گیمبیا میں ایمان افروز واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 ، 26 اور 28؍اپریل 2010ء میں مکرم دائود احمد حنیف صاحب مربی سلسلہ نے اپنی زندگی کے اہم واقعات بیان کئے ہیں جن میں ایسے ایمان افروز واقعات بھی شامل ہیں جو گیمبیا میں آپ کے قیام کے دوران پیش آئے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار 3فروری 1943ء کو محترم چوہدری سید محمد صاحب (سابق باڈی گارڈ حضرت مصلح موعودؓ) اور محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے ہاں پیدا ہوا۔ والدین نے بچپن سے ہی وقف کیا ہوا تھا چنانچہ مڈل کے بعد مجھے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل کروادیا گیا۔ جہاں ٹیسٹ لینے کے بعد مجھے چوتھی کلاس میں داخلہ مل گیا۔
جامعہ کی تعلیم کافی مشکل تھی۔ خاکسار نے اپنی پریشانی کا اظہار اپنے والدین سے کیا تو انہوں نے میرے لئے خوب دعائیں کیں اور میرے والد عربی کی کتب پہلے خود مطالعہ کرتے اور پھر رخصتوں میں مجھے پڑھاتے۔ چنانچہ سالانہ امتحان میں مَیں اوّل آیا اور پھر اچھے طلباء میں شامل رہا اور کئی سال تک بہترین کھلاڑی بھی رہا۔ اسی دوران خاکسار نے میٹرک پاس کر لیا اور بعدازاں سروس کے دوران مولوی فاضل اور ایم اے اسلامیات بھی کرلیا۔
جون 1965ء میں شاہد کیا تو نومبر میں خاکسار کی شادی ہوگئی جس کے پانچ ماہ بعد خاکسار کو اکیلا سیرالیون بھجوایا گیا تاکہ وہاں سے گیمبیا جاؤں۔ لیکن گیمبیا کا ویزا ملنے میں کامیابی نہ ہوسکی۔ تاہم اس پریشانی میں ایک خواب کی بِنا پر مجھے یقین تھا کہ بالآخر کامیابی ہو گی۔ اس دوران مجھے پرائمری سکول کھولنے کے لئے ممبولو چیفڈم کے چیف الحاج شیبرا صاحب کے پاس بھجوایا گیا۔ وہاں شروع میں بغیر بستر کے گزارا کرنا پڑا اور ایک نہ نظر آنے والے کیڑے کے کاٹنے سے بہت تکلیف اٹھائی۔
سیرالیون میں چھ ماہ گزارے تھے کہ گیمبیا کے امیر مکرم مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی دمہ کی تکلیف سے سخت بیمار ہو گئے اور مجھے مرکز سے فوراً گیمبیا جانے کا حکم ملا۔ دولتِ مشترکہ میں شامل ملک کا باشندہ ہونے کی وجہ سے 14نومبر 1966ء کو بذریعہ ہوائی جہاز خاکسار بغیر ویزا کے گیمبیا پہنچ گیا۔ مولانا صاحب کو دمہ کی تکلیف تھی اور بیماری میں اتار چڑھائو بہت تھا۔ انہوں نے ہومیو پیتھک ادویات رکھی ہوئی تھیں۔ خاکسار کو فرماتے تھے کہ فلاں دوائی لے آئو۔ وہ کھا لیتے، تھوڑی دیر کے بعد فرماتے اب علامتیں بدل گئیں ہیں اب فلاں دوائی لے آئو ۔بس اسی طرح روزانہ ہوتا رہتا۔ جب دمہ کا زور ختم ہو جاتا تو لگتا تھا کہ کوئی بیماری ہے ہی نہیں ۔ایک دن حملہ اتنا سخت تھا کہ اُن کی زندگی سے مایوسی ہونے لگی۔ اس وقت یہ تصور کر کے کہ اگر مولانا صاحب فوت ہو گئے تو پھر کیا کروںگا! مجھے تو مردہ کو نہلانا بھی نہیں آتا اور یہاں کوئی مشورہ دینے والا بھی نہیں، لوکل زبان بھی نہیں آتی۔ چنانچہ خاکسار نے اُن کی نازک حالت کی بذریعہ تار اطلاع مرکز میں بھجوائی ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعا کی برکت سے فضل فرمایا اور انہیں بہت آرام آگیا۔ چند دن بعد اُنہیں بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان بھجوا دیا گیا۔ اور مرکز کی ہدایت پر جماعت کا تین رُکنی وفد وزیراعظم گیمبیا سر داؤدا جوارا سے ملا جنہوں نے مجھے گیمبیا میں رہنے کی اجازت دیدی۔ پھر گیمبیا میں خاکسار قریباً 30سال تک خدمت بجا لاتا رہا۔
اس اثناء میں محترم چوہدری محمد شریف صاحب بطور امیر گیمبیا پہنچ گئے تو خاکسار کو سالکینی میں بھجوایا گیا جہاں باتھرسٹ (دارالحکومت) کے بعد سب سے بڑی جماعت تھی۔ خاکسار کے ساتھ ایک مقامی دوست مکرم ہارون الرشید نیولینڈ صاحب بھی گئے تاکہ میرا تعارف کروا دیں۔ یہ دوست نہایت مخلص احمدی تھے۔ ان کا تعلق Oku Marabu قبیلہ سے تھا اور کِریوُل زبان بولتے تھے۔ کریول زبان بغیر گرائمر کے انگریزی زبان ہی ہے اور کافی جلد سمجھ آجاتی ہے لیکن سالکینی میں لوگ میڈنکا زبان بولتے تھے جو نہ میرے اس ترجمان کو آتی تھی اور نہ مجھے۔ چنانچہ ہمارا تبادلہ خیالات عموماً ایک آدھ فقرے کے بعد ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھتے ہوئے سر ہلاکر اور بغل گیر ہو کر ہو تا تھا۔ خاکسار نے کوشش کی کہ لوکل زبان میں کوئی کتاب مل جائے مگر پتہ چلا کہ لوکل زبانوں کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہے اور انہیں لکھنے کے لئے انگریزی یا عربی حروف تہجی استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ وہاں برطانیہ سے گورنر بھجوائے جاتے تھے چنانچہ اُن کے لئے گورنمنٹ نے روز مرہ کی ضروریات کے چند صفحات کے نوٹس تیار کروائے ہوئے تھے۔ میڈنکا زبان کے نوٹس کی ایک کاپی مجھے مل گئی جن سے کام چلنے لگا۔ خاکسار جب بھی کوئی ٹوٹا پھوٹا جملہ بولتا تو مقامی لوگ بے انتہا خوش ہوتے۔
سالکینی کے ایک پرائمری سکول کے اساتذہ سے تبلیغی نشستیں ہونے لگیں۔ ہیڈ ماسٹر Methew Yahya Baldeh صاحب مسلم نژاد تھے مگر عیسائی سکولوں میں پڑھنے اور ان کے اثر کے باعث عیسائیت قبول کر چکے تھے۔ وہ احمدیہ تفسیر کو سراہتے۔ بعد میں وہ وزیر بھی رہے اور جماعت کا احترام کرتے رہے۔
پھر میری تقرری جارج ٹاؤن میں ہوگئی جو دریا کے اندر چار میل لمبا اور ایک میل چوڑا جزیرہ ہے۔ ویسے گیمبیا کی کُل لمبائی قریباً چار سو میل اور چوڑائی 12 سے 30 میل تک ہے۔ اس کے درمیان لمبائی کے رُخ دریا بہتا ہے۔ جارج ٹاؤن پہنچ کر خاکسار نے اُن 30افراد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جنہوں نے مولانا غلام احمد بدو ملہی صاحب کے ہاتھوں ایک لوکل عالم کیبا سِلّا کی شکست دیکھ کر بیعت کی تھی۔ تاہم وہاں جماعت قائم نہیں کی جاسکی۔ وہاں پانچ سات لوگ میرے پاس آنا شروع ہوئے۔ میرا قیام رامض دیاب صاحب کے ہاں تھا اور وہی میرے مترجم بھی تھے۔ یہ لبنانی نژاد تھے اور کاروباری آدمی تھے ۔ان کی کپڑے کی دکان تھی اور ایک سینما چلاتے تھے۔ سینما یہ اپنے گھر میں دکھاتے تھے جو خاکسار کے لئے بڑی پریشانی کا موجب تھا۔ خاکسار احباب کو جمعہ کی نماز کے قیام کی تلقین کرتا مگر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا تھا۔ چنانچہ خاکسار نے مکرم امیر صاحب کی اجازت سے 5 پونڈ ماہانہ کرایہ پر ایک مکان لے لیا۔ لیکن یہاں پر بھی وہی چند لوگ مغرب کے وقت آتے۔ اس مکان میں بجلی پانی کی سہولت بھی نہیں تھی۔ باوجود کوشش کے جمعہ کے وقت تین آدمی اکٹھے نہ کئے جاسکے۔ تاہم چند دن بعد ایک شخص شیخ ڈمفا نے خواب کی بِنا پر بیعت کرلی۔
مہینہ کے اختتام پر مکرم امیر صاحب کا ارشاد آیاکہ پانچ پونڈ ماہانہ کرایہ کا مکان جماعت ادا نہیں کر سکتی۔ آپ کوئی ایسا مکان لیں جس کا کرایہ ڈیڑھ پونڈ تک ہو۔ بجلی کی آپ کو ضرورت نہیں۔ علمی کام دن میں کر لیا کریں اور پانی دریا سے منگوا لیا کریں۔
چنانچہ ایک کمرہ ڈیڑھ پونڈ کرایہ پر لے لیا جس میں بجلی مہیا تھی اور کرایہ میں شامل تھی۔
وہاں حکومت کے واحد ہائی سکول کے اساتذہ سے بھی رابطے شروع ہو گئے۔ پہلا تعارف ایک ٹیچر مکرم ماجہ سونکو صاحب سے ہوا۔ یہ اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اس وقت ان کے بڑے بھائی چیف تھے۔ گیمبیا میں آبادی تو قریباً 95 فیصد مسلمان تھی لیکن توہم پرستی اور تعویذ گنڈے کا بہت رواج تھا۔ سونکو صاحب احمدیت کی صداقت کے قائل ہونے کے باوجود صرف تعویذوں کی محبت کی وجہ سے بیعت نہ کرپارہے تھے کہ ایک دن انہوں نے تعویذوں والا صندوق نکالا اور صحن میں رکھ کر سب کو آگ لگا دی۔ پھر میرے پاس آکر بیعت فارم پُر کردیا۔ یہ تبدیلی ایک خواب کی بِنا پر آئی تھی۔
اسی دوران ایک احمدی دوست مکرم غوث کجیرا صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اُن کے کہنے پر مَیں نے بچہ کے کان میں اذان دی اور اقامت کہی۔ دو تین دن بعد نومولود فوت ہوگیا۔ مجھے اطلاع ملی تو مَیں جنازہ پڑھانے اُن کے گھر پہنچا جہاں غیراحمدی امام بھی موجود تھا اور اُسی نے جنازہ بھی پڑھایا۔ پھر میرے کہنے پر انہوں نے مجھے بھی جنازہ پڑھنے دیا لیکن کوئی بھی میرے ساتھ شامل نہ ہوا۔جب دفنانے کے بعد واپس ہم اُن کے گھر پہنچے تو امام صاحب بڑے غصہ میں تھے کہ مَیں نے کیوں اُن کے ساتھ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ وہاں پر کیبا جام جاؤ صاحب چیف جارج ٹاؤن بھی موجود تھے جو احمدی تھے۔ انہوں نے امام صاحب کو ٹوک دیا تو امام صاحب خاموش ہوگئے لیکن بعد میں انہوں نے غوث کجیرا صاحب کو پیغام بھیجا کہ گاؤں کے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کوئی اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے جب تک وہ احمدی کہلانے سے باز نہیں آتے ہم سب ان کابائیکاٹ کرتے ہیں۔ غوث صاحب بڑے شریف دھیمے مزاج کے نیک مگر غریب دوست تھے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ مَیں احمدی ہوں اور احمدی ہی رہوں گا۔ اُس دن وہاں کے احمدیوں نے بھی عہد کیا کہ آئندہ وہ صرف احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ چنانچہ باقاعدہ جماعت بھی جارج ٹاؤن میں قائم ہوگئی۔ اور نماز جمعہ کا بھی آغاز ہوگیا۔ یہ واقعہ تو عجیب ہے مگر معلوم یوں ہوتا ہے کہ نومولود دنیا میں آیا ہی اس لئے تھا کہ اس ٹائون میں جماعت کا علیحدہ قیام عمل میں آئے اور ترقیات کی راہیں کھلیں۔ جلد ہی تمام احمدی متحد ہوکر دوسروں کو دعوت الی اللہ کرنے کے لئے مستعد ہوگئے۔ لیکن مخالفت بھی انتہا تک ہوگئی۔ رامض دیاب صاحب بھی مخالفین سے مل گئے اور کہا کہ مَیں نے ہی احمدیوں کو یہاں بلوایا تھا اور مَیں ہی انہیں تباہ کروں گا۔ اُس وقت اُن کے دو سینما تھے اور تین چار کپڑے کی دکانیں تھیں۔ اُس نے اپنے سینما میں ہمارے خلاف میٹنگ بلائی اور بہت زہر اگلا۔ چنانچہ بہت دعا کا موقع ملا اور خلیفۂ وقت سے بھی دعا کی درخواست کی گئی۔
ان دنوں موسم برسات کے باوجود بارش نہیں ہورہی تھی اور فصلیں خشک ہوجانے کا ڈر تھا۔ چنانچہ ہم احمدیوں نے ایک دن اعلان کیا کہ ہم کل دس بجے نماز استسقاء پڑھیں گے۔ اس اعلان کو سُن کر ایک غیراحمدی عالم بھی ہمارے ساتھ شامل ہوئے البتہ رامض دیاب نے ہمارا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ جب ہم نے نماز استسقاء ادا کی تو سارا دن بارش نہ ہوئی۔ میرے دل میں دعا کے لئے جوش اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے نصف رات کو اس قدر بارش نازل کی کہ ہر چیز کی پیاس بجھ گئی۔ اس نشان کا بہت مثبت اثر پڑا اور مخالفت بہت کم ہوگئی۔ البتہ رامض صاحب کو سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسرا طریق اختیار کیا۔ اُن کے دونوں سینما تباہ ہوگئے اور چار وں دکانیں ختم ہوگئیں۔ تب وہ توبہ کرتے ہوئے واپس آئے اور پھر آخر دم تک جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔
ہماری جماعت چھوٹی تھی اور غرباء پر مشتمل تھی لیکن تبلیغ کے لئے بڑی پُرجوش تھی۔ قریبی علاقوں میں میرے ساتھ اپنے کام کا حرج کرکے جاتے۔ ہر گاؤں میں پہنچ کر ہم امام سے ملتے اور لٹریچر دیتے۔ بعض لٹریچر لینے سے انکار کردیتے اور بعض سلام بھی نہ کرتے اور نکل جانے کا کہتے۔ ایک امام با فوڈے صاحب تھے۔ انہوں نے نہ زبان سے میرے سلام کا جواب دیا اور نہ ہاتھ بڑھایا۔مَیں نے کتاب حَمَامَۃُ الْبُشْریٰ پیش کرنی چاہی تو انہوں نے انکار کردیا اور ہمیں واپس چلے جانے کا کہا۔ ہمیں ناچار واپس لوٹنا پڑا۔ یہ امام صاحب ہمارے خلاف بہت زہر اگلا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد اُن کی ایک بیوی نے اُن کے خلاف مسجد کمیٹی میں مقدمہ کردیا جس پر انہیں امامت سے فارغ کردیا گیا اور وہ مالی لحاظ سے بھی صفر ہوگئے۔ پھر وہ میرے سلام کا جواب بھی دینے لگے اور ہاتھ بھی ملالیتے۔
مکرم اسحاق ساینگ صاحب نواحمدی ایک ادارہ میں ڈرائیور تھے اور قریبی دیہات میں جایا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ بارہ میل دُور گائوں مصرا میں ایک استاد سعودی عرب سے پڑھ کر آیا ہے اور وہاں اپنے مدرسہ میں احمدیوں کی طرح تعلیم دیتا ہے اور تعویذ کے خلاف وعظ کرتا ہے۔ خاکسار نے انہیں کچھ عربی لٹریچر اورایک دعوت نامہ اُن استاد صاحب کے لئے بھجوایا۔ میرا خط اور کتب کا تحفہ پاکر مکرم الحاج حمزہ صاحب بہت خوش ہوئے اور ایک روز ہمارے پاس آگئے۔ انہیں احمدیت کا تعارف کرواکر مزید کچھ کتب پیش کی گئیں۔ چند ہفتوں بعد اُن کے مدرسہ میں ایک تقریب پر مجھے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے کا موقع ملا جس کا بڑا نیک اثر ہوا اور احمدیت کے عقائد بتائے گئے تو اکثر افراد نے احمدیت قبول کرلی جو ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے لئے یہ بہت بڑی خبر اور خوشی تھی پہلی بار ایک گاؤں کی اکثر آبادی نے احمدیت قبول کی تھی۔ اگلے روز یہ خبر آگ کی طرح سارے گیمبیا میں پھیل گئی کہ فلاں گاؤں احمدیت میں داخل ہو گیا۔ اس پر مخالفت کا ایک طوفان ہر طرف کھڑا ہو گیا۔ اور مصرا کے احمدیوں کو بائیکاٹ کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ اگرچہ مصرا جانا بہت مشکل تھا لیکن خاکسار ہر ماہ ایک تکلیف دہ سفر کرکے وہاں جاتا اور وہاں کے احمدیوں کا حوصلہ بڑھاتا جو واقعی استقامت کا پہاڑ بن گئے تھے۔ کوئی مخالفت یا بائیکاٹ ان کا ایمان متزلزل نہ کر سکا۔ ان کی بعض زمینیں چھین لی گئیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کی فصل اور باغات کی آمد میں غیرمعمولی برکت عطا فرما دی۔
گاؤں کا نمبردار ہماری مخالفت میں پیش پیش تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اُس کے بیٹے نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
مصرا کے نواحمدیوں میں مکرم ابراہیم نیابلی صاحب بھی تھے جن کے سسرال ایک قریبی گاؤں نیابلی کُٹا میں رہتے تھے۔ ان لوگوں نے احمدیت کو پھیلنے سے روکنے کے لئے سکیم بنائی کہ احمدی مبلغ کو تبلیغ کے لئے بلایا جائے اور پھر سب مل کر اچانک حملہ کرکے اُسے قتل کردیں۔ چنانچہ انہوں نے ہمارے لوکل مربی الحاج ابراہیم جکنی صاحب (جو گیمبیا کے بڑے علماء میں سے تھے اور ذاتی تحقیق کے بعد احمدی ہوئے تھے) کو بلایا۔ وہ اُن دنوں مصرا میں تھے۔ چنانچہ دو تین احمدی دوستوں کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں نیابلی کُٹا کے باہر ایک جگہ بٹھاکر کہا گیا کہ خطاب کریں۔ دیگر لوگوں نے دائرہ بناکر اپنے اوزار نکالنے شروع کئے تاکہ حملہ کریں۔ یہ دیکھ کر احمدی دوست دائرہ توڑ کر باہر آنے لگے تاکہ کوئی کنٹرول کی صورت بنائی جائے۔ اس طرح چند لمحوں میں صرف الحاج ابراہیم جکنی ہی دائرہ میں رَہ گئے۔ انہوں نے بلند آواز میں کہا کہ تم میں سے جس کی جرأت ہے آئے اور مجھ پر وار کرے۔ اور اگر نہیں کرتے تو مَیں یہ جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے چل کر اُن لوگوں کی طرف بڑھے جنہوں نے دائرہ بنایا ہوا تھا کہ آپ کو قتل کر دیں۔ مگر جُوں جُوں وہ آگے بڑھتے گئے لوگ آگے سے ہٹ کر دوسری طرف کا رُخ کرتے رہے تا آنکہ آپ وہاں سے نکل کر باہر آگئے اور کسی کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ان کی لاٹھیاں اور تلواریں (کٹلس) اُن کے ہاتھوں میں ہی رَہ گئے۔
اسی طرح گاؤں مابلی کُوٹا میں الحاج ابراہیم جکنی صاحب ہی تبلیغ کے لئے گئے اور یہاں بھی بعض لوگوں پر بڑا نیک اثر قائم ہونے لگا۔ اس گائوں کے الکالی (نمبر دار) نے الحاج جکنی صاحب کو کہا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ اور آئندہ اس گاؤں کا رُخ نہ کرنا، مَیں تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا نہیں چاہتا۔ نمبردار کے غصہ سے سننے والوں پر خوف طاری تھا۔ مگر الحاج صاحب نے بڑے پُروقار انداز میں فرمایا کہ ’’اِنشاء اﷲ تمہاری آنکھیں مجھے آئندہ نہیں دیکھ سکیں گی‘‘۔ بالکل ایسا ہی ہوا کہ اُس الکالی کی بینائی چند دنوں میں خدا نے چھین لی اور وہ اندھا ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد وہاں کے مخالفین اکثر خاموشی اختیار کرتے اور اگر کوئی مخالفت کرتا بھی تو شریفانہ انداز میں مخالفت کرتا۔
بُوئے رام گاؤں ، جارج ٹائون سے قریباً 14میل دُور واقع تھا۔ وہاں کے ایک بڑے عالم اور امام الحاجی بوئے رام کو جب پیغام حق پہنچایا گیا تو وہ ایمان لے آئے۔ ان کے گھر والوں اور کئی طلباء نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
جارج ٹائون سے کوئی بیس میل کے فاصلہ پر بڑا گائوں پاچار نامی تھا۔ یہاں کا ایک بڑا امام تھا۔ ایک روز خاکسار نے مکرم اسحاق ساینگ صاحب کو ساتھ لیا اور بس کے ذریعہ اُن کے پاس پہنچ گیا۔ امام صاحب اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مَیں نے کتاب حَمَامَۃُ الْبُشْریٰ پیش کرنی چاہی تو انہوں نے غصہ سے انکار کردیا اور چلے جانے کو کہا۔ اُن کا ایک شاگرد ایک بڑا Cutlus (تلوار) اٹھا کر اُسے پتھر پر تیز کرنے لگا۔ اُسے دیکھ کر مکرم اسحاق صاحب نے خاکسار کو کہا کہ چلو یہاں سے چلیں۔ مَیں نے آہستگی سے انہیں کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال ٹھیک نہیں۔ مَیں نے کہا کہ مجھے تو کوئی خوف نہیں، زیادہ سے زیادہ مجھے مار ہی دیں گے۔ مَیں تو اسلام کو پہنچانے کے لئے ہزاروں میل سے یہاں آیا ہوں، اگر آپ کو خوف ہے تو آپ چلے جائیں۔ لیکن وہ اپنی گھبراہٹ کے باوجود میرے ساتھ کھڑے رہے۔
آخر ہم ناامید ہوکر واپس روانہ ہوئے۔ گائوں کے آخری حصہ میں ایک درخت کے نیچے ایک استاد بچوں کو عربی پڑھاتے ہوئے نظر آیا۔ خاکسار نے اُن سے عربی زبان میں گفتگو شروع کی تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ کتاب حَمَامَۃُ الْبُشْریٰ کا تحفہ انہوں نے خوشی سے قبول کیا۔ پھر بس کے ذریعہ ہم واپس جارج ٹاؤن چلے آئے۔
قریباً ایک ماہ گزرنے کے بعد ایک دن بازار میں دُور وہی اُستاد کھڑے نظر آئے لیکن مجھے دیکھ کر انہوں نے منہ دوسری طرف کر لیا اور چلنے لگے۔ خاکسار نے مزید تیز چل کر انہیں سلام کیا اور احوال پوچھا۔ وہ افسردہ سے تھے۔ کہنے لگے کہ مجھے گائوں والوں نے مدرسہ سے نکال دیا ہے۔ آپ نے مجھے جو کتاب تحفہ میں دی تھی لوگوں نے اسے دیکھ لیا تھا اور مجھ سے بڑے سخت ناراض ہوئے کہ تم نے احمدی مبلغ سے کتاب کیوں لی۔ ہم تمہیں ملازمت سے فارغ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس دن سے میں فارغ پھر رہا ہوں۔
گیمبیا پہنچنے کے آغاز میں ہی میری والدہ محترمہ مرحومہ کا خط آیا کہ بتائیں آپ کو کونسی سبزیاں اور کھانے کی چیزیںمل جاتی ہیں؟ جن دنوں خط ملا ان ایام میں تو کوئی سبزی مل نہیں رہی تھی اور پریشانی رہتی تھی کہ کیا کِیا جائے۔ لیکن خاکسار نے یہ سوچتے ہوئے کہ اپنی پریشانی کو ماں باپ کے پاس پہنچا کر انہیں پریشان نہیں کرنا چاہئے۔ اُنہیں ان تمام سبزیوں کے نام لکھ دیئے جو عموماً دارالحکومت میں سال کے دوران کسی وقت بھی میسر آسکتی تھیں اور یہ لکھ دیا کہ ان میں سے جس جس چیز کو دل چاہے لے لیتا ہوں اور اس طرح کھانے کا انتظام ہو جاتا ہے۔
خاکسار اس طرح پر کھانے کا انتظام کرتا رہا کہ زیادہ تر انحصار گوشت پر تھا اور سبزیاں میسر نہ تھیں۔ چند سال تو گزارہ ہوتا رہا مگر پھر خاکسار کے جسم میں Vitamin کی سخت کمی ہوگئی اور یہ معلوم نہ تھا کہ وٹامن کی کمی ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ خاکسار کے جسم میں آہستہ آہستہ گرمی اتنی شدید ہو گئی کہ چارپائی پر لیٹنا مشکل ہو گیا۔ جسم کے ساتھ پہنے ہوئے کپڑے بھی جب جسم سے لگتے تو بڑی تکلیف ہوتی۔ اس وقت جو ہمارے احمدی ڈاکٹرز گیمبیا میں کام کر رہے تھے ان سے بھی مشورے ہوئے۔ گورنمنٹ کے ڈاکٹر سے بھی مشورے کئے مگر انہیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔ بعض نے تجویز کیا کہ پانی میں نمک ڈال کر پیوں۔ چنانچہ اس سے واقعی مجھے فائدہ ہوا مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر گرمی آجاتی اور ایک دن میں اس طرح بار بار پانی میں نمک ڈال کر پینے سے بھی سخت تنگ آگیا۔ بعض دفعہ باربار نہاتا تھوڑی دیر ٹھنڈ رہتی مگر پھر وہی گرمی۔ اس صورتحال کے پیش نظر خاکسار ارادہ بنا رہا تھا کہ حضور کی خدمت میں لکھتا ہوں کہ مجھے افریقہ میں ایسی بیماری لاحق ہوگئی ہے کہ اب مزید یہاں رَہ نہیں سکتا مجھے واپس بلا لیا جائے۔ اسی فکر اور تذبذب کی حالت میں تھا کہ ایک دن کیپٹن ڈاکٹر طاہر احمد صاحب جو بصّے شہر میں احمدیہ میڈیکل کلینک کے انچارج تھے میرے پاس جارج ٹائون آئے اور انہوں نے مجھے ایک کافی بڑی بوتل دی جس میں بڑے سائز کے کیپسول تھے اور فرمایا کہ آپ نے ہر روز ایک کیپسول کھانے کے بعد کھا نا ہے اور ناغہ نہیں کرنا اور ساری بوتل ختم کرنی ہے۔ ان پر لکھا ہوا کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے ارشاد کے بموجب روزانہ ایک کیپسول کھا تا رہا۔ قریباً پندرہ دن کے بعد گرمی میں فرق پڑنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کو رپورٹ دی تو انہوں نے کہا کہ چھوڑنی نہیں، کھاتے رہیں۔ ایک مہینہ کے بعد ساری گرمی جسم سے جا چُکی تھی اور طبیعت بالکل ہشاش بشاش ہوگئی۔ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ڈاکٹر صاحب کا بھی جن کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ ملٹی وٹامن تھے اور آپ کو سبزیاں نہ کھانے کے باعث وٹامن کی شدید کمی ہوگئی تھی جس کا اظہار جسم میں گرمی کے طور پر ہوتا تھا۔
جارج ٹائون سے دریا کے دوسری جانب قریباً 12میل کے فاصلہ پر کُنٹاعور نامی قصبہ اپنے علاقہ کے لئے تجارتی مرکز تھا۔ خاکسار مہینہ میں ایک دفعہ بغرض تبلیغ یہاں جاتا۔ چنانچہ کونسل کے تین چار ملازمین یکے بعد دیگرے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ یہاں کے امام راتب صاحب فولانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن سے بھی ملا۔ وہ نرم طبیعت کے آدمی تھے تا ہم وہ احمدیت کا نام سُن کر کچھ تعجب کا اظہار کرنے ہی والے تھے کہ خاکسار نے انہیں کتاب حَمَامَۃُ الْبُشْریٰ بطور ہدیہ پیش کی۔ انہوں نے متذبذبانہ انداز میں کتاب لے لی۔ لیکن جب خاکسار واپسی کے لئے اڈّہ پر پہنچا تو ایک نوجوان آیا اور یہ کتاب مجھے دے کر کہا کہ امام صاحب نے فرمایا ہے یہ آپ کو دے دوں۔
کُنْٹِنْگ ایک مشہور گائوں جارج ٹائون سے 7 میل کے فاصلہ پر ہے۔ اس میں علماء و سلہ قبیلہ کی گدی ہے اور علماء تیار کرنے کا مدرسہ بھی۔ ان کے بہت بڑے عالم جو سعودیہ میں بھی کچھ عرصہ پڑھ کر واپس آئے اور سانکُولی کُنڈا گائوں (جو اپنی چیفڈم کا صدر مقام ہے وہاں) کی امامت سنبھالی اور دینی تعلیم کے لئے وہاں مدرسہ قائم کیا۔ ایک احمدی کے ذریعہ اُن سے تبلیغی گفتگو بھی ہوئی۔ انہوں نے اس احمدی کو عربی کی ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی کہ اس میں احمدیت کا بطلان ہے۔ اس کتاب میں جماعت کے خلاف تمام اعتراضات نہایت بودے اور گُستاخانہ انداز اور بازاری زبان میں تھے۔ اسے پڑھتے ہوئے سخت گھِن آتی ہے مگر پڑھنی پڑی۔ سارے یا متعدد حصہ کے جوابات اردو میں پاکٹ بُک میں چھپے ہوئے تھے۔ خاکسار نے اپنے امیر جماعت مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کو پڑھنے کے لئے بھجوائی اور لکھا کہ ہماری طرف سے عربی زبان میں اس کا جواب دینا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مرکز میں بھی لکھا اور محترم منیر الحصنی صاحب (آف شام) کو اس کتاب کا کوئی نسخہ خرید کر بھجوانے کے لئے کہا گیا۔ لیکن چونکہ یہ کتاب مہیا نہیں تھی اس لئے مَیں نے رات دن لگاکر تین چار صد صفحات کی ضخیم کتاب کو لفظ بلفظ نقل کیا اور منیرالحصنی صاحب (آف شام) کو بھجوایا تاکہ وہ اس کا جواب لکھ سکیں۔ مکرم امیر صاحب نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اختتام کتاب پر دو آیاتِ قرآنی تحریر کردیں ۔ حقیقت یہی تھی کہ اس کتاب کا مکمل جواب اُن دو آیات میں آگیا تھا۔
الحاج ابو بکر جالو صاحب فولانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سارے گیمبیا میں تیجانی فرقہ والے انہیں ولی اللہ کہتے تھے۔ خاکسار اپنے ایک نو احمدی دوست کے ہمراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور چند عربی کتب پیش کیں۔ انہوں نے انکار کردیا اور اصرار پر بھی کتب قبول نہ کیں۔ کچھ گفتگو کے بعد مجھ کھانے وغیرہ کے لئے کچھ رقم دی۔ مَیں نے کہا کہ اگر خدمت دین کے لئے ہے تو رسید بھجوادوں گا۔ انہوں نے کہا ہرگز نہیں، یہ ذاتی ہے۔ خاکسار نے کہا کہ آپ نے میری طرف سے دئیے گئے تحفہ کتب کو قبول نہیں کیا اس لئے خاکسار بھی یہ رقم آپ سے نہیں لے سکتا۔ چنانچہ اس پر گفتگو ختم ہوگئی اور ہم واپس چلے آئے۔
آپ رقمطراز ہیں کہ جب خاکسار کو دوبارہ گیمبیا بھجوایا گیا اور باتھرسٹ (دارالحکومت) سے جارج ٹائون کو روانہ ہوا تو خاکسارکے پاس لوہے کی ایک چارپائی اور کچھ ذاتی سامان تھا۔ 120 میل کا سفر تو آرام سے گزر گیا اور ہم سومہ ٹائون پہنچ گئے۔ یہاں سے آگے سڑک خراب تھی اور ٹرانسپورٹ بھی بمشکل ملتی تھی۔ مغرب کے بعد اندھیرا ہونے لگا۔ خاکسار اکیلا غیر ملکی اپنے سامان کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑا تھا کہ ایک لینڈ رُوور کھڑی ہوئی اور کنڈکٹر نے پاکلیبا جانے کی آواز لگائی۔ یہ جگہ جارج ٹائون کی جانب قریباً 24میل دُور تھی جبکہ جارج ٹائون وہاں سے 70میل کے فاصلہ پر تھا۔ خاکسار اس پر سوار ہو گیا کہ چلو مزید کچھ حصہ سفر کٹ جائے گا۔ سامان انہوں نے چھت کے اوپر باندھ لیا اور ہم عشاء کے بعد پاکلیبا پہنچ گئے۔ گھُپ اندھیرے میں سڑک کے کنارے کھڑا ہو کر آگے جانے والی کسی ٹرانسپورٹ کی انتظار شروع کی۔ اچانک ایک پیٹرول ٹینکر آکر رُکا۔ وہ بصّے جارہا تھا جو جارج ٹائون سے پچاس میل آگے واقع ہے۔ اُن سے لے جانے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ وہ مجھے دریا کے کنارہ تک لے جاسکتے ہیں۔ خاکسار نے کرایہ ادا کیا تو انہوں نے میری لوہے کی چارپائی ٹینک کے ساتھ باندھ دی اور ہم روانہ ہوگئے۔ قریباً 20 میل کا سفر طے کیا تھا کہ عین جنگل میں ٹینکر خراب ہوگیا۔ ایک گھنٹہ نقص ٹھیک کرنے میں لگا اور رات 4بجے مَیں دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ میرا سامان انہوں نے اُتار دیا۔ خاکسار اپنے سامان کے پاس جنگل میں اکیلا کھڑا تھا۔ آبادی ایک میل دُور تھی۔ جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ تھا۔ لیکن دریا ایک فیری کے ذریعہ پار کرنا ہوتا تھا اور فیری صبح نو بجے کام شروع کرتی تھی۔ سامان کے باعث خاکسار پیدل کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ اردگرد جنگل ہونے کے باعث بڑا خوفناک نظارہ تھا۔ مگر رات کے چار بجے کہیںاور جایا نہیں جاسکتاتھا چنانچہ خداتعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے خاکسار نے اپنی چارپائی وہیں سڑک کے کنارے بچھائی اور اپنے صندوق کا سرہانا بناکر لیٹ گیااور یہ سوچتے ہوئے سو گیا کہ جنگل سے کوئی جانور یا کوئی چور وغیرہ اگر آہی گیا تو دُور سے خاکسار کو ایسے لیٹے ہوئے پائے گا تو حملہ کرنے سے گھبرائے گا کہ جو شخص اس طرح اکیلا یہاں پڑا ہوا ہے اس میں کوئی بات ہے اس کے قریب نہیں جانا چاہئے۔ پھر صبح پہلی فیری پردریا پار کیا اور لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعہ مشن ہائوس پہنچ گیا۔ ان دنوں مکرم مرزا محمد اقبال صاحب وہاں پر متعین تھے۔ وہ بیچارے سخت پریشان ہوئے کہ یہ سفر تو دن کے وقت بھی بہت مشکل ہوتا ہے اور مَیں صبح سویرے کیسے پہنچ گیا۔ خیر ہم نے بخیریت پہنچنے پر خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا۔
خاکسار کا جارج ٹائون میں دوسرا دَور شروع ہوا تو تبلیغ و تربیت کا کام پوری سنجیدگی سے شروع کیا اور اس مقصد کے لئے زمین کا حصول بھی ٹارگٹ تھا۔ چنانچہ خاکسار نے اس ضمن میں دو اطراف میں کام شروع کیا۔ ایک تو گورنمنٹ سے Leaseپر دو ایکڑ کا پلاٹ آبادی کے کنارے پر لینے کی درخواست دی اور دوسری طرف قصبہ کے اندر ایک پلاٹ کے حصول کی کوشش شروع کی۔ لوگوں میں جماعت کے خلاف بہت ردّ عمل تھا اور یہ لوگ ابھی تک اسی کوشش میں تھے کہ احمدی مبلغ کو یہاں سے نکال باہر کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں پلاٹ مل گئے جن پر بعد میں ایک خوبصورت مشن بھی تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔
تیسرے دَور میں جب خاکسار کو گیمبیا بھجوایا گیا تو ساتھ میری بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی تھی۔ ہم جارج ٹائون پہنچے۔ ہماری زمین پر چار کمرے مستطیل شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے مگر اکیلے اکیلے تعمیرشدہ تھے۔ کمرے کی دیواریں کِرنٹنگ کی بنی ہوئی تھیں۔ کرنٹنگ ایک سخت قسم کا سر کنڈا ہے جس سے ہمارے ملک میں ٹوکرے بنائے جاتے ہیں۔ ان کی دیوار کھڑی کر کے اس پر سیمنٹ یا چکنی مٹی سے لیپ کر پلستر کر دیا جاتا ہے۔ چھت ٹیِن کی بنی ہوئی تھی۔ اسی طرح دو دروازے بھی ٹین سے بنے ہوئے تھے۔ سامنے ایک لمبا برآمدہ تھا اور اس عمارت سے 20فٹ پیچھے اسی قسم کا ایک غسل خانہ اور ٹائلٹ بنایا گیا تھا۔ ایک کمرہ رہائش کیلئے، ایک کچن، ایک بطور مسجد اور ایک مہمانوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ سانپ وغیرہ بھی بہت ہوتے تھے۔ احاطہ کی چار دیواری بھی کرنٹنگ کی بنی ہوئی تھی۔ مکان کی چھت زیادہ بلند نہیں تھی اور گرمی انتہا کی پڑتی تھی۔ہر طرف سیاہ فام لوگوں کا سامنا، زبان بھی نہیں آتی تھی ان حالات میں بیوی بچوں کو سخت خوف اور پریشانی لاحق ہوگئی اور کچھ مہینے گزارنے کے بعد میری اہلیہ صاحبہ نے خاکسار کو بتائے بغیر میری والدہ صاحبہ کو اپنی پریشانی کا خط لکھ کر اﷲ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہا کہ انہیں کسی طرح واپس پاکستان بُلالیں۔ ایسا خط ملنے پر والدہ صاحبہ کو بڑی پریشانی ہوئی لیکن انہوں نے اہلیہ کو وقف کی رُوح کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر مشکل کو خدا کی خاطر برداشت کرنے کی تلقین کی اور حوصلہ دلایا اور بیحد دعائیں کیں۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ان کا دل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیمبیا میں لگ گیا۔ بچے سکول جانے لگے ان کے کچھ دوست بن گئے اور اس طرح حالات سے ان کی صلح ہوگئی اور زندگی نارمل ہوگئی۔ ایک سال انہی حالات میں جارج ٹائون رہے۔ پھر صحن میں ایک پختہ عمارت تعمیر کی گئی۔ اس کے افتتاح پر پہلی دفعہ مخالفین بھی کسی جماعتی فنکشن میں شامل ہوئے اور جارج ٹائون کی فضا میں کافی تبدیلی آئی۔ جنوری 1978ء میں ہمیں بچی کی پیدائش کے لئے باتھر سٹ آنا پڑا کیونکہ جارج ٹائون میں Delivery کی سہولیات میسر نہ تھیں۔
فروری 1978ء میں خاکسار کو امیر گیمبیا مقرر کیا گیا۔ اسی وقت جارج ٹاؤن میں مسجد کی تعمیر کی تیاری بھی شروع کردی گئی۔ اس کی بنیاد رکھتے وقت خاکسار نے یہاں کے مخالفین کو بھی دعوت دی۔ جن کی اکثریت آبھی گئی اور ان سے مسجد کی بنیاد میں اینٹیں رکھوائی گئیں ۔ مخالف علماء کے اینٹیں رکھنے کی خبر سے ہماری ظاہری مخالفت بھی بند ہوگئی۔ وہاں یہ پہلی مسجد تھی جس پر مینار تعمیر کروایا گیا تھا اور اس پر روشنی کا انتظام بھی کیا گیا۔ اس مسجد کے افتتاح میں بھی بڑے بڑے تمام غیراحمدی مخالفین بھی شامل ہوئے۔ اور وہ جگہ جہاں چند سال پہلے تک مقامی لوگ احمدی مبلغ کے خون کے پیاسے تھے وہاں خیرخواہ پیدا ہونے لگے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں