گارڈن فریزر اور ڈاکٹر عبد السلام

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 18؍جنوری 2007ء میں سائنسدان گارڈن فریزر کی کتاب سے اُس حصہ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے جو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور احمدیت کے بارہ میں ہے۔
گارڈن فریزر سوئٹزرلینڈ میں ذرّاتی فزکس کی یورپین لیبارٹری میں کام کرتے ہیں اور فزکس کے ایک ماہوار رسالہ کے مدیر بھی ہیں۔ وہ دنیا کی مختلف دانش گاہوں میں سائنس کمیونکیشنز کے لیکچرر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب:
“Antimatter, The Ultimate Mirror” میں دنیا بھر میں اس موضوع پر ہونے والی تحقیق اور دنیا کے نامور ترین ماہرینِ طبیعات کے حالات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ضمن میں مصنف نے آغاز ستمبر 1956ء سے کیا ہے جب محترم ڈاکٹر صاحب فزکس کی ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد امریکہ سے کیمبرج (انگلستان) آرہے تھے۔ آپ یہ سفر امریکن ایئرفورس کے ایک طیارہ میں کر رہے تھے کیونکہ ان دنوں امریکن ائیر فورس یورپ میں کام کرنے والے ماہرین طبیعات کو امریکہ اور یورپ کے درمیان مفت سفر کی سہولت مہیا کیا کرتی تھی۔ اس سفر کے دوران آپ نیو کلیئر فزکس کے ایک اہم مسئلہ اور نئی دریافت پر رات بھر غور کرتے رہے اور کافی حد تک اس کا حل پالیا۔ یہ وہ مسئلہ تھا جو جرمن سائنسدان Peierls نے آپ سے اُس وقت پوچھا تھا جب آپ ابھی یورپ میں آئے ہی تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ Neutrinos (ایٹم کے اندر موجود ذرّات) کا وزن صفر کے برابر کیوں ہے؟ خود Peierls بھی اس سوال کے جواب سے ناواقف تھا۔
اس کے بعد مصنف نے محترم ڈاکٹر صاحب کی تھیوری کی تکنیکی تفصیل بیان کی ہے اور لکھا ہے کہ برطانیہ پہنچ کر اگلے دن ہی آپ Peierls سے ملنے برمنگھم چلے گئے لیکن Peierls کو آپ کی تھیوری پر یقین نہیں آیا۔ اس پر آپ نے اپنا مضمون زیورخ (سوئٹزرلینڈ) میں Pauli کو بھجوادیا جو ذرّاتی فزکس کا باوا آدم مانا جاتا ہے۔ لیکن اُس نے جواب دیا کہ ’’میرے دوست عبد السلام کو میرا سلام پہنچایا جائے اور اسے کہو کہ وہ کسی اَور بہتر مضمون کے متعلق سوچے‘‘۔ اس دوران چند دیگر سائنس دانوں نے بھی تحقیق کرکے وہی نتائج حاصل کرلئے جو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب حاصل کرچکے تھے چنانچہ چند ماہ بعد Peierls نے آپ کو لکھا کہ اب وہ آپ کی تھیوری سے بالکل متفق ہے۔ چنانچہ آپ نے وہ پرانا مسئلہ حل کر دیا جو بہت سے ماہرین طبیعات کے لئے پیچیدہ اور لاینحل تھا اور ایٹم کو سمجھنے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔
اس کے بعد مصنف نے محترم ڈاکٹر صاحب کا برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا، واپس پاکستان جانا لیکن دوبارہ یورپ آنے پر مجبور ہونا اور آپ کی بہت سی اعلیٰ کامیابیوں بشمول اٹلی میں قائم مرکز اور نوبل پرائز دیئے جانے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ دنیا بھر میں تکریم کے باوجود پاکستان میں آپ کو وہ عزت نہ دی گئی جس کے آپ مستحق تھے۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ آپ کا تعلق احمدیہ فرقہ کے ساتھ تھا۔ 1974ء میں ذولفقار علی بھٹو کے دَور حکومت میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تو آپ نے حکومت پاکستان کے نیشنل سائنٹفک مشیر کے بااثر اور پُررسوخ عہدہ کو خیرباد کہہ دیا۔
کتاب میں مزید لکھا ہے کہ: احمدی جن کو مرزائی اور قادیانی بھی کہا جاتا ہے، ان کا اعتقاد ہے کہ مرزا غلام احمد جو کہ ہندوستان کے شمال میں انیسویں صدی میں پیدا ہوئے تھے، امام مہدی اور مسیح تھے۔ یہ عقیدہ عام مسلمانوں کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ احمدی پاکستان، ہندوستان اور افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ گو ان کی تعداد کم ہے مگر انہیں اکثر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ 1979ء میں جب عبدالسلام کو نوبل پرائز دیا گیا تو ضیاء الحق نے جو اس وقت پاکستان کا صدر تھا انہیں بلوایا۔ اس وقت ان کا ایک لیکچر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ہونا تھا مگر طالب علموں کی ایک تنظیم جو تشدد کیلئے مشہور ہے، کے شر سے بچنے کیلئے لیکچر نہ دیا جاسکا۔ بے نظیر بھٹو جب پہلی دفعہ پاکستان کی سربراہ منتخب ہوئی تو اس نے عبد السلام سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد تعصّبانہ سرد مہری کی انتہا اس وقت ہوئی جب لاہور کے گورنمنٹ کالج میں جہاں عبدالسلام نے تعلیم پائی تھی ایک میٹنگ میں کالج کے مایہ ناز طلبہ کی لسٹ پڑھی گئی جس میں آپ کا نام نہیں تھا۔
پھر کتاب میں محترم ڈاکٹر صاحب کی سوانح بیان کی گئی ہے اور اُن کی کامیابیوں کا ذکر ہے۔ آخر میں اُس الوداعی تقریب کا احوال ہے جو اٹلی میں آپ کے اعزاز میں منعقد کی گئی اور پھر لکھا ہے کہ: عبد السلام 1996ء میں دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے مگر ان کی فزکس کی دنیا کے لئے خدمات اور ان کا قائم کردہ اٹلی میں سینٹر ان کی ایک اعلیٰ یادگار کے طور پر ہمیشہ قائم رہے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں