چند دلچسپ روایات

جماعت احمدیہ کینیڈا کے ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ جنوری 2011ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب (استاذالجامعۃالاحمدیہ کینیڈا) کے قلم سے چند دلچسپ روایات شامل اشاعت ہیں ۔
٭ ایک بار قادیان کے مضافات میں احمدیوں اور سُنّیوں کے درمیان حیات و ممات مسیح علیہ السلام کے موضوع پر ایک سہ روزہ مناظرہ ہوا۔ فریقین نے جلسہ کا حَکَم ایک معزز سکھ سردار کو تسلیم کیا۔ سُنّیوں نے دیکھا کہ دوسرے دن سردار جی نے واضح طور پر احمدیوں کے دلائل پر پسندیدگی کا اظہار کیا تو انہوں نے رات کو سردار صاحب کو پیغام بھیجا کہ مرزائی تو اپنے گھر چلے جائیں گے اور ہمارے اور آپ کے درمیان مفت کا سرپھٹول ہوگا، ذرا عقل سے کام لے کر فیصلہ دینا۔ یہ خبر احمدی مناظر کو بھی کسی طرح مل گئی۔ تیسرے روز احمدی مناظر نے کہا کہ اب تک تو مَیں نے قرآن و حدیث سے وفات مسیح علیہ السلام کے متعلق کہا ہے، اب ایک ولی اللہ کا کلام سناتا ہوں جو شہادت دیتا ہے کہ جو پیدا ہوا وہ موت سے باہر نہیں ۔ یہ ولی اللہ حضرت بابا نانکؒ تھے۔ پھر چند ایک شبد پڑھے۔ سکھ سردار عجیب مصیبت میں پڑ گئے کہ ہمسایہ زمیندار سُنّیوں کے خلاف فیصلہ دوں تو وہ کسی نہ کسی بہانے لڑائی مُول لیں گے اور احمدیوں کے خلاف منہ کھولوں تو گویا بابا نانکؒ صاحب اور گرنتھ صاحب کو جھٹلاؤں ۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ یوں سنایا کہ دوستو! مسیح ابن مریم اگر زندہ بھی تھا تو اِن تین دنوں کی کھینچاتانی میں اس کا کام تمام ہوگیا ہے۔
٭ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ قادیان میں ایک شخص میاں دین محمد ہوتا تھا جسے اُس کے غیرمعمولی سفید رنگ کی وجہ سے لوگ میاں بگّا کہتے تھے۔ یہ بالکل جاہل اور اَن پڑھ تھا۔ بلکہ نیم مخبوط الحواس تھا۔ مَیں نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ کیا تم نے بھی کبھی کسی کو تبلیغ کی ہے؟ کہنے لگا ہاں ایک دفعہ ایک غیراحمدی مولوی کے ساتھ میری بحث ہوئی تھی۔ مولوی نے میاں بگّا کے اِس سوال کے جواب میں کہ حضرت عیسیٰ کس طرح آسمان پر چلے گئے؟ ایک پتھر اٹھاکر آسمان کی طرف پھینک کر کہا کہ اِس طرح۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پتھر زمین پر آگرا تو میاں بگّا اُس طرف اشارہ کرکے فوراً بولا: فیر او پیا اے۔ (پھر وہ پڑا ہے)۔
٭ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھا کرتا تھا۔ وہ اتفاق سے ایک کام کے لئے مسجد مبارک گیا تو مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک مراثی کا گھوڑا چھوٹ کر مسجد میں گھس گیا اور لوگوں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ مراثی تیرے گھوڑے نے مسجد کی بے ادبی کی۔ مراثی نے جواب دیا کہ جناب گھوڑا حیوان تھا، اُس نے مسجد کی بے ادبی کی، مجھے بھی دیکھا کہ کبھی مَیں نے بھی مسجد کی بے ادبی کی ہو۔ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ اس شخص پر یہ مثال خوب صادق آئی۔ اس پر وہ شخص ایسا شرمندہ ہوا کہ اُسی روز سے نماز پڑھنے لگا۔
٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ریل میں ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ جناب کا دولت خانہ کہاں ہے؟
مَیں نے عرض کیا کہ جناب! آجکل یہ دستور ہورہا ہے کہ پوچھنے والا پوچھتا ہے کہ آپ کا دولت خانہ کہاں ہے اور بتلانے والا بتلاتا ہے کہ میرا غریب خانہ وہاں ہے۔ ممکن ہے جواب دینے والے صاحب کا خانہ اصلی معنوں میں ہی غریب خانہ ہو اور ممکن ہے کہ بسبب انکسار اُن کے واسطے ایسا ہی جواب میں کہنا مناسب ہو۔ لیکن میرا معاملہ خاص ہے۔ میرے قبضہ میں ایک غریب خانہ بھیرہ میں ہے جہاں مَیں پیدا ہوا تھا اور میرے آباء و اجداد کا بنایا ہوا غریب خانہ جھونپڑا اب تک وہاں موجود ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ایک دولت خانہ تک رسائی بخشی ہے جہاں سے مجھے ظاہری اور باطنی دولت ملتی ہے اور وہ دولت خانہ قادیان میں ہے۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کا نام اَسْتَغْفِرُاللہ رکھا ہے۔ فرمایا: اچھا ہے، جتنی دفعہ اس کو بلائے گا خداتعالیٰ سے استغفار کرتا رہے گا۔
٭ محترم محمد اسماعیل صاحب پانی پتی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات حسب معمول حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ درس دے رہے تھے کہ یکایک شہر کے چار پانچ مولوی تین چار بہت موٹی موٹی کتابیں بغل میں دبائے آگئے۔ حضرت میر صاحبؓ درس سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ بحث کرنے کے لئے آئے ہیں اور تفسیریں اپنے ساتھ لائے ہیں ۔ حضرت میر صاحبؓ نے مسکراکر میری طرف دیکھا تو مَیں مطلب سمجھ گیا اور آپؓ کی لائبریری سے جتنی موٹی موٹی کتابیں تھیں، خواہ کسی مضمون کی اور کسی زبان کی، وہ لا لا کر حضرت میر صاحبؓ کے سامنے ڈھیر لگادیا۔ اس پر انہوں نے آپس میں سرگوشی کی اور کہنے لگے کہ اس وقت تو ہم جاتے ہیں ، کل آئیں گے۔ مگر وہ کل کبھی نہیں آئی۔
٭ حضرت سیّد شاہ عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کتب لکھنے کی کیفیت یوں تھی کہ عصر کے بعد حضورؑ ٹہل ٹہل کر لکھتے جاتے تھے۔ تین دوات مٹی کی اور کانے کی قلمیں ۔ مجھے کئی دفعہ فرمایا کہ اِن دواتوں میں پانی ڈال دو، ایک دفعہ مَیں نے ایک دوات میں پانی ڈال کر بھر دیا تاکہ جلد ختم نہ ہوجاوے۔ حضورؑ بہت ہنسے اور ہنستے ہنستے فرمانے لگے کہ آخر سیّد کے بیٹے ہیں، فراخ دِلی سے کام لیا۔
٭ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے۔ گرمی بہت سخت تھی۔ اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے، ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو۔ حضورؑ نے فرمایا: خدا قادر ہے۔ مَیں نے عرض کی کہ حضور! یہ دعا انہیں کے لئے فرمانا کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو۔ جب قادیان سے یکّہ میں سوار ہوکر چلے تو یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہوگئی۔ اُس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں ۔ تھوڑی دُور جاکر یکّہ اُلٹ گیا تو منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گِر گئے جبکہ ہم باقی کُود گئے۔ منشی صاحبؓ کے اوپر نیچے پانی ہوگیا اور وہ ہنستے جاتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں