کیپٹن مانٹیگو ولیم ڈگلس

کیپٹن مانٹیگو ولیم ڈگلس، ایک ایسے بیدار مغز، منصف مزاج اور حق پسند شخص کا نام ہے جس کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’… جب تک دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں اور کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسی ویسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا اور یہ اس کی خوشقسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لئے اسی کو چنا …‘‘۔
کیپٹن ڈگلس ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے جنہوں نے 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ پر عیسائیوں، ہندوؤں اور مولویوں کی طرف سے دائرشدہ مشترکہ مقدمہ اقدام قتل کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ آپ کے حالات مکرم جناب عاصم جلالی کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ 1997ء میں شاملِ اشاعت ہیں۔
کیپٹن ڈگلس 1864ء میں پیدا ہوئے۔حضرت مسیح موعودؑ نے متعدد مواقع پر آپ کو دانشمند، منصف مزاج، حق پسند اور خدا ترس انسان کے طور پر یاد فرمایا اور آپ کو مسیح محمدی کا پیلاطوس ہونے کا خطاب عطا کیا جو بلاشبہ پیلاطوس اول کے مقابلہ پر اعلیٰ درجہ کا دلیر، منصف اور صاحب بصیرت حاکم ثابت ہوا۔ حضورؑ نے اپنے خلاف مقدمہ کی حضرت مسیحؑ کے خلاف چلائے جانے والے مقدمے کے ساتھ سات مماثلتیں بھی بیان فرمائیں۔
حضرت مسیح موعودؑ پر لگائے جانے والے الزام کے لئے عدالت ڈاک بنگلہ گورداسپور میں لگائی گئی جہاں کیپٹن ڈگلس کا قیام تھا۔ جب حضورؑ وہاں پہنچے تو چپڑاسی نے آکر عرض کیا کہ صاحب آپ کو سلام دیتے ہیں اور آپ کے لئے کرسی رکھی ہوئی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس بارے میں کیپٹن ڈگلس نے پہلے سے حکم دیا ہوا تھا۔
عدالت میں پہلے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی شہادت ہوئی جن کی سادہ ہیئت اور صاف ستھرے انداز بیان سے خود کیپٹن ڈگلس بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ خدا کی قسم اگر یہ شخص کہے کہ میں مسیح موعود ہوں تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس پر پورا پورا غور کرنے کے لئے تیار ہوں گا۔ چنانچہ جب حضرت مولوی صاحب نے عدالت سے دریافت کیا کہ کیا مجھے باہر جانے کی اجازت ہے یا عدالت میں ہی ٹھہروں؟ تو ڈگلس صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب آپ کو اجازت ہے جہاں آپ کا جی چاہے چلے جائیں۔
23؍اگست 1897ء کی دوپہر کو بارش ہورہی تھی جب حضرت اقدس کو کیپٹن ڈگلس نے بلاکر باعزت بری کیا اور جوابی مقدمہ کی اجازت دی جس پر آپؑ نے فرمایا ’میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے‘۔ کیپٹن ڈگلس نے یہ بھی اظہار کیا کہ اگرچہ یہ مقدمہ صرف عیسائیوں کی طرف سے تھا اور مجھ کو ایک بڑے پادری کا خط بھی آیا تھا مگر مجھ سے یہ بدذاتی نہیں ہوسکتی۔ …کیپٹن ڈگلس نے بعد میں بیان کیا کہ وہ اس مقدمہ میں بہت سرگردان تھے اور جس طرف وہ نکلا کرتے انہیں مرزا صاحب نظر آتے تھے جو کہتے تھے کہ انصاف تمہاری قوم کا خاصہ ہے اس کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔
کیپٹن ڈگلس بعد میں ترقی کرتے کرتے میجر اور پھر کرنل بنے اور ریٹائرڈ ہونے سے قبل جزائر انڈیمان کی چیف کمشنری کے معزز عہدہ تک پہنچے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جب پہلے دورہ یورپ پر تشریف لے گئے تو 21؍ستمبر 1924ء کوکرنل ڈگلس سے بھی ملاقات کی۔ کرنل ڈگلس نے حضورؓ سے کہا کہ میں آپؓ کے والد شریف کو دوست رکھتا ہوں۔… 28؍ستمبر کو حضورؓ نے بعض معززین کو چائے پر بلایا جن میں کرنل ڈگلس بھی شامل تھے۔ اس موقع پر حضورؓ کے ساتھ ان کا ایک فوٹو بھی لیا گیا۔
مکرم مولوی مبارک احمد صاحب بنگالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے 28؍جولائی 1922ء کو کرنل ڈگلس سے ملاقات کی جس کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’میں غلام احمد کو جانتا تھا اور میرا یقین تھا کہ وہ نیک بخت اور دیانتدار آدمی ہیں اور یہ کہ وہ اس بات کی تعلیم دیتے ہیں جس کا انہیں خود یقین ہے۔ لیکن مجھے ان کی موت کی پیشگوئیاں پسند نہ تھیں کیونکہ وہ بڑی مشکلات پیدا کر دیتی تھیں‘‘۔
ریٹائرمنٹ کے بعد مسٹر ڈگلس فن مصوری سے دل بہلاتے رہے اور جماعت سے ان کا رابطہ رہا۔ 30؍جولائی 1939ء کو مسجد فضل لندن کے احاطہ میں یوم تبلیغ کے سلسلہ میں ایک اجلاس بھی ان کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بھی کہا کہ ’… احمدیت کا مقصد اسلام کو موجودہ زمانہ کی زندگی کے مطابق پیش کرنا ہے۔ میں نے جب 1897ء میں بانی جماعت احمدیہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی تھی اس وقت جماعت کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی لیکن آج دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ پچاس سال کے عرصہ میں یہ نہایت شاندار کامیابی ہے…‘۔
جب بھی کوئی احمدی مسٹر ڈگلس سے ملنے جاتا تو آپ اس تاریخی مقدمے کی تفصیلات ایک خاص کیفیت میں بیان کرتے اور ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کا نہایت احترام سے ذکر کرتے اور کہتے کہ میں نے تو مرزا غلام احمد صاحب کو دیکھتے ہی یقین کرلیا تھا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ نے جب آپ سے ملاقات کی تو آپ نے کہا ’میرا پختہ ایمان ہے کہ محمد رسول اللہﷺ سچے نبی تھے اور میرا یہ بھی ایمان ہے کہ مرزا غلام احمد نبی ہیں‘۔ بعد ازاں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران مسٹر ڈگلس نے حضرت چودھری صاحبؓ کا نہایت محبت سے ذکر کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ چودھری صاحب کے قیمتی وجود کی قدر کرنی چاہئے۔
کرنل ولیم ڈگلس نے 25؍فروری 1957ء کو لندن میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں