چھاتی کے سرطان کا خطرہ اور احتیاط – جدید تحقیق کی روشنی میں

چھاتی کے سرطان کا خطرہ اور احتیاط – جدید تحقیق کی روشنی میں
(عبادہ عبداللطیف)

خواتین میں‌بڑھتی ہوئی امراض میں‌چھاتی کا کینسر بھی شامل ہے- اس سے خطرناک تکلیف سے بچاؤ اور علاج سے متعلق چند جدید تحقیقی رپورٹس درج ذیل ہیں- اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے- آمین
امریکی ریاست فلوریڈا کے موفٹ کینسر سینٹر مین ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 50 سال سے کم عمر کی ایسی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی رسولی کے خطرے میں 37 فی صد تک کمی ہوجاتی ہے جو روزانہ چائے کے کم از کم تین کپ پیتی ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کو تین یا اس سے زیادہ کپ چائے روزانہ پینے سے اس سلسلے میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ماہرین کا خیا ل ہے کہ اس کی وجہ سے چائے میں ایسے اجزاء کی موجودگی ہے جو سرطان کی ان خاص قسم کی رسولیوں کے خلاف زیادہ موثر ہوتے ہیں جن کا نشانہ بالعموم 50 سال سے کم عمر خواتین بنتی ہیں۔
ریاست فلوریڈا کے شہر ٹمپا میں قائم موفٹ کینسر سینٹر میں پانچ ہزار سے زیادہ خواتین پر یہ تحقیق کی گئی جنہوں نے چھاتی کے سرطان کا علاج کرایاتھا۔ان کی عمریں 20 سے 74 سال کے دوران تھیں۔
ماہرین نے ان کے طبی ریکارڈ اور طرز زندگی کا موازنہ ایسی خواتین سے کیا جو چھاتی کے سرطان سے محفوظ تھیں۔ ماہرین کو یہ بھی پتہ چلا کہ سرطان کی ایک خاص قسم لوبلر پر چائے نے نمایاں طور پراپنا اثر دیکھایا اور اس میں 66 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ چھاتی کے سرطان کا تقریباََ ہر دسواں مریض اس قسم میں مبتلا ہوتا ہے سرطان کی یہ قسم اس لئے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ گہرائی میں ہوتا ہے اور اس کا عام طور پر اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ کافی پھیل چکا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے چائے کے روزانہ کم از کم تین کپ پینے سے کم عمر خواتین میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چائے کو ایک روزمرہ کے مشروب کے طور پر اپنے روزمرہ معمولات میں شامل کرنے سے جسم میں سرطان کے خلاف مناسب معدافت پیدا ہوجاتی ہے۔
٭ ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ چند اخروٹ کھانے سے چھاتی کے کینسر کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ تحقیق ویسٹ ورجینیا کی مارشل یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں پروفیسر ایلین ہارڈمین نے کی ہے اور اس کے نتائج ویب سائٹ ایم ڈی پر شائع کئے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے چوہوں پر کئے جانے والے تجربات کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پروفیسر ہارڈمین کا کہنا ہے کہ اخروٹ میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اور دوسرے ایسے اجزا موجود ہوتے ہیں جو چھاتی کے کینسر کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اخروٹ کی گری میں ایک خاص جزو فائٹو سٹیرول (Phytosterol) پایا جاتا ہے جو چھاتی کے سرطان کے بڑھنے کی رفتار کم کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر ہارڈ مین مشورہ دیتی ہیں کہ اخروٹ کو اپنی روزمرہ غذا کا حصہ بنا لینا چاہئے کیونکہ اخروٹ کی گری نہ صرف چھاتی کے کینسر کی روک تھام میں مفید ہے بلکہ وہ ذیا بیطس اور دل کے امراض میں بھی فائدہ دیتی ہے۔ ماہرین چوہوں پر جاری تجربات کے اگلے مرحلے میں اب یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اخروٹ کا استعمال پر اسٹیٹ کینسر کی روک تھام میں بھی مفید ہے یا نہیں۔
تاہم واشنگٹن میں قائم کینسر کے ہسپتال لومبارڈی سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر پیٹر شیلڈز اِس تحقیق کے حوالے سے کہتے ہیں کہ صرف چوہوں پر تجربات کے نتیجے میں لوگوں کو زیادہ مقدار میں اخروٹ کھانے کا مشورہ دینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ماضی میں ایک مطالعے کے دوران جب جانوروں کو ایک خاص دوا بیٹا کیروٹین دی گئی تو ان میں پھیپھڑوں کے کینسر میں کمی واقع ہوئی لیکن جب وہی دوا انسانوں پر آزمائی گئی تو اس کے الٹ اثرات ظاہر ہوئے۔
٭ ایک طبی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ کھمبیوں اور سبز چائے کے استعمال سے خواتین میں چھاتی کے سرطان کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چین میں دو ہزار سے زیادہ خواتین کا جائزہ لیا گیا جن کی عمر 20 سے 87 سال تھی۔ اِن میں سے نصف صحت مند تھیں جبکہ باقی نصف چھاتی کے سرطان کا شکار ہوچکی تھیں۔ مشاہدے کے مطابق جن خواتین نے کھمبیوں یعنی مشروم کا جتنا زیادہ استعمال کیا تھا، اُن میں بریسٹ کینسر کا خطرہ اتنا ہی کم تھا۔ یہ خطرہ اُن خواتین میں مزید کمتر دیکھا گیا جو روزانہ سبز چائے بھی پیا کرتی تھیں۔ یہ بات اہم ہے کہ چین میں چھاتی کے سرطان کی شرح ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں 4سے 5گنا کم ہے۔ یہ تحقیق پرتھ میں قائم یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی ڈاکٹر منزانگ کی سربراہی میں کی گئی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ چین میں روایتی طور پر استعمال ہونے والی غذائیں بالخصوص کھمبیوں اور سبز چائے کا بہت زیادہ استعمال خواتین میں چھاتی کے سرطان کی کمتر شرح کی بنیادی وجہ ہے۔ اور جائزے میں دیکھا گیا ہے کہ جو خواتین ایک اونس کا کم از کم ایک تہائی حصہ روزانہ تازہ کھمبیاں استعمال کر رہی تھیں، ان میں رسولی بننے کے امکانات 64فیصد کم ہوگئے تھے۔ اگرچہ خشک کھمبیاں کینسر سے تحفظ فراہم کرنے میں نسبتاً کم کردار ادا کر رہی تھیں۔ چنانچہ مجموعی طور پر دیکھا گیا کہ وہ خواتین جو تازہ کھمبیاں دس گرام یا اس سے زیادہ مقدار میں روزانہ کھا رہی تھیں، اُن میں کھمبیاں نہ کھانے والی خواتین کے مقابلے میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ دو تہائی کم تھا جبکہ وہ خواتین جو روزانہ چار سے چھ گرام تک خشک کھمبیاں کھا رہی تھیں، ان میں کھمبیاں نہ کھانے والی خواتین کے مقابلے میں اِس کینسر کا امکان پچاس فیصد کم تھا۔ لیکن جن خواتین نے کھمبیوں کے ساتھ سبز چائے کا استعمال بھی جاری رکھا تھا، ان میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ تقریباً 90فیصد تک کم ہوگیا تھا۔
٭ برطانوی طبی ماہرین نے چھاتی کے سرطان اور سرطان کی متعدد دیگر اقسام کا باعث بننے والے ایک مخصوص جین کو دریافت کرلینے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ جین سرطان کی نصف سے زیادہ اقسام کا باعث بن رہا ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا ہے کہ NRG-1 نامی یہ جین کروموسومز کی شرح نمو کو روک کر سرطانی خلیوں کی پیدائش کے لئے جگہ بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چھاتی کے سرطان میں مبتلا زیادہ تر خواتین میں اس جین کی واضح طور پر نشاندہی کی جاچکی ہے اور جو لوگ اس جین کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ان میں چھاتی کے سرطان کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
٭ امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد کہا گیا ہے کہ تنہائی کی وجہ سے عورتیں متعدد طبّی مسائل میں مبتلا ہوسکتی ہیں جن میں بلڈپریشر اور ڈپریشن کے علاوہ چھاتی کا سرطان بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق اکیلے پن سے پریشانی کے علاوہ قوت مدافعت بھی متأثر ہوتی ہے۔چنانچہ ماہرین نے تنہائی پسند خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دوسروں سے ملنے جلنے اور رابطہ رکھنے کے علاوہ معاشرتی سرگرمیوں میں شامل ہوکر اپنے بہت سے مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔
٭ برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ ایک اسپرین کھانے سے خواتین میں چھاتی کے کینسر کی سب سے عام قسم کے خطرات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اسپرین کے بارے میں پہلے سے ہی یہ بات معلوم تھی کہ یہ عام جسمانی دردوں خصوصاً جوڑوں کے دردوں، دل کے امراض، فالج اور بعض اقسام کے سرطان جن میں خصوصیت سے پھیپھڑوں، یوٹرس، اور پنکریاز کے کینسر شامل ہیں، اِ ن کے خلاف مدافعت کرتی ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق سے یہ پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ اسپرین کے ذریعے چھاتی میں پیدا ہونے والے اُس قسم کے کینسر کے خطرات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے جسے ہارمون سینسٹو بریسٹ کینسر کہا جاتا ہے اور جن کا باعث جسم میں پیدا ہونے والے بعض ہارمونز اور ایسٹراجن ہوتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے والی 75 فیصد سے زیادہ خواتین میں اسی قسم کا سرطان پیدا ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اسپرین کا روزانہ استعمال اس قسم کے سرطان کے خطرات میں ایک حد تک کمی کرنے کا باعث بنتا ہے۔ محققین نے معلوم کیا ہے کہ اسپرین کا روزانہ استعمال اوسٹروجن پازیٹو بریسٹ کینسر کے خطرات میں سولہ فیصد کمی کرتا ہے۔ یہ معلومات ایک وسیع تحقیقی مطالعے کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہیں جس میں ایک لاکھ ستائیس ہزار خواتین کا تحقیقی مطالعے میں شامل کیا گیا تھا۔
٭ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سائنسدان انسانی لعاب دہن کے ذریعے کینسر کی مزید اقسام کو جانچنے کے سلسلے میں ایک اہم تحقیق میں مصروف ہیں اور بتایا گیا ہے کہ نئے ٹیسٹ کو الٹراساؤنڈ، ٹشو سیمپل کے تجزیے اور میموگرافی کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ابھی یہ ٹیسٹ ابتدائی مرحلے میں ہے جس کے ذریعے انسانی لعاب دہن میں موجود پروٹین کی نشاندہی کے تحت کینسر سمیت بعض بیماریوں کے ابتدائی مرحلے کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں گی۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس کی ڈینٹل برانچ کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر چارلیس سٹریکفوز نے کہا ہے کہ اس ٹیسٹ کے ٹرائل مکمل ہونے کے بعد امید ہے کہ دندان ساز اپنے مریضوں میں دانتوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی آسانی سے معلوم کرسکیں گے کہ اُن کے مریضوں میں کوئی چھاتی کے سرطان کی بیماری کے شکار ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِس حوالے سے تیس مریضوں کے نمونے حاصل کرکے اُن میں انچاس قسم کی پروٹیم کی موجودگی سے اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان مریضوں میں سے کونسے چھاتی کے کینسر کا شکار ہیں اور صحت مند افراد کا تناسب کیا ہے۔ اُن کے مطابق اس ٹیسٹ کے ذریعے کینسر ٹیومر کی مختلف حالتوں کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
٭ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انگور کے بیج میں سرطان کے مرض کو جڑ سے ختم کردینے کی صلاحیت موجود ہے۔ امریکی طبی ماہرین کے مطابق سرطان کے خاتمے کے لئے انگور کے بیجوں کا گودا نہایت کارآمد ثابت ہوا ہے۔ یونیورسٹی آف کینٹیکی کے پروفیسر زینگ لینگ شائی نے جب لیبارٹری میں تجرِبات کرتے ہوئے خون کے سرطان پر انگور کے بیجوں کے گودے کو آزمایا تو صرف 24گھنٹوں میں سرطان کے خلیوں کی 76 فیصد تعداد کو کم ہوتے ہوئے دیکھا جبکہ خون کے اندر صحت مند خلیے کسی نقصان سے محفوظ رہے۔ ان تجرِبات کے بعد امید ظاہر کی گئی ہے کہ عالمی سطح پر اب خون کے سرطان کے علاج کی نئی دوا تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ انگور کے بیج میں جسم کے فاسد مادے خارج کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے اور دل کو مضبوط بنانے کے لئے بھی یہ بہترین ٹانک ثابت ہوتے ہیں۔ ان بیجوں میں جلد، چھاتی، مثانے، پھیپھڑوں اور مادے کے سرطان کے خلاف بھی مدافعتی قوت دیکھی گئی ہے۔ چوہوں پر کئے جانے والے تجرِبات میں بھی مشاہدہ کیا گیا کہ اُن کی چھاتی اور جلد کے ٹیومر کا سائز ان بیجوں کے استعمال سے کم ہو گیا۔
٭ ایک جدید طبی تحقیق کے مطابق خون میں انسولین کی زیادہ مقدار چھاتی کے سرطان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لئے ذیابیطس کی خواتین مریضاؤں کو اپنے خون میں انسولین کی مقدار کو بڑھانے میں مکمل احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ نیویارک کے ایک کالج آف میڈیسن کے دو ماہرینِ طبّ نے اپنی اس نئی تحقیق میں خون کے اندر انسولین کی مقدار اور چھاتی کے سرطان کے درمیان تعلق کا تجزیہ کیا۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ انسولین کی زیادتی کی وجہ سے ہونے والے چھاتی کے سرطان کی وجوہات کا تعلق ہارمونز سے بھی ہوتا ہے اس لئے ہارمونز یا انسولین کی مقدار میں سے کسی ایک کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ یہی ہوگا کہ ہارمونز کے مقابلے میں انسولین کو کنٹرول کرنا زیادہ آسان اور بہتر ہے۔ اس تحقیق میں 835 خواتین کو شامل کیاگیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں