جلسہ سالانہ قادیان 2006ء سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایم ٹی اے کے ذریعے براہ راست اختتامی خطاب

ہر مخالفت، ہر آندھی اور ہر طوفان جو آپ کو ختم کرنے کے لئے اُٹھتا ہے،اُٹھ رہا ہے اور اُٹھے گا، یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے مزید قریب کرنے والا بن جانا چاہئے۔
یاد رکھیں مظلوم کی آہ عرش کے پائے ہلا دیتی ہے۔ ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے اور قانون کو ہاتھ میں لے کر نہیں لیتے۔ لیکن اللہ کے حضور جھکتے ہیں جو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے اور اپنے وعدے پورے کرنے والا ہے۔
ہر احمدی اس یقین سے پُر ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ سچا ہے اور فتح انشاء اللہ ہمارا مقدر ہے۔ اور گزشتہ سو سال سے زائد کی جماعت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت کا ہر قدم ترقی کی نئی منازل کی طرف اُٹھ رہا ہے۔
مَیں تو اس یقین پر قائم ہوں کہ صرف احمدی کا خون ہی رنگ نہیں لاتا بلکہ احمدی کو پہنچنے والی معمولی تکلیف جس کا بعض دفعہ احساس بھی نہیں ہوتا، اس کو بھی اللہ تعالیٰ بغیر نوازے نہیں چھوڑتا۔
انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں جب تمام مخالفتیں ہوا میں اُڑ جائیں گی اور مخالفتیں کرنے والے آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے۔
اگر ہم نے احمدیت کے غلبہ کے دن اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھنے ہیں۔ تو ہر بچے، بوڑھے، عورت، مرد، نو احمدی اور پرانے احمدی کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہو گی۔
قادیان دارالامان (ا نڈیا) میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ سے 28دسمبر 2006ء کو
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاجرمنی سے براہ راست اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ آج قادیان کا یعنی ہندوستان کی جماعتوں کا 115 واں جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اس جلسے کے منعقد کرنے کا مقصد جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اور عموماً جلسہ کے آغاز میں ہی افتتاحی خطاب میں جو بھی صدرِ اجلاس ہو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے کیا مقصد بیان فرمائے ہیں۔ اس کا خلاصہ مَیں دوبارہ پیش کر دیتا ہوں۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ان جلسوں کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑو، اُس کے حقوق ادا کرو، اُس کے احکامات پر عمل کرو اور اسی طرح آپس میں محبت پیار اور بھائی چارے کی فضا بھی پیدا کرو جو مثالی ہو اور پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اس فضا کو اپنے ماحول میں اس طرح پیدا کرو کہ ہمیشہ یہ جاری رہے۔ (ماخوذ از شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد چہارم صفحہ 394)
اس معیار کو قائم کرنے کے لئے جلسہ کے پروگراموں میں مختلف علمی اور تربیتی اور دینی موضوعات پر مختلف علماء کی تقاریر ہوتی ہیں جن کو اگر ہر سننے والا غور سے سنے اور پھر اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے ہوئے ان باتوں کو اپنے اوپر لاگو کرے تو ہر احمدی جو جلسہ میں شامل ہوتا ہے، اس خاص ماحول کی وجہ سے اپنی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے والا بن جاتا ہے۔ اور ہر سال شامل ہونے والوں کے تو معیارِ روحانیت بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور بلند ہونے چاہئیں۔ تبھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان جلسوں میں شمولیت کو خاص اہمیت دی تھی اور اس کی خاص تلقین فرمائی تھی۔ اس لئے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جاری کردہ اس جلسہ سالانہ کی تتبع میں دنیا میں جن جن ممالک میں جماعت قائم ہے وہاںبھی یہ جلسے روحانی اور علمی معیاروں کو بلند کرنے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں ۔لیکن قادیان کے جلسہ کی تو ایک خاص اہمیت ہے۔ یہ تو اُس بستی میں منعقد ہونے والا جلسہ ہے جس سے امام الزمان اور مسیح دوران کی یادیں وابستہ ہیں۔ جہاں کا ایک خاص روحانی ماحول ہے جو وہاں ہر جانے والا محسوس کرتا ہے۔ پس یہاں یعنی قادیان کے جلسہ میں شمولیت کی وجہ سے پاک تبدیلیاں بھی دوسرے جلسوںسے بہت بڑھ کر روحانیت میں انقلاب برپا کرنے والی ہونی چاہئیں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ سب شامل ہونے والوں کو اس کی توفیق مل رہی ہو گی۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی نومبائعین کی ایک خاصی تعداد اس جلسہ میں شامل ہوئی ہے۔ ان کے مطابق تقریباً گیارہ ہزار کے قریب نو مبائعین جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی پاکستان سے ایک بڑی تعداد، تقریباً ساڑھے چار ہزار احمدی حکومتِ ہند کے ویزے دینے کی وجہ سے شامل ہوئے۔ حکومتِ ہند نے اس دفعہ ویزے دینے میں بڑا فراخدلانہ اظہار کیاہے۔ جس کے لئے ہم اس حکومت کے شکر گزار بھی ہیں کہ انہوںنے اُن لوگوں کو جو مجبور ہیں، جلسے منعقد نہیں کر سکتے، اس جلسہ کے روحانی ماحول میں شامل ہونے اور اس سے استفادہ کرنے کی اجازت دی۔ ان شامل ہونے والوں میں یعنی نو مبائعین اور پاکستان سے آنے والوں میں بہت بڑی تعداد ایسے احمدیوں کی ہے جن کو پہلی بار جلسہ میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ یا قادیان کے جلسہ میں پاکستانی احمدیوں کو پہلی بار شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ یقینا اس ماحول نے آپ کے دلوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا کی ہو گی۔ ایک کیف انگیز روحانی حالت ہوگی جس کو ہر محسوس کرنے والا محسوس تو کر سکتا ہے، بیان نہیں کر سکتا۔ بہر حال یہ کیفیت جو کم و بیش ہر ایک پر طاری ہو گی جو دل سے پھوٹتی ہے اور جس پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا لیکن اللہ کا قرب پانے کی خواہش رکھنے والا ایک بندہ جب اس کیفیت کو اللہ کے حضور جھکتے ہوئے دعاؤں اور استغفار سے سجاتا ہے تو اس کی حالت ایک اور ہی دنیا میں لے جانے والی ہو جاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میں سے اکثر نے دعاؤں کی حالت میں اپنے دلوں کی یہ کیفیت دیکھی ہو گی۔ لیکن اگر یہ کیفیت عارضی ہے اور اس ماحول سے دور جانے کے بعد اس نے بالکل مخالف سمت میں موڑ کاٹ لیا ہے، ایسا یو ٹرن (U-Turn) لیا ہے جو دوبارہ پہلی حالت میں لے جانے والا ہے تو اس وقتی جوش کا کوئی فائدہ نہیں۔ کوشش کریں کہ آپ نے اس علمی اور روحانی ماحول سے اب جو استفادہ کیا ہے، اُس کو زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ آپ کی یہ پاک تبدیلیاں ہی ہیں جنہوں نے آپ کی زندگیوں میں آپ کو احمدیت کی ترقی کے نمونے دکھانے ہیں۔انشاء اللہ۔ ہر مخالفت، ہر آندھی اور ہر طوفان جو آپ کو ختم کرنے کے لئے اُٹھتا ہے،اُٹھ رہا ہے اور اُٹھے گا، یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے مزید قریب کرنے والا بن جانا چاہئے۔ الٰہی جماعتوں کو مخالفتوں کے سمندروں میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے جب آپ دعائیں کرتے ہوئے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے بغیر گھبرائے یہ سفر جاری رکھیں گے تو ہر منزل پر پہنچ کر آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے عظیم الشان نظارے نظر آئیں گے اور راستے کی کوئی روک آپ کی ترقی کی رفتار کو کم نہیں کر سکے گی۔
دیکھیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے قربانیوں کے کتنے عظیم نمونے دکھائے ۔کیا کیا ظلم تھے جو اُن پر روا نہیں رکھے گئے۔ اُس وقت مکّہ میں حکومت تو کفارِ مکّہ کی تھی اور اُن کے دلوں میں جو آیا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اور خاص طور پر غریبوں کے ساتھ، غلاموں کے ساتھ کیاکیونکہ ہمیشہ نیکی کو قبول کرنے والے غریب اور مسکین لوگ ہوتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
(سنن ابی داؤد کتاب العلم باب فی القصص حدیث نمبر 3666)
اس لئے کہ وہ اپنی غربت، بیچارگی اور مسکینی کے باوجود اَحَد، اَحَد کا نعرہ لگاتے ہوئے وحدہٗ لا شریک خدا کے حکموں پر عمل کرتے اور اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ آج ہندوستان میں بھی احمدیت قبول کرنے والے غریب لوگ ہی ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن میں خدا کا خوف ہے۔ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے حکم کے آگے کسی مولوی، کسی وڈیرے، کسی افسر، کسی مکھیے یا کسی مذہبی لیڈر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اسی وجہ سے آپ پر جو ایسے غریب علاقوں کے نو مبائعین ہیں ظلم بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں کم از کم قانون تو آپ کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی افسر یا کوئی بڑا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے تو قانون کا دروازہ کھلا ہے۔ کئی شریف افسران ہیں جو حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے اِکّا دُکّا کے علاوہ آپ پر ہونے والے ظلم انتہائی کیفیت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا اسلام کے ابتدائی زمانے میں ظلموں کی انتہا یہ تھی کہ گرمی میں گرم ریت پر لٹا کر اوپر بڑے بڑے گرم پتھر رکھ دئیے جاتے تھے۔
(شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد اول صفحہ 499-500 اسلام حمزۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
کوئلوں پر لٹایا جاتا تھا یہاں تک کہ کوئلے جسم کی چربی سے ہی ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔
(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد اول صفحہ 675 خباب بن الارت۔ دارالفکربیروت 2003ء)
ایک انسان کی، عورتوں کی بھی ٹانگیں دو اونٹوں سے باندھ کر اُن اونٹوں کو مخالف سمت دوڑایا جاتا تھا یہاں تک کہ انسانی جسم چِر کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔
(ماخوذ ازشرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 3 صفحہ 139 سریۃ زید الیٰ ام قرفۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
لیکن اس ظلم کے باوجود اُن لوگوں نے اپنا ایمان ضائع کیا نہ ایک خدا کی عبادت چھوڑی۔ ایک دفعہ ایک مسلسل دُکھ سہنے والے مسلمان خاندان کے قریب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس وقت گزر ہوا جب اُس خاندان پر ظلم کی انتہا ہو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا۔ اے آلِ یاسر! صبر کا دامن نہ چھوڑناکہ خدا نے تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلہ میں تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے۔ آخر اس ظلم کی وجہ سے یاسر فوت ہو گئے۔ اُن کی والدہ کو بھی ظالمانہ طور پر نیزہ مار کر شہید کیا گیا۔
(شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد اول صفحہ 496 اسلام حمزۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
جس طرح نیزہ مارا گیااس واقعہ کے بیان سے ہی شرم آتی ہے۔ پس آج اگر احمدیوں پر ظلم ہوتے ہیں تو ایمان پر کامل ہوتے ہوئے اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اصولی ارشاد یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔ اس انتہائی کسمپرسی کی حالت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس نے غالب آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت آپ کو تسلی دی تھی، یہ بتا دیا تھا کہ یہ ظلم مستقل رہنے والا نہیں ہے۔ یہ ظلم جو اُس زمانے میں مسلمانوں پر ہوتے تھے، صرف غریبوں پر نہیں ہو رہے تھے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی ہو رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے مومنوں کو بھی یہ بتا دیا، یہ خبر دی کہ یہ ظلم ایک دن ختم ہونے والے ہیں۔ اللہ کی تقدیر چل رہی ہے اور زمین اُن کے لئے اپنے کناروں سے کم ہونی شروع ہو گئی ہے۔ فتح کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ مخالفت میں بڑھے ہوئے اسلام کی آغوش میں آرہے ہیں یا اللہ تعالیٰ اُن کا خاتمہ کر رہا ہے۔ اگر مخالفین کو کوئی کامیابی نظر بھی آرہی ہے تو یہ عارضی کامیابی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اُن کی نظر کا دھوکہ ہے کیونکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی طرف سے آیا ہوا سچا نبی غلبہ نہ حاصل کرے۔ اور پھر یہ تو وہ نبی تھا جس کے لئے زمین آسمان بنے تھے۔ یہ تو وہ نبی تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے کامل اور مکمل شریعت اتاری تھی جس کے بعد کوئی اور نئی شریعت نہیں آسکتی۔ جو خاتم الانبیاء تھا، ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ ہمارے پیارے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اب سب انبیاء سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ:22)۔

یعنی اللہ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ اللہ یقینا طاقتور اور غالب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سچا خدا جس سے پیار کرتا ہے اُس کی تائید کرتا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں، انصاف کی آنکھ سے دیکھنے والا ہر شخص خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، غیر مسلموں سے بھی ہو تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ترقیات اور ترقیات کے جو وعدے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تھے، وہ آپؐ کوآپؐ کی زندگی میں دکھا دئیے۔
پس یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ دیکھیں جو شخص اپنی قوم کے ظلموں سے تنگ آ کر اپنے وطن سے ہجرت کرتا ہے، پھر بعد کے کئی سال ایسے گزرتے ہیں جس میں کئی دفعہ یہ خوف کی صورت پیدا ہوتی ہے کہ دشمن اب کامیاب ہوا کہ اب کامیاب ہوا لیکن اللہ تعالیٰ ہر موقع پر اپنا خاص ہاتھ رکھ کر آپ کو اور آپ کی جماعت کو ہر خوف کی حالت سے نکالتا ہے۔ اور پھر وہی شہر جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا گیا تھا وہاں آپ فاتح کی حیثیت سے آتے ہیں تو یہ سب الٰہی تائیدات اور نصرت اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار ہی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسی شاندار فتح اور غلبہ عطا فرمایا کہ دنیا یہ دیکھ کے حیران ہوتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جاتا ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ اُس کو نیست و نابود کر دیں مگر وہ روز بروز ترقی پاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اُس کا وعدہ ہے

کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(المجادلہ:22)۔

یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب رہیں گے‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 220-221 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس جیسا کہ ہم نے دیکھا۔ ایک وقت مسلمان ظلم کی چکّی میں پس رہے تھے اور ایک وقت ایسا آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تمام عرب آپ کے اشارے پر گردنیں کٹوانے کے لئے تیار تھا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورا کرنے کے نظارے ہیں۔ ہم بھی اُسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں، ہم بھی اُسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو امام الزمان اور مسیح دوران مانتے ہیں، اُس کے ماننے والے ہیں، اُس کی بیعت میں شامل ہیں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور یہ حکم دیا تھا کہ جب وہ مبعوث ہو گا تو جانا اور اُسے میرا سلام کہنا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 182 مسند ابی ھریرۃ۔ حدیث 7957۔ عالم الکتب بیروت 1998ء))
بلکہ یہاں تک کہ اگر برف کی سِلوں پر گھٹنوں کے بل چل کر جانا پڑے تو جانا ۔(سنن ابن ماجہ ۔کتا ب الفتن۔ باب خروج المہدی۔ حدیث نمبر4084)لیکن اس مسیح موعود کے انکار کے بہانے نہ تلاش کرنا۔
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانی جو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا نبی ہے اور اس کے پیارے مسیح و مہدی زمان کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ تمام انبیاء کو کامیابی کی خوشخبریاں دیتا آیا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سے نوازا اور تاریک دور کے بعد اس زمانے کے روشن دور کی فتوحات سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ اور پھر اس بات کی تصدیق کے لئے کہ ہاں یہی وہ مسیح موعود اور مہدی موعود ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی تھی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی فرمایا کہ فکر نہ کرو، دشمنوں کی مخالفتیں اور ظالمانہ حملے تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ تمہارے سے بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ

کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ:22)۔

اور ہم نے دیکھا کہ جماعت پر مختلف دور آئے۔ لوگوں کو ذاتی طور پر بھی ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا گیا لیکن نہ ان لوگوں کے پائے ثبات میں لغزش آئی جنہیں ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا، نہ جماعت کی ترقی کو کوئی روک سکا۔ افغانستان کے بادشاہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی ایک بزرگ شہزادے کو سنگسار کروایا اور سنگساری سے پہلے پوچھتے رہے کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کی مسیحیت کا انکار کرتے ہو؟ لیکن اُس ثابت قدم اور صبر و رضا کے پیکر نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ میں تمہارے دنیاوی خوف کی خاطر اللہ تعالیٰ کی بات کا انکار نہیں کر سکتا۔ اور اسی طرح زمین پر گڑھے ہوئے سنگسار ہونا منظور کیا۔
(ماخوذ از تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 59)
لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ حکومت بھی اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی اور آج تک وہ سر زمین جو ہے بدامنی کا گہوارہ بنی ہوئی ہے۔ پھر ، اُس ملک میں، اُس علاقے میں، اور بھی شہادتیں ہوئیں۔ دوسرے ممالک میں بھی ہوئیں۔ جن میں پاکستان میں اس ظلم و بربریت کے سہنے والے جو احمدی ہیں سب سے زیادہ ہیں۔ پھر ہندوستان کے ارد گرد کے اور ممالک بھی ہیں، بنگلہ دیش ہے، سری لنکا ہے۔ یہ سب احمدی اس بات پر اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں کہ وہ اُس مسیح و مہدی پر ایمان لائے ہیں جس کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ احمدیوں کو ان ملکوں میں تنگ بھی کیا جاتا ہے، کیا جاتا رہا ہے، کیا جا رہا ہے۔ نام نہاد علماء کے منہ سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام سنتے ہی جھاگیں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ کوئی دقیقہ احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کا یہ نہیں چھوڑتے لیکن کیا اس سے جماعت کی ترقی رُک گئی؟ نہیں۔ بلکہ خدائے واحد کے ساتھ تعلق جوڑنے والے اور پیار اور محبت پھیلانے والے ہر روز جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہر دن جماعت کی ترقی کی ایک نئی نوید لے کر طلوع ہوتا ہے۔ اور ہر شام ترقی کی خبریں لئے آتی ہے۔
آج جماعت احمدیہ کا 185 ملکوں میں قیام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے وعدے پورے کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہندوستان میں بھی مخالفت ہے جیسا کہ میں نے کہا۔ یہاں بھی مجبوروں اور مظلوموں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی بعض شہادتیں ہوئی ہیں۔ چند مہینے پہلے ایک معلم کو شہید کر کے پھر درخت کے ساتھ اُس کی نعش لٹکا دی گئی کہ شاید اس سے دوسرے خوفزدہ ہو جائیں اور احمدیت چھوڑ دیں۔ لیکن کیا اس سے احمدیت اس علاقے میں ختم ہوگئی؟ مجھے یقین ہے کہ دشمنوں کی اس حرکت سے انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر وہاں احمدیت پھیلے گی اور پھولے گی ا ور بڑھے گی لیکن وہاں کی حکومتی انتظامیہ سے مَیں کہتا ہوں کہ آپ لوگ ظالم کے ہاتھ کو نہ روک کر کہیں اس ظلم میں شریک نہ ہو جائیں۔ یاد رکھیں مظلوم کی آہ عرش کے پائے ہلادیتی ہے۔ ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے اور قانون کو ہاتھ میں لے کر نہیں لیتے۔ لیکن اللہ کے حضور جھکتے ہیں جو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے اور اپنے وعدے پورے کرنے والا ہے۔ ہم اس بات کا اِدراک رکھتے ہیں کہ چند ایک جانوں کی قربانی قوموں کی زندگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور قربانیاں کرنے والے اور ظلموں میں پسنے والے بھی خوب جانتے ہیں کہ اُن کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور اجر پانے والی ہیں۔ پس ہماری نظر ہمیشہ آخری منزل کی طرف رہتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’لفظ کَتَبَ سنّت اللہ پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو ضرور ہی غلبہ دیا کرتا ہے۔ درمیانی دشواریاں کچھ شئے نہیں ہوتیں۔ اگرچہ وہ

ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ(سورۃ التوبہ118:)

کا ہی مصداق کیوں نہ ہو۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 574 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ) یعنی زمین باوجود فراخی کے اُن پر تنگ ہی کیوں نہ ہو جائے اور وہ انتہائی تکلیف دئیے جائیں۔
پس مخالف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ اب ہم نے مخالفت کر کے جماعت کی ترقی کے آگے بند باندھ دئیے ہیں اور اب یہ اپنی موت آپ مر نے والے ہیںتو اُس وقت خدا جو اپنے وعدوں کا سچا ہے، اَور اَور راستے نکال دیتا ہے۔ نئے نئے راستے جماعت کی ترقی کے ہمیں دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ لوگ بیوقوف ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریت کے بند باندھ کر طوفانی پانیوں کو روک دیں گے۔ طوفانی پانیوں کے سامنے تو پتھروں کے بند بلکہ سیسہ پلائی دیواریں بھی ٹکا نہیں کرتیں۔ یہ ہمارے مخالفین کس بیوقوفوں کی جنت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہاں اُن کی مخالفت کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک احمدی جو ہے وہ اپنے ایمان میں پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ پس ان مخالفتوں سے چاہے وہ ہندوستان میں ہوں یا بنگلہ دیش میں ہوں یا انڈونیشیا میں ہوں یا پاکستان میں ہوں یا کسی بھی اور ملک میں ہوں، ہر احمدی اپنے ایمان کو اور زیادہ صیقل کرے، اَور زیادہ چمکائے اور اَور زیادہ نکھارے تا کہ مخالفین جو ہیں اَور زیادہ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے جہنم کی آگ میں گرتے چلے جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’مَیں خدا سے یقینی علم پاکر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور ان کے سجادہ نشین اور ان کے مُلہَم اکٹھے ہو کر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا اُن سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا۔ کیونکہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں۔ پس ضرور ہے کہ بموجب آیہ کریمہ

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ:22)

میری فتح ہو‘‘۔
(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 341-342)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’ خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنّت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے، ایسا ہی اَب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا‘‘۔ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-381)
پس ہر احمدی اس یقین سے پُر ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ سچا ہے اور فتح انشاء اللہ ہمارا مقدر ہے۔ اور گزشتہ سو سال سے زائد کی جماعت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت کا ہر قدم ترقی کی نئی منازل کی طرف اُٹھ رہا ہے۔ اس لئے مایوسی کی اور پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔ جلسہ کے دنوں میں تو دعاؤں کی توفیق ملتی رہی، اب بھی جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا دعاؤں پر توجہ دیتے ہوئے گھروں میں جائیں۔ عبادت اور دعاؤں کی طرف توجہ رہے۔ثابت قدمی دکھاتے رہیں۔ ان تمام نو مبائعین سے میں کہتا ہوں کہ اپنے ثباتِ قدم کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ مخالفتوں کے باوجود زمانے کے امام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے والے بنیں تو اب اس امام کی بیعت میں آ کر اپنے اندر پاک تبدیلیوں کے معیار بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں اور کبھی اپنے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دیں۔دنیا کا کوئی خوف اور کوئی لالچ آپ کو اپنے عہدِ بیعت سے ہٹانے والا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں نومبائعین کی تعداد اب پرانے احمدیوں کی نسبت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس حاضری سے بھی ظاہر ہے۔ پچیس ہزار کی تعداد میں سے گیارہ ہزار نومبائعین ہیں۔ ساڑھے چار ہزار پاکستانی اور غریب ا لگ ہیں۔ سارے آ بھی نہیں سکتے۔ اس لئے ان نومبائعین سے مَیں کہتا ہوں کہ آپ پر ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ان مخالفتوں میں قربانیاں دیتے ہوئے احمدیت کا پیغام خدا کے حکم کے مطابق اُس کی تسبیح، تحمید اور استغفار کرتے ہوئے پہنچاتے رہیں گے اور اپنی اصلاح بھی کرتے رہیں گے۔ اپنے ایمان کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے، مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے اور دوسروں کے لئے بھی نمونہ بنیں گے توپھر انشاء اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی جنہوں نے ابھی تک احمدیت قبول نہیں کی، اُنہیں بھی احمدیت کی آغوش میں لانے کا باعث بنیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ جوبلی سال کے جلسہ میں آپ کی حاضری ہزاروںمیں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہوگی۔
جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت شاملِ حال ہو تو دشمن کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اس لئے آپ پورے یقین سے اس وعدے کے پورا ہونے پرایمان رکھیں کہ اللہ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کیا کرتا۔ یہ تھوڑی سی تکلیفیں یا کچھ نقصان ضرور رنگ لائیں گے۔ جو وہاں شہید ہوئے ہیں، اُن کے خون رائیگاں نہیں جائیں گے۔ جماعت احمدیہ کی سو سال سے زائد تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر شہادت ہمیشہ رنگ لائی ہے بلکہ مَیں تو اس یقین پر قائم ہوں کہ صرف احمدی کا خون ہی نہیں رنگ لاتا بلکہ احمدی کو پہنچنے والی معمولی تکلیف بھی جس کا بعض دفعہ احساس بھی نہیں ہوتا، اس معمولی تکلیف کو بھی اللہ تعالیٰ بغیر نوازے نہیں چھوڑتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ یہ سلوک فرما رہا ہو تو پھر آپ کو فکر کرنے اور خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر تکلیف کو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے برداشت کریں۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں جب تمام مخالفتیں ہوا میں اُڑ جائیں گی اور مخالفتیں کرنے والے آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے۔
ایک کہانی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دیو تھا کوئی، جب وہ زخمی ہوتا تھا یا اُس کا خون نیچے گرتا تھا تو جہاں اُس کے خون کا قطرہ گرتا تھا وہاں سے اور دیو پیدا ہو جاتے تھے۔ یہ تو خیر کہانی ہوئی لیکن جماعت کی تاریخ میں ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ خون نکلنا تو دُور کی بات ہے، احمدیوں کو معمولی تکلیفیں پہنچنے پر ہی اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے کہ ایک کی جگہ دس دس دیتا ہے۔ اگر ایک مسجد بند کی تو دس مسجدیں نئی مل گئیں۔ اگر ایک جماعت کو بعض پابندیاں برداشت کرنی پڑیں تو دس آزادی سے اپنے فرائض ادا کرنے والی نئی جماعتیں پیدا ہو گئیں۔ پس ضرورت ہے تو ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے کی۔
پیدائشی اور پرانے احمدی جو ہیں اُن سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ جہاں مَیں گزشتہ سالوں میں ہونے والے احمدیوں کو توجہ دلا رہا ہوں، وہاں آپ بھی اس طرف توجہ رکھیں۔ ان نئے آنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ سے نمونے پکڑنے ہیں۔ پس آپ لوگ میری ان باتوں سے باہر نہیں ہیں ۔ آپ لوگ بھی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ حقوق العباد کے معیار بلند کریں۔ایمان اور ایقان میں ترقی کریں۔ تسبیح و استغفار کی طرف بہت توجہ دیں۔ ورنہ آپ کے کسی فعل سے ٹھوکر کھانے والے نومبائع کی ٹھوکر کھانے کے آپ بھی ذمہ دار ہوں گے اور ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اُس کے آگے جھکے رہنے والے اور استغفار کرنے والے بنے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤںکے طفیل جس امام سے نوازا ہے اور ہمیں اُس کو ماننے والا بنایا ہے، اُس کے ساتھ جو فضل مقدر ہیں اُن سے ہم فیضیاب ہونے والے ہوں۔ ہمارا کوئی فعل ہمیں جماعتی ترقیات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھنے سے محروم نہ کردے۔ پس اگر ہم نے احمدیت کے غلبہ کے دن اپنی زندگیوں میںپورا ہوتے دیکھنے ہیں تو ہر بچے، بوڑھے،عورت، مرد، نو احمدی اور پرانے احمدی کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی ہو گی۔ ایک انقلاب اپنی زندگیوں میں لانا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنا ہو گا۔ آپ نے مختلف جگہوں پر اپنی بعثت کے مقصد کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے جس کا خلاصۃً میں نے شروع میں ذکر کر دیا تھا کہ ان جلسوں کا مقصد کیا ہے؟ وہی آپ کی بعثت کا مقصد ہے تا کہ لوگ جلسوں پر آ کر آپ کی بعثت کے مقصد کو سمجھ سکیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اُس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اُس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں‘‘۔
(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180)
پس اس اہم نکتہ کو سمجھ لیں کہ خدا سے تعلق جوڑنا ہے۔ ہر احمدی کی زندگی کا مقصد یہی ہے اور جب اپنے پیدا کرنے والے سے سچّا اور پکّا تعلق قائم ہو جائے گا تو پھر دنیا ہزار کوششیں کرے، ہماری ترقی میں ذرا سا بھی روک نہیں پیدا کر سکتی، کوئی رخنہ نہیں ڈال سکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یقینا یاد رکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدا ئے تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ نہ ہو، کچھ بھی چیز نہیں۔ اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا‘‘۔
(ازالۂ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 547)
اور خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہمیشہ آپ کی حمایت میں کھڑا ہو گا۔
(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 632 مع حاشیہ۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ایڈیشن چہارم 2004ء)
مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے غلبہ کا وعدہ فرمایا ہے۔
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو 1906ء کے ہیں،جس میں بڑی خوشخبریاں عطا فرمائی ہیں جو ہم ماضی میں پورا ہوتے دیکھتے رہے ہیں، جو صرف ایک وقت کے لئے نہیں ہیں بلکہ آپ کے زمانے پر محیط ہیں۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاماً فرمایا ’’صبر کر خدا تیرے دشمن کو ہلاک کرے گا‘‘۔
(تذکرہ صفحہ 566 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ایڈیشن چہارم 2004ء ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پھر اکتوبر 1906ء کا ایک الہام ہے۔

’’فَوْقٌ حَمِیْدٌ‘‘

یعنی قابلِ تعریف غلبہ۔ پھر ساتھ ہے ’’کاذب کا خدا دشمن ہے، وہ اس کو جہنم میں پہنچائے گا‘‘ ۔
(تذکرہ صفحہ 571شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ایڈیشن چہارم 2004ء ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پھر نومبر 1906ء کا ایک الہام ہے

’’لَا تَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اس کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’ گویا مَیں کسی دوسرے کو تسلّی دیتا ہوں کہ تُو مت ڈر، خدا ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
(تذکرہ صفحہ 575شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ایڈیشن چہارم 2004ء ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس یہ تسلّی کے الفاظ مختلف الہاموں میں جہاں آپ کے لئے تھے وہاں جماعت کے لئے بھی تھے اور ہیں۔ ان سے اگر حصہ لینا ہے تو ہمیں اپنے اعمال کی درستی کرنی ہو گی تا کہ اُن فضلوں کے اور اُن انعاموں کے وارث بن سکیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمائے ہیں۔
پس مَیں آخر میں پھر آپ لوگوں سے کہتا ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے روحانی ماحول میں شامل ہونے کا موقع دیا ہے کہ اس نعمت کے شکرانے کے طور پر اپنی زندگیوں میں مستقل پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بن جائیں۔ اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ اس دفعہ بڑی بھاری تعداد میں پاکستان کے احمدیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ وہ قادیان کے جلسہ میں شامل ہوں اور حکومتِ ہند نے اُن کو بڑی فراخی سے ویزے دئیے۔ اللہ اُن کو بھی جزا دے۔ تو پاکستان کے یہ احمدی جو شامل ہونے والے ہیں ان میں سے بہت سوں کی قادیان جلسہ پر جانے اور روحانی ماحول سے فیض اُٹھانے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں کو خوب دعائیں کرنے کا موقع ملا ہو گا اور جب تک آپ وہاں رہیں گے یہ موقع ملتا رہے گا۔ پس بقیہ دنوں سے بھی خوب فائدہ اُٹھائیں۔ مسجد اقصیٰ، مسجد مبارک، بیت الفکر، بیت الدعا وغیرہ اور جودوسری جگہیں ہیں، ہر جگہ کو اپنے آنسوؤں سے تر کر دیں۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سجدے کئے ہیں اُن جگہوں پر جا کر سجدے کریں اور گڑگڑائیں اور روئیں۔ آپ لوگ جن پر پاکستان میں پابندیاں ہیں۔جن پر اللہ کا نام بلند آواز سے پکارنے پر، اسلامی شعائر کو اختیار کرنے پر پابندیاں ہیں،جن پر اپنے جلسے منعقد کرنے پر پابندیاں ہیں۔ یقینا آپ کے جذبات کی کیفیت ناقابلِ بیان ہو گی۔ اس کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے حضور آنسوؤں ،ہچکیوں کی صورت میں اس عجز کے ساتھ پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ کے دربار سے وہ قبولیت کا درجہ پا کر لوٹیں اور ہم اُن خوشخبریوں کو اپنی زندگیوں میں پورا ہوتا دیکھیں جو مسیح الزمان نے ان سجدہ گاہوں میں دعاؤں کی قبولیت کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے پائی تھیں۔ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں کہ اس یقین پر توہم قائم ہیں کہ احمدیت نے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غلبہ پانا ہے۔ لیکن ہم اللہ کے حضور یہ عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نالائقیوں اور نا سپاسیوں کو معاف فرماتے ہوئے محض اور محض اپنے رحم اور فضل سے ان فتوحات کے نظارے ہمیں اپنی زندگیوں میں دکھا دے۔ ہمارے راستوں کی روکیں دور ہو جائیں۔ پاکستان میں بھی وہ دن جلد آئیں جب یہ کھوئی ہوئی رونقیں دوبارہ لَوٹیں اور پاکستانی احمدی بھی آزادی سے اپنی روح کی تسکین کے سامان کر سکیں۔ احمدی کی اپنے وطن کے لئے دعا ہی ہے جس نے ملک کی تقدیر بدلنی ہے۔ وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے دعا کریں۔ اور پھر انسانیت سے محبت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے دعائیں کریں اور اپنے عمل سے پاک نمونے قائم کریں۔ یہ دعا کریں اور تڑپ تڑپ کر دعا کریں کہ خلافت سے دُوری کا جو درد پاکستانی احمدیوں کے دل میں ہے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرما کر اُسے راحت میں بدل دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن جلد دکھائے۔ آمین۔
اب مَیں آخر میں چند الفاظ کے ردّ و بدل کے ساتھ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعائیہ الفاظ دہراتا ہوں۔
اے اللہ! ہر وہ شخص جس نے تیری رضا حاصل کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے اس للّہی جلسہ میں شمولیت کے لئے سفر اختیار کیا، تُو اُن کے ساتھ ہو اور اُنہیں اجرِ عظیم بخش۔ اور ان پر رحم کر اور ان کے مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دے۔ اور ان کے ہمّ و غم دور فرما دے۔ اور ان کو ہر ایک تکلیف سے مخلصی عنایت کر۔اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دے اور روزِ آخرت میں اپنے اُن بندوں کے ساتھ اُنہیں اُٹھا جن پر تیرا فضل اور رحم ہوا۔ اور تا اختتام سفر اُن کے بعد اُن کا خلیفہ ہو۔ اے خدا! اے ذوالمجد والعطا اور رحیم اور مشکل کشا! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک طاقت اور قوت تجھی کو ہے۔ آمین، ثم آمین۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 282 اشتہار نمبر 91 مطبوعہ ربوہ)
قادیان کی جو حاضری آئی ہے، پہلے مَیں مختصراً بتا چکاہوں۔تقریباً پچیس ہزار لوگ اس وقت جلسہ میں شامل ہیں اور اچھی خبریں وغیرہ دی جا رہی ہیں۔ اب ہم دعا کریں گے۔ میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں۔ دعا کر لیں۔ (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں