کمسن مجاھدہ… حضرت اُمّ ابّانؓ

ماہنامہ ’’السلام‘‘ بیلجیم کے ایک شمارہ میں مکرمہ امۃالمنان ندیم صاحبہ کے قلم سے حضرت امّ ابّانؓ کے بارہ میں ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپؓ عُتبہ بن ربیعہ کی خوبصورت اور بہادر بیٹی تھیں۔ کمسن ہونے کے باوجود فنون حرب سے خوب واقف تھیں اورتیر اندازی میں اس قدر کمال تھا کہ اُڑتے ہوئے پرندے کو گرا لیا کرتی تھیں۔ عبادتگزار بھی بہت تھیں۔ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ خلافت میں اسلامی لشکر کے ساتھ خدمت کرنے کے ارادہ سے شام گئیں۔ اُس وقت آپؓ کی شادی کو چند ہی روز گزرے تھے اور آپؓ کے شوہر ابّان بن سعید بھی مجاہدین میں شامل تھے۔ اسلامی لشکر حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں اجنادین کے مقام پر ٹھہرا۔ جب فوجیں صف آراء ہوئیں تو حضرت خالدؓ خواتین کے پاس آئے اور کہا: اے دخترانِ عرب! تمہاری شجاعت، ہمت، جرأت اور استقلال مشہور ہے۔ تم نے فرمانبرداری کرکے خدا اور اس کے رسول کو راضی کرلیا ہے، مجھے تمہاری دلیری پر اعتماد ہے، اگر رومی تمہارے سامنے آجائیں تو اُن سے خوب دل کھول کر لڑو۔ اگر مسلمان پیچھے ہٹیں تو انہیں غیرت دلا کر لڑائی کی طرف لوٹاؤ۔ اُمّ ابّانؓ نے کہا کاش آپ ہمیں آگے بڑھ کر لڑنے کی اجازت دیدیتے۔
جنگ شروع ہوئی تو اتفاق سے ایک تیر ابّان بن سعید کو آکر لگا جو انہوں نے ہمت کرکے خود ہی کھینچ لیا اور زخم کو اپنے عمامہ سے باندھ دیا۔ لیکن تیر زہر میں بجھا ہوا تھا۔ زہر کا اثر سارے جسم میں پھیل گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ جب اُمّ ابّانؓ کو اپنے شوہر کی شہادت کا علم ہوا تو فرطِ رنج سے دوہری ہوگئیں۔ نو عمر عروس گھبرا کر اپنے شوہر کی لاش کی طرف بڑھی لیکن لاش سے لپٹ کر آہ و بکا کرنے کی بجائے انہوں نے لاش سے مخاطب ہو کر کہا: اے میرے سر تاج! خدا نے تمہیں وہ چیز عطا کردی جس کی میں خواہشمند تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اور تمہیں ایک جگہ کیا تھا لیکن موت نے ہمیں جدا کردیا۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں ہے۔ میں نے تمہارے ساتھ نباہ کا عہد کیا تھا میں اب بھی اس عہد پر قائم ہوں اور انشاء اللہ مرتے دم تک قائم رہوں گی۔ میں اُس وقت تک جہاد کروں گی جب تک میری آرزو پوری نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت عطا نہ فرمائے۔ میں جلد تم سے فردوس میں آکر ملوں گی۔
جب ابّانؓ کی تدفین ہوئی تو اُمّ ابّانؓ تربت پر آئیں، فاتحہ پڑھی اور کہا: اے ابّان! پروردگار نے فرمایا ہے کہ شہید مرتے نہیں، زندہ رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور سنتے ہیں۔ تم بھی سن رہے ہو۔ سنو! میں نے تمہارے قاتل سے قصاص لینے کا عزم کرلیا ہے۔ میدان جنگ میں جارہی ہوں، دعا کرو کہ جلد تم سے آملوں۔
یہ کہہ کر وہ واپس آئیں، زرہ بکتر پہنی اور چہرہ اس طرح ڈھک لیا کہ صرف آنکھیں، ناک اور پیشانی کا کچھ حصہ نظر آتاتھا۔ پھر تلوار حمائل کی اور کمان ہاتھ میں لے کر گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں پہنچیں۔ جب ابّان بن سعید کو شہید کرنے والا توماؔ آپؓ کے سامنے آیا تو آپؓ کا چہرہ جوش و غصہ سے سرخ ہوگیا اور آپؓ نے اُس کی دائیں آنکھ میں ایسا کھینچ کر تیر مارا کہ وہ آہ و فریاد کرتا ہوا پیچھے کی طرف بھاگا۔ اُمّ ابّانؓ نے یکے بعد دیگرے آٹھ دس عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور پھر مسلسل تیر چلاتی رہیں۔ آخر اسلامی لشکر سے پسپا ہوکر عیسائی بھاگ نکلے۔ اس کے بعد بھی اُمّ ابّانؓ کئی معرکوں میں شریک ہوئیں۔ نہایت سرفروشی اور بہادری سے لڑیں۔ لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں