کولیسٹرول

کولیسٹرول اٹھارویں صدی میں دریافت ہوا اور 1955ء میں اس کا مکمل کیمیائی تجزیہ کیا گیا۔ یہ ایک بے رنگ و بے بو مادہ ہے جو تین یونانی الفاظ کا مرکب ہے اور ایک عام انسان کے جسم میں قریباً 210؍ملی گرام پایا جاتا ہے۔ یہ جسم میں خوراک کے ذریعہ بھی داخل ہوتا ہے اور مختلف اعضاء مثلاً جگر، آنت اور جلد وغیرہ بھی اسے تیار کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ سارے جسم میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں ہوتی ہے۔
کولیسٹرول کی ضرورت سے زائد مقدار شریانوں میں جم کر خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ تاہم اس کے بہت سے فوائد ہیں مثلاً دھوپ کی وجہ سے یہ وٹامن ڈی میں تبدیل ہو جاتا ہے جو ہڈیوں کی نشوونما کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اس کا ایک کام ایسے مادے پیدا کرنا ہے جو چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس ہضم کرتے ہیں۔ اس سے بننے والے بعض مادے بہت اہم ہیں جو جسم میں جوڑوں کی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور الرجی سے بچاؤ کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بہت سے اہم ہارمونز کا خام مادہ بھی ہے۔ پس یہ بذات خود کوئی نقصان دہ مادہ نہیں بلکہ اس کی زیادتی مضر ہے۔ اور اس کی زیادتی کی بنیادی وجہ خوراک میں بے اعتدالی اور اپنے کام کاج اپنے ہاتھوں سے نہ کرنا ہے۔
یہ مختصر معلوماتی مـضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مارچ 1999ء میں مکرم محمد صائم احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں