1909ء میں وفات پانے والے چند صحابہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 دسمبر 2009 ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے چند صحابہؓ کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جن کی وفات 1909ء میں ہوئی۔ ان میں سے دو اصحاب یعنی حضرت منشی رستم علی صاحب ؓ اور حضرت حافظ قدرت اللہ صاحبؓ شاہجہانپوری کا تفصیلی ذکرخیر قبل ازیں اس کالم میں کیا جاچکا ہے۔ دیگر اصحاب کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
حضرت شیخ محمد حسین صاحبؓ مراد آبادی
حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی کتابت کی سعادت حضرت شیخ محمد حسین صاحبؓ کو بھی نصیب ہوئی۔ آپؓ خوش نویس تھے اور اپنے کام کے سلسلہ میں امرتسر میں مقیم تھے جہاں ’’براہین احمدیہ‘‘ کی طباعت ہوئی اور اس کے حصہ چہارم کا سرورق لکھنے کا موقع آپؓ کو ملا۔ یہیں سے حضورؑ کے ساتھ آپؓ کی عقیدت کا سفر شروع ہوا جو آخر تک جاری رہا۔ آپ نے 23 مارچ 1889ء کو دارالبیعت لدھیانہ میں ابتدائی دس احباب میں بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔
1890ء میں آپؓ نے ’’فتح اسلام‘‘ کی کتابت کی۔ اس کتاب میں ہی حضورؓ نے آپؓ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: ’’اخویم شیخ محمد حسین صاحب مرادآبادی ہیں جو مرادآباد سے قادیان میں آکر اس مضمون کی کاپی محض للہ کھ رہے ہیں۔ شیخ صاحب ممدوح کا صاف سینہ مجھے ایسا نظر آتا ہے جیسا آئینہ۔ وہ مجھ سے محض للہ غایت درجہ کا خلوص و محبت رکھتے ہیں۔ ان کا دل حُبِّ للہ سے پُر ہے اور نہایت عجیب مادہ کے آدمی ہیں۔ مَیں انہیں مرادآباد کے لئے ایک شمع منوّر سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ محبت اور اخلاص کی روشنی جو اُن میں ہے وہ کسی دن دوسروں میں بھی سرایت کرے گی۔ شیخ صاحب اگرچہ قلیل البضاعت ہیں مگر دل کے سخی اور منشرح الصدر ہیں ۔ ہر طرح اس عاجز کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں اور محبت سے بھرا ہوا اعتقاد اُن کے رگ و ریشہ میں رچا ہوا ہے‘‘۔
آپؓ نے 28ستمبر 1909ء کو وفات پائی۔
حضرت حافظ محمد قاری صاحبؓ جہلمی
حضرت حافظ محمد قاری صاحب ولد نور حسین صاحب کا تعلق جہلم سے تھا۔ اگرچہ آپؓ حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ کے شاگردوں میں سے تھے لیکن آپؓ کو حضرت مولوی صاحبؓ سے بھی پہلے بلکہ جہلم میں سب سے پہلے حضورؑ کی بیعت کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔ آپؓ اُس وقت جہلم کی ایک مسجد کے امام تھے اور گزارہ کی یہی صورت تھی۔ احمدی ہونے کے بعد آپؓ کی شدید مخالفت ہوئی اور محلہ والوں نے مسجد کے متولّی کو آپؓ کی شکایت کی کہ یہ کافر ہوگیا ہے، اسے ہٹایا جائے۔ متولّی نے لوگوں سے پوچھا کہ قاری کیا شہادت دیتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کلمہ تو وہی پڑھتا ہے۔ پھر بتایا کہ اذان اور نماز بھی وہی ہے۔ تو اُس نے لوگوں کو کہا کہ ان حالات میں مَیں اسے الگ نہیں کرسکتا، جس کی مرضی ہو اُس کے پیچھے نماز پڑھے ورنہ نہ پڑھے۔ اس کے بعد آپؓ اکیلے ہی اذان دے کر نماز پڑھ لیا کرتے۔ لیکن بعد میں ایسا وقت بھی آیا کہ اُن کی مسجد میں نمازیوں کو نماز پڑھنے کیلئے جگہ نہ ملتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب ’’آریہ دھرم‘‘، ’’سراج منیر‘‘، ’’تحفۂ قیصریہ‘‘ اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ نیز کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں آپؓ کا نام اپنے 313 اصحاب کی فہرست میں 176ویں نمبر پر شامل فرمایا ہے۔
حضرت محمد قاری صاحبؓ نے 10 اکتوبر 1909ء کو جہلم میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپؓ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔
حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ ۔ چنیوٹ
حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ ولد حافظ محمد حیات صاحب سکنہ چنیوٹ ایک اسٹامپ فروش تھے۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کو اپنے 313 صحابہؓ میں شامل فرمایا ہے۔ آپؓ کا وصیت نمبر 160 تھا۔
حضرت مہر سون صاحبؓ آف سیکھواں
حضرت مہر سون صاحبؓ آف سیکھواں ضلع گورداسپور ایک معزز زمیندار تھے۔ 1892ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور پھر زیارت کے لئے متعدد بار قادیان جاتے رہے۔ جون 1897ء میں قادیان میں ڈائمنڈ جوبلی جلسہ منعقد ہوا تو اس میں آپؓ بھی شامل تھے اور آپؓ کا نام حضورؑ نے جلسہ احباب کی فہرست میں 220ویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک اور اشتہار (مطبوعہ 7مارچ 1898ء) میں آپؓ کا نام بطور گواہ درج فرمایا ہے۔
آپؓ کوآنکھوں کی بیماری تھی۔ وفات سے قریباً 7 سال قبل آپؓ کو حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا کہ پہلے پانی آکر بینائی بالکل جاتی رہے گی تو پھر ان کا علاج کیا جائے گا۔ آپؓ کو اس کا بہت صدمہ ہوا اور اس کے بعد آپ نے یہ طریق اختیار کرلیا کہ جب بھی قادیان آتے اور حضرت مسیح موعودؑ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملتا تو حضورؑ کا شملہ مبارک اپنی آنکھوں سے لگالیتے۔ کچھ عرصہ میں ہی ان کی بیماری جاتی رہی اور وفات تک کسی علاج کے بغیر آنکھیں درست رہیں۔
آپؓ ابتدائی موصی تھے۔ وصیت نمبر 374 تھا۔ 2دسمبر 1909ء کو قریباً 70 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔
حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ سکنہ ٹرپئی
حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے سنا کہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد بڑا پارسا، پرہیزگار اور اہل اللہ شخص ہے تو مَیں زیارت کے شوق میں وہاں پہنچا۔ وہاں بمبئی سے ایک اور شخص بھی آیا ہوا تھا۔ دوران ملاقات حضورؑ پُراثر وعظ فرماتے رہے کہ اثناء وعظ میں آپؑ دفعۃً اٹھ کر جلدی جلدی سیڑھیوں سے اُترے۔ ہم دونوں مسافر بھی ہمراہ ہوئے۔ ڈھاب کے شرقی کنارہ پر زمینداروں نے ایک گڑھا کھیتوں کو پانی دینے کیلئے بنایا ہوا تھا۔ اس میں ایک لڑکا آٹھ نو برس کا ڈوبا ہوا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ ننگا تھا۔ آپؑ نے فرمایا: اسے باہر نکالو۔ ہم نے اسے نکالا۔ اس وقت وہ لڑکا زندہ مگر بیہوش تھا۔ آپؑ نے فرمایا اس کے پیٹ سے پانی نکالو ا ور دریافت کرکے جس کا لڑکا ہے اسے دے دو۔ پھر آپؑ واپس مکان پر تشریف لائے اور پھر آپؑ نے اس بات کے متعلق کچھ ذکر نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ اعلامِ الٰہی سے گئے تھے اور آپؑ نے یہ کام خدا کے حکم کے ماتحت کیا تھا۔
حضرت منشی فضل دین صاحبؓ گولیکی
’بدرؔ‘ یکم اپریل 1909ء میں حضرت منشی فضل دین صاحبؓ پٹواری ساکن گولیکی کی وفات کی خبر میں تحریر ہے کہ مرحوم سعید، شریف طبیعت کا وفادار انسان تھا۔
حضرت شیر بی بی صاحبہؓ
حضرت شیر بی بی صاحبہؓ سامانہ ریاست پٹیالہ کی رہنے والی تھیں۔ پٹھان قوم سے تھیں۔ آپؓ کی شادی سنور (ریاست پٹیالہ) کے حضرت محمد اکبر خانصاحبؓ سے ہوئی جن سے 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہوئیں۔ حضرت خانصاحبؓ نے 23 ستمبر 1891ء کو بیعت کی توفیق پائی تو آپ نے مخالفت کی لیکن 1899ء میں قادیان آکر خود بھی بیعت کرلی۔ اور پھر ساری زندگی قادیان میں ہی گزاردی۔ آپؓ کو لمبا عرصہ حضور علیہ السلام کا کھانا پکانے کی توفیق بھی ملتی رہی۔ ایک روز حضورؑ کے دریافت کرنے پر آپؓ نے عرض کیا کہ ’’حضورؑ کے لئے کھانا پکارہی ہوں۔ حضور! اگلے جہان میں بھی مَیں آپؑ کے لئے کھانا پکایا کروں گی‘‘۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’کھانا پکانے کی ضرورت نہیں ہوگی‘‘۔
حضرت شیر بی بی صاحبہؓ سادہ مزاج تھیں اور آپؓ کی باتوں پر سب ہنستے تھے۔ آپؓ نے 22 جولائی 1909ء کو وفات پائی اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ میں جگہ پائی۔
حضرت مائی تابی صاحبہؓ
حضرت مائی تابی صاحبہؓ بنت کریم بخش صاحب (قوم ککّے زئی وطن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور) ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کے گھر میں خادمہ تھیں۔ آپؓ کے باقی خاندان کا زیادہ علم نہیں۔ سلسلہ کی بعض روایات میں آپؓ کا ذکر ملتا ہے۔ 18مئی 1909ء کو قریباً 70 سال کی عمر میں آپؓ نے وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں جگہ پائی۔ آپؓ کا وصیت نمبر 221 تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں