ہے زخم کی یا زخم کے مرہم کی کوئی بات – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 دسمبر 2010ء میں مکرم جنرل محمودالحسن صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس نظم سے انتخاب پیش ہے:

ہے زخم کی یا زخم کے مرہم کی کوئی بات
کیا اَور بھی ہے قصّۂ آدم کی کوئی بات
چھایا ہے ہر اک سمت گھٹا ٹوپ اندھیرا
پھر چھیڑ کسی نورِ مجسّم کی کوئی بات
وہ نور کہ ہے باعثِ تخلیقِ دو عالم
ہاں ہاں اُسی سرکارِ دو عالمؐ کی کوئی بات
لرزاں دل صد چاک میں اُمید بہت ہے
سن کر گل صد برگ سے شبنم کی کوئی بات

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں