گندھارا آرٹ

قدیم ریاست گندھارا (Gandhara) پاکستان کے شمالی علاقہ میں واقع تھی اور پشاور، ٹیکسلا، سوات اور چارسدہ اس کے اہم مراکز تھے۔ یہ ریاست چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔ اس کا ذکر بدھ روایات میں موجود ہے۔ چینی سیاح ’ہیوں سانگ‘ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ ریاست ایران کا ایک صوبہ بھی رہی اور سکندراعظم بھی یہاں آیا تھا۔ کشان بادشاہوں کا دَور گندھارا کی تاریخ کا سنہری دَور تھا۔ کشان بادشاہ کنشکؔ کے عہد میں گندھارا تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ لوگ یہاں بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے آتے۔ پھر مختلف حملہ آوروں نے تسلسل کے ساتھ بدھ مت کی تہذیب کو زوال پذیر کردیا۔ ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ مئی 2011ء میں مکرم رانا محمد سلیمان صاحب کا گندھارا آرٹ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔
گندھارا آرٹ بنیادی طور پر ایک مذہبی آرٹ تھا جس میں بدھا کی زندگی کی مختلف داستانوں اور تعلیمات کے مناظر کو آرٹ کا مضمون بنایا گیا۔ 1902ء سے 1920ء تک ہندوستان میں آثارقدیمہ پر کام کے حوالے سے معروف Sir John Hubert Marshall کا کہنا ہے کہ گندھارا آرٹ دراصل آرین، یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔اس آرٹ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے دَور میں یونانی آرٹ نے نئی شکل اختیار کی۔ یونانی دیوتاؤں کی جگہ گوتم بدھ کے مجسمے بننے لگے۔ جگہ جگہ اسٹوپے (بدھ کی یادگاریں) تعمیر ہوئے۔ یہ پشاور سے موہنجوداڑو تک دکھائی دیتے ہیں۔
دوسرے دَور میں وہ اسٹوپے ہیں جو ٹیکسلا کے نواح میں چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ اس دَور میں فنکاروں نے پتھروں پر سنگ تراشی کی۔ تیسرا دَور ہوتوں کے قبیلہ کی ہُن کی یلغار کا تھا جس نے شہروں اور بستیوں کو مسمار کردیا اور یادگاروں کو آگ لگادی۔ اس کے بعد یہ فن معدوم ہوگیا۔ ہُن چونکہ سورج کی پوجا کرتے تھے اس لیے انہیں ہندو دیوتا شیومہاراج کو اپنانے میں دشواری نہ ہوئی۔ بہرحال اس کے بعد گندھارا آرٹ اور بدھ مت دونوں ہی اپنے عروج کے سورج کو دوبارہ نہیں طلوع کرسکے۔ گندھارا کی تکنیکی خصوصیات اسے دوسرے علاقوں کی مجسمہ سازی سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہاں انسانی جسم کو اتنی مہارت سے ڈھالا جاتا تھا کہ جسم کے مختلف اعضاء، پٹھے اور مونچھیں تک واضح ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں