کانچ (شیشہ)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ دسمبر 2009ء میں کانچ یعنی شیشہ کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون مکرم فرحان احمد صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔

شیشہ کے ذرّات ریت میں موجود ہوتے ہیں چنانچہ شیشہ سازی کی صنعت اکثر ممالک میں قائم ہے۔ شیشے میں کسی قسم کا لوچ موجود نہیں ہوتا چنانچہ وہ ٹھیس لگتے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر اس میں یہ بات نہ ہوتی تو اس سے زیادہ مضبوط اور کوئی شے نہ ہوتی۔ اب بھی اس کا مکڑی کے جالے جیسا تار ستار میں استعمال ہونے والے فولادی تار کی نسبت زیادہ وزن سنبھال سکتا ہے۔شیشے کو کیمیائی عمل سے فولاد سے زیادہ سخت اور وارنش سے زیادہ نرم بنایا جاسکتا ہے۔ کھانے پینے کے برتنوں میں استعمال ہونے والا شیشہ فولاد سے زیادہ دیرپا ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ گھستا نہیں ہے۔ چنانچہ ریشمی کپڑا تیار کرنے کے کارخانوں میں دھاتی ریلوں کی جگہ اب کانچ کی ریلیں استعمال کی جاتی ہیں۔
نئی تحقیق سے اب ایسا شیشہ بھی تیار کیا جارہا ہے جو مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک لچکدار بھی ہے اور اس کا وزن بھی دھات کے مقابلہ میں کم ہے۔کانچ کے ریشے اون میں شامل کرکے وہ مادہ تیار ہوتا ہے جو Insulator کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کانچ ملی ہوئی اون نمی کا اثر قبول نہیں کرتی ، اسے آگ بھی تیزی سے نہیں پکڑتی اور کیڑا بھی نہیں لگتا۔
کانچ کی باریک تاروں سے تیار کیا جانے والا کپڑا چمکدار ہونے کے علاوہ نرم بھی ہوتا ہے اور اس پر بھی آگ اثر نہیں کرتی۔ پگھلے شیشے میں مختلف دھاتوں کے نمک شامل کرکے اسے رنگدار بناتے ہیں۔ مثلاً تانبے اور سونے کے نمک شیشے کو سرخ رنگ دیتے ہیں۔ ٹریفک سگنل کے لئے یہی شیشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ سائنسی آلات میں شیشہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور اسّی فیصد سے زیادہ آلات میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں