ہمارا کیا ہمیں ہر حال میں جاں سے گزرنا ہے – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اپریل 2012ء میں مکرم جمیل الرحمن صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

ہمارا کیا ہمیں ہر حال میں جاں سے گزرنا ہے
سنور جائے نصیب عشق جیسے بھی سنورنا ہے
ہوا میں کاٹ ہو خنجر کی یا لہریں ہوں طوفانی
چناب اس بار بھی کچے گھڑے پر پار کرنا ہے

رواجوں اور مزاجوں کو بدل دیں تو برا کیا ہے
گرہ میں کیا ہے دنیا کی ، یہ شور ناروا کیا ہے
خبر اس کو اگر اب تک نہیں موسم بدلنے کی
زمانہ کم نظر خود ہے گلستاں کی خطا کیا ہے
وہ دن آئے کہ پھولوں کو قدم شاخوں پہ دھرنا ہے
چناب اس بار بھی کچے گھڑے پر پار کرنا ہے

رفیقو ، حوصلے ہر حال میں رکھنا جواں اپنے
نہیں پہچانتے اہلِ وفا کو مہرباں اپنے
کہاں تک بجلیاں کوندیں گی غم کی دھوپ چمکے گی
نگہباں ہے خدا اپنا ، محمدؐ سارباں اپنے
ہمیں منزل سے پہلے راستے میں کب ٹھہرنا ہے
چناب اس بار بھی کچے گھڑے پر پار کرنا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں