گھٹیالیاں کے جاں نثار

گھٹیالیاں کی تین ہزار آبادی میں سے دو تہائی احمدی ہیں اور یہاں احمدیوں کا تعلیم الاسلام ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ یہاں دو احمدیہ مساجد ہیں۔ قصبہ کے شرقی کونے میں واقع احمدیہ مسجد میں 30؍اکتوبر 2000ء کی صبح فجر کی نماز کے بعد مذہبی جنونیوں کے ایک گروہ نے دہشت گردی کا گھناؤنا کھیل کھیلا جس کے نتیجہ میں پانچ احمدی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍نومبر 2000ء میں مسجد احمدیہ گھٹیالیاں میں شہید ہونے والے پانچ جان نثاروں کا تذکرہ محترم یوسف سہیل شوق صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم افتخار چودھری صاحب
آپ محترم چودھری محمد صادق صاحب کے بیٹے تھے۔ عمر 35 سال تھی۔ وہ واقعی گھٹیالیاں کا افتخار تھے اور اسم بامسمّی تھے۔ بے حد نیک، مخلص اور نمازی تھے۔ مسواک کا بہت شوق تھا۔ سارا گاؤں انہیں بھائی کہتا تھا اور وہ ہر کسی کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ کسی بھی کام سے کبھی کسی کو انکار نہیں کیا خواہ اُس کا مذہب کچھ بھی ہو۔ خود تکلیف میں ہونے کے باوجود دوسرے کی تکلیف دُور کرنے کی کوشش کرتے۔ ایک قریبی گاؤں عہدی پور میں جب احمدیہ مسجد کے لئے زمین کسی دوست نے عطیہ میں دی تو وہاں بھرتی ڈالنے کے لئے افتخار صاحب نے اپنا ٹریکٹر ٹرالی بلامعاوضہ پیش کردیا بلکہ ڈیزل وغیرہ کا خرچ بھی خود برداشت کیا۔ اپنی زمین پر اُگی ہوئی فصلوں میں سے دوسروں کو فراخ دلی سے دیتے۔ ایک دفعہ گاؤں میں ایک جھگڑا ہوا تو فریقین کو ضمانتیں کروانی پڑیں۔ ایسے میں افتخار صاحب نے بیچ میں آکر دونوں فریقوں کی صلح کروادی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی کئی ایسی نیکیوں کا پتہ چلا جن سے آپ کے بھائی بھی لاعلم تھے۔
ایک دفعہ آپ کے ایک بھائی کا ایک ایسے شخص سے جھگڑا ہوگیا جو پانی چوری کر رہا تھا۔ آپ کے بھائی نے اُسے زخمی کردیا اور گھر آکر آپ کو واقعہ بتایا۔ آپ فوراً گئے اور زخمی کو ہسپتال لے جاکر مرہم پٹی کروائی، کھانا کھلایا، خرچ کے لئے پیسے دیئے۔ اُس کے زخمی ہونے کی وجہ سے اپنے بھائیوں کو ساتھ ملاکر آپ نے اُس شخص کے کھیت میں مونجی کی پنیری بھی لگائی۔ زخمی سے سارا وقت رابطہ رکھا اور کبھی اُسے احساس نہ دلایا کہ وہ پانی چوری کر رہا تھا۔
آپ کے ایک کزن نے بتایا کہ جب وہ آپ کے والد کی تعزیت کرنے گاؤں آئے تو واپس جاتے وقت آپ نے اُن کے ہاتھ میں کرایہ کی رقم پکڑادی اور کہا کہ بے شک آپ مجھ سے بڑے ہیں لیکن مجھے ہمیشہ اپنے ماموں کی جگہ سمجھنا۔ اسی طرح ایک اَور موقع پر جب وہ گاؤں آئے تو آپ نے اُن کا حال احوال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تانگہ بانی کرتے ہیں لیکن اُن کا گھوڑا کمزور ہے ۔ جب وہ واپس روانہ ہونے لگے تو افتخار صاحب نے دو تھیلے چاول اُن کو دیئے اور پانچ ہزار روپے کی رقم پکڑادی کہ اپنا کمزور گھوڑا کسی اچھے گھوڑے سے بدل لو۔
عزیزم شہزاد احمد صاحب
گھٹیالیاں کے سب سے کم عمر شہید، سولہ سالہ شہزاد احمد ولد محترم محمد بشیر صاحب تھے۔ خوبصورت، صحتمند اور ذہین نوجوان تھے۔ اسی سال بڑے اچھے نمبروں میں میٹرک کیا تھا اور اب گورنمنٹ کالج آف سائنس میں فرسٹ ایئر کے طالبعلم تھے۔ پکے نمازی اور دینی کاموں کے شوقین تھے۔ ہاکی، کرکٹ اور کبڈی کے اچھے کھلاڑی تھے۔
محترم عطاء اللہ صاحب
آپ محترم مولا بخش صاحب کے بیٹے تھے۔ عمر 65 سال تھی۔ ایک مل سے لمبی سروس کے بعد ریٹائرڈ ہونے کے بعد زمیندارہ کرتے تھے۔ مخلص احمدی، نماز باجماعت کے پابند، دینی کاموں کے شوقین اور بہت بااخلاق تھے۔ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ چند ماہ سے اپنے عزیزوں سے کہتے آرہے تھے کہ مَیں نے راہ مولا میں جان قربان کرنی ہے۔ اگر کوئی موقع آیا تو مَیں سب سے آگے ہوں گا۔
محترم غلام محمد صاحب
آپ اس سانحہ میں سب سے بڑی عمر کے شہید تھے۔ عمر 68 سال تھی لیکن صحت بہت عمدہ اور جسم مضبوط تھا۔ والد کا نام محترم علی محمد صاحب تھا۔ آپ شدید زخمی حالت میں پہلے نارووال اور پھر لاہور کے ہسپتال میں لے جائے گئے جہاں خالق حقیقی سے جاملے۔ نمازوں کے عادی اور جماعتی پروگراموں میں شرکت کرنا جزو ایمان سمجھتے تھے۔ نہایت مخلص اور مالی قربانیوں میں پیش پیش رہتے۔
محترم عباس علی صاحب
آپ وہ دلیر نوجوان تھے جو مسجد سے باہر حملہ آوروں سے گتھم گتھا ہوگئے۔ انتہائی شریف آدمی تھے اور گاؤں میں ہر کسی سے محبت کا سلوک کرتے تھے۔ محنتی اور کام کے دھنی تھے۔ محترم افتخار احمد صاحب شہید کے ساتھ مل کر زمیندارہ کا کام کرتے تھے۔ آپ نارووال ہسپتال میں اپنے خالق کے حضور حاضر ہوگئے۔
راہ خدا میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ شدید زخمی ہونے والوں میں مکرم ماسٹر محمد اسلم صاحب اور اُن کے دو صاحبزادے بھی شامل تھے۔ ایک بچہ قسیم اسلم کی عمر صرف تیرہ سال تھی جس نے بہادری اور استقامت کی مثال قائم کردی۔ گولیاں لگنے سے اُس کا گھٹنا ٹوٹ گیا اور ران کا گوشت ادھڑ گیا لیکن وہ بالکل نہیں رویا۔ اپنے والد اور بھائی ندیم اسلم کے ساتھ میوہسپتال لاہور میں زیرعلاج رہا۔ ایک زخمی محمد عارف صاحب بھی میوہسپتال میں زیرعلاج رہے جبکہ ایک زخمی نصیر احمد صاحب نارووال ہسپتال میں داخل رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں