یاد محمودؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍فروری 2001ء کی زینت محترم مرزا عبدالحق صاحب کے ایک مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کی دلداریوں اور دلنوازیوں کی داستان بیان کی گئی ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں 1900ء میں پیدا ہوا۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ سے میری پہلی ملاقات 1913ء میں ہوئی جب حضورؓ شملہ تشریف لائے۔ مَیں وہاں سکول میں پڑھتا تھا۔ میرے بڑے بھائی مولوی عبدالرحمن صاحب نے حضورؓ کو دعوت پر بھی بلایا جن کے پاس مَیں 1903ء سے مقیم تھا جب میرے والد صاحب کی وفات ہوگئی تھی۔
1914ء میں بدقسمتی سے میرے بھائی غیرمبایعین میں شامل ہوگئے اور 1917ء میں جب مجھے مزید تعلیم کے لئے لاہور کے لئے بھیجا گیا تو انہوں نے مجھے مولوی صدرالدین صاحب کے پاس بھجوایا۔ یہاں قریباً ایک ماہ رہنے کے بعد مجھے احمدیہ ہوسٹل کا علم ہوگیا اور مَیں وہاں منتقل ہوگیا۔ وہاں پاکیزہ ماحول میسر آیا۔ جب مَیں تعطیلات میں شملہ گیا تو بھائی صاحب سے کھلم کھلا اختلاف ہوگیا۔ دلائل سے مایوس ہوکر انہوں نے مجھ پر دباؤ ڈالنا چاہا لیکن مَیں نے اسے قبول نہ کیا۔ پھر 1952ء تک جب اُن کی وفات ہوئی، انہوں نے کوئی تلخی پیدا نہ کی۔
حضرت مصلح موعودؓ کو جب میری اپنے بھائی سے اختلاف کی اطلاع ملی تو حضورؓ نے مجھے اُتنے ہی وظیفہ کی پیشکش کی جو رقم مجھے بھائی سے ملتی تھی۔ مَیں نے یہ وظیفہ نہیں لیا لیکن مجھے یہ احساس ہوگیا کہ اپنے حقیقی بھائی سے بہت زیادہ شفقت رکھنے والا انسان موجود ہے۔
1921ء میں مَیں B.A. کرکے شملہ میں ملازم ہوگیا۔ پھر ملازمت ترک کرکے لاء کالج میں داخل ہوگیا۔ پڑھائی کی طرف توجہ کم اور دینی کاموں کی طرف زیادہ ہونے کے باوجود مَیں پہلے سال خدا کے فضل سے پاس ہوگیا لیکن دوسرے سال میں رہ گیا تو پڑھائی چھوڑ کر دوبارہ ہوم ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرلی۔ یہ محکمہ سردیوں میں دہلی چلا جاتا تھا اور دہلی جاکر مجھ سے قادیان کی دُوری برداشت نہ ہوتی اس لئے استعفیٰ دے کر 25ء میں قادیان چلا آیا اور احمدیہ سکول میں انگریزی کا ٹیچر ہوگیا۔ حضورؓ اکثر فرماتے کہ LLB کے لئے داخلہ بھیج دو لیکن مَیں ٹال مٹول کرتا تاکہ LLB کرنے کے بعد مجھے قادیان سے باہر جانے کا حکم نہ ہوجائے۔ ایک سفر سے واپسی پر جب حضورؓ نے پھر اس بارہ میں پوچھا تو مَیں نے داخلہ بھجوادیا اور اللہ تعالیٰ نے کامیاب فرمادیا۔ لیکن وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا کہ حضورؓ نے گورداسپور میں پریکٹس شروع کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اسی دوران حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے میرے بارہ میں ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر حضورؓ نے یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے دنیاوی عزت دے گا اور میرے ذریعہ حکام کو احمدیت کی طرف متوجہ کرے گا۔
گورداسپور میں میری پریکٹس تقسیم ملک تک جاری رہی۔ اس عرصہ میں میرا ہر ویک اینڈ قادیان میں گزرتا۔ قادیان تک ریل گاڑی چلنے سے قبل (1928ء تک) بٹالہ سے قادیان تک اٹھارہ میل کا سفر سائیکل کے ذریعہ طے کیا کرتا۔ حضورؓ کی کشش ایسی تھی جو بیان نہیں کی جاسکتی۔
1928ء میں حضورؓ نے درس القرآن ارشاد فرمانے کا اعلان فرمایا جو ایک ماہ کے لئے جاری رہنا تھا تو میری درخواست پر دو مرتبہ اُس کی تاریخوں میں تبدیلی فرمائی۔
1929ء میں حضورؓ کشمیر تشریف لے گئے تو مَیں بھی وہیں پہنچ گیا۔ جب حضورؓ کو ملنے حاضر ہوا تو حضورؓ کسی مصروفیت کی بناء پر میری طرف توجہ نہ کرسکے جو میرے لئے عجیب بات تھی چنانچہ پھر میں تین دن کے بعد حاضر ہوا ۔ حضورؓ نے دوسرے کمرہ میں میری آواز سن کر مجھے بلالیا اور پوچھا کہ دو دن کیوں نہیں آئے؟۔ یہ سُن کر میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ پھر حضورؓ نے مجھے اور محترم خلیفہ نوردین صاحب جمونی کو دعوت پر بلایا۔ ہم وہاں پہنچے تو حضورؓ نے ہمیں اپنے کمرہ میں ہی بلالیا اور اپنے ساتھ قالین پر بیٹھنے کا حکم دیا۔
حضورؓ کے ہمراہ مجھے مالیرکوٹلہ کا سفر کرنے کا موقع بھی ملا۔ مَیں نے گورداسپور سے روانہ ہوکر راستہ میں ایک جگہ قافلہ میں شامل ہونا تھا لیکن مَیں پروگرام کے مطابق وقت پر نہ چل سکا اور حضورؓ کو کئی گھنٹے راستہ میں رُک کر میرا انتظار کرنا پڑا۔ میرے پہنچنے پر حضورؓ نے صرف اتنا فرمایا کہ ہم نے اتنے گھنٹے آپ کا انتظار کیا ہے۔ اور کسی ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا۔ … واپسی پر مجھے پروگرام کے مطابق ریل گاڑی پر گورداسپور آنا تھا لیکن حضورؓ نے لدھیانہ تک اپنے ہمراہ کار میں چلنے کا ارشاد فرمایا جہاں سے مَیں گورداسپور جاسکتا تھا۔ پھر لدھیانہ ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر حضورؓ نے میرے لئے ٹکٹ منگوایا اور پھر انتظار فرماتے رہے اور گاڑی روانہ ہونے سے پانچ منٹ پہلے مجھے رخصت کیا۔ اس لطف و کرم کی یادیں مجھے رُلادیتی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں