہوتے جانا اور اُن سے دریافت کرلینا کہ کیا اُن کو لاپتہ قافلہ کے بارے میں کوئی اطلاع ملی ہے کہ نہیں اور اگر ملی ہے تو اِس مشن پر مت جانا۔ لیکن چونکہ رات زیادہ ہوگئی تھی اس لئے ہم نے چودھری صاحب کو تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا کہ تمہارے یہاں سے نکلنے کے کچھ دیر کے بعد ہی مجھے چودھری صاحب کا فون آگیا تھا کہ قافلہ فلاں جگہ پر رُک گیا ہے، محفوظ ہے اور کل دوپہر تک لاہور پہنچ جائے گا۔ اس لئے تمہارا رات والا مشن غیرضروری ہوگیا تھا۔
حضورؓ کی حکم عدولی کی سزا ہم کو اسی رات مل گئی۔ اس حادثہ کے بعد ہمارے پا س ایک جہاز کم ہوگیا۔ انہی دنوں ڈپٹی محمد لطیف صاحب حضورؓ سے اجازت لے کر کوئی موزوں ملازمت ڈھونڈنے کے لئے چلے گئے۔ اس لئے اب جماعت کے پاس صر ف ایک ہوائی جہاز تھا اور ایک پائلٹ یعنی خاکسار۔
ایک دن اطلاع ملی کہ امرتسر کے قریبی قصبہ اجنالہؔ میں سینکڑوں مسلمان بھوکے پیاسے اپنے گھروں کی چھتوں پر محصور ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوںنے ان کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے تاکہ انہیں اسی حالت میں بھوکا پیاسا ماردیں۔ حضورؓ اس اطلاع سے بے حد پریشان ہوئے اور لاہور کی جماعت کو ہزاروں تندوری روٹیوں کے پیکٹ تیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اور مجھے آرڈر دیا کہ تم نے پیکٹ ہوائی جہاز میں لے جا کر مسلمانوں کے لئے پھینکنے ہیں۔ مَیں اور حضورؓ کا ڈرائیور نذیر ایک جیپ میں یہ پیکٹ لے کر گئے اور جہاز کی خالی جگہ روٹیوں سے بھر دی۔ پھر اجنالہؔ کے اوپر پہنچ کر اپنی طرف سے بے حد احتیاط سے وہ پیکٹ ایک ایک دو دو کرکے برسانے شروع کئے۔ وہ بیچارے لوگ اتنے بھوکے تھے کہ جس کے ہاتھ پیکٹ آتا تھا تو اس سے زیادہ تگڑا اُس سے یہ پیکٹ چھین لیتا تھا اور اس باہمی چھینا جھپٹی میں بہت سی روٹیاں ضائع ہو گئیں۔ دوسرے یہ کہ پیکٹ پرانے اخبارات کے کاغذوں سے بنائے گئے تھے اس لئے ہوائی جہاز سے گرتے ہی پیکٹوں کے اخباری کاغذ ہوا میں ہی پھٹ جاتے تھے اور روٹیاں ننگی زمین پر گر جاتیں۔ مگر پھربھی اُن بے چارے بھوکوں کے لئے کچھ نہ کچھ سامان ہوگیا۔ ہم نے جہاز کے تین چکر لگائے اور سارے پیکٹ گرا دیئے۔
کچھ عرصہ بعد کشمیر میں جنگ شروع ہو گئی اور سیلاب نے زمینی رابطے منقطع کردیئے تو مجھے کئی بار سیالکوٹ اور راولپنڈی اپنے جہاز میں جانا پڑا۔ ان فلائٹس کا زیادہ تر تعلق مسلم لیگ اور آزاد کشمیر کے لیڈروں کے سرکاری کاموں سے ہوتا تھا۔
اکتوبر 1947ء میں حضورؓ کو کراچی سے اطلاع ملی کہ ایک کمپنی Fox Moth قسم کے چار چھوٹے مسافر بردار جہاز فروخت کررہی ہے۔ فی جہاز دو ہزار پاؤنڈ یعنی 29200 روپے قیمت تھی۔ ان میں سے دو جہاز سندھ گورنمنٹ نے خرید لئے۔ حضورؓ نے فوری طور پر مجھے کراچی بھیجا کہ اگر مناسب ہو تو مَیں یہ دونوں جہاز خرید لوں۔ایک جماعت کے لئے جس کی قیمت جماعت ادا کرے گی اور دوسرا آزاد کشمیر کی گورنمنٹ کے لئے جس کی قیمت وہ ادا کرے گی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جماعت کو آزاد کشمیر کے انتظامی معاملات میں کسی قدر عمل دخل تھا۔ چنانچہ مَیں کراچی میں کئی ہفتہ رُکا رہا اور پھر دونوں جہاز خرید کر ایک لاہور لے آیا اور دوسرا راولپنڈی میں آزادکشمیر حکومت کے سپرد کردیا۔ مگر افسوس کہ آزاد کشمیرکی حکومت نے اپنا جہاز غیر ذمہ دار لوگوں کے سپرد کر دیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دو ماہ میں ہی وہ دوبار ایکسیڈنٹ کا شکا ر ہوکر تباہ ہوگیا۔
Fox Moth دو پروں والا جہاز ہے جس میں پائلٹ کے علاوہ تین مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کی نارمل رفتار -5 L کی طرح سوا سو میل فی گھنٹہ سے کچھ زیادہ تھی۔ اب ہمارے پاس دو ہوائی جہاز ہو گئے۔ چند ماہ تو جماعتی اور کشمیر کی جنگ کی ضروریات کی وجہ سے ہم بہت مصروف رہے۔ مگر آہستہ آہستہ جب رابطہ کے ذرائع پاکستان میں بہتر ہونے شروع ہوگئے تو جماعت کے لئے جہازوں کی ضرورت روز بروز کم ہونی شروع ہو گئی۔
ربوہ کے افتتاح سے ایک دو دن پہلے میں اس نئے ہوائی جہاز میں ربوہ گیا اور اُس جگہ لینڈ کیا جہا ں اب قصر خلافت ہے۔ اس وقت یہ سارا علاقہ اونچا نیچا پتھریلا اوربے حد خراب میدان تھا۔
اس کے علاوہ جب ایک بار حضور جماعتی دورے کے لئے سندھ جارہے تھے تو میں بھی چند دنوںکے لئے اس جہاز کو کنری اور پھر محمودآباد سٹیٹ لے گیا۔
ایک بار حضور بھی میرے ساتھ Fox Moth جہاز میں سیالکوٹ سے لاہور تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ سیدہ مہر آپا مرحومہ اور حضور کی صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ مرحومہ بھی تھیں۔
1950ء میں حضورؓ کے ارشاد پر مَیں دونوں جہاز کراچی لے گیا۔ پہلے تو کراچی کی جماعت نے انہیں حضور کے منشاء کے مطابق فروخت کرنے کی کوشش کی مگر عرصہ تک جب وہ بِک نہ سکے تو چونکہ انہیں ائیرپورٹ کے ہینگرز میں اور اچھی حالت میں رکھنے کے اخراجات بہت زیادہ تھے اس لئے حضورؓ نے دونوں جہاز ایک ادارے کو جماعت کی طرف سے تحفۃً دیدئے۔
1950ء میں حضورؓ نے مجھے ائیرفورس میں واپس جانے کی اجازت دیدی جہاں سے مَیں جنگ 1965ء کے بعد ریٹائر ہوا۔ اس دوران مَیں ائیرفورس کے آپریشنل فلائنگ سکول میں انسٹرکٹر رہا۔ نیز دو الگ الگ فائٹر سکواڈرن کی کمانڈ بھی کی۔ انگلستان میں Air Gunnery Instructor بننے اور فائٹر لیڈر بننے کے کورسز کئے۔ Aerobatics Team کا بھی ممبر رہا جو Falcons کہلاتی تھی۔ 1958 ء میں ائیرفورس سٹاف کالج سے گریجوایشن کرکے P.S.Aکی ڈگری حاصل کی اور 1960ء سے 1963ء تک کے عرصے میں سوا دو سال کوئٹہ میں آرمی کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر رہااور آخر میں ائیر ہیڈکوارٹر پشاور میں وار پلیننگ کے محکمہ کے ایک حصہ کا انچارج رہا۔ جس کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں