1911ء میں وفات پانے والے چند اصحاب احمد رضی اللہ عنہم
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍مارچ 2011ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں حضرت مسیح موعودؑ کے چند ایسے اصحاب کا ذکرخیر کیا ہے جنہوں نے سو سال قبل (1911ء میں) وفات پائی۔
حضرت حافظ احمدالدین صاحبؓ
حضرت حافظ احمد الدین صاحبؓ (یکے از 313 اصحاب) ولد حافظ فضل الدین صاحب چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ آپ نے 24ستمبر 1892ء کو بیعت کی توفیق پائی۔ رجسٹر بیعت اُولیٰ میں آپ کی بیعت کا اندراج 355نمبر پر موجود ہے جہاں پیشہ زمینداری لکھا ہے۔ 313 کبار صحابہ میں آپؓ کا نام 202نمبر پر ہے۔ آپ نے 1911ء میں وفات پائی۔
آپ کی ایک بیٹی حضرت حافظہ زینب بیگم صاحبہ زوجہ حضرت حافظ مولوی فضل الدین صاحبؓ آف کھاریاں یکے از 313 اصحاب (وفات 14؍اکتوبر 1932ء) نہایت مخلص اور پارسا خاتون تھیں، لجنہ اماء اللہ کھاریاں کی پہلی (اور تا وفات) صدر تھیں۔ 1948ء میں وفات پائی۔
حضرت حاجی شیخ الٰہی بخش صاحبؓ
حضرت حاجی شیخ الٰہی بخش صاحبؓ گجرات کے رہنے والے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے تاجر کتب تھے۔ آپ نے 1899ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ کی بیعت کا اندراج اخبار ’الحکم‘ 10نومبر 1899ء میں شائع شدہ ایک فہرست نومبائعین میں نمبر 82پر درج ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’حقیقۃالوحی‘ میں آپؓ کا نام ایک پیشگوئی کے مصدّقین میں درج ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے کہ 7مارچ 1907ء کو حضور کو الہام ہوا پچیس دن۔ یا یہ کہ پچیس دن تک ۔ جس سے یہ تفہیم ہوئی کہ آئندہ پچیس دنوں تک جو 31مارچ تک بنتے ہیں کوئی نیا واقعہ ظاہر ہونے والا ہے ۔ چنانچہ 31 مارچ 1907ء کو آسمان سے ایک شہاب ثاقب قریباً 3بجے دوپہر ٹوٹا جو ملک بھر میں دیکھا گیا۔ حضور علیہ السلام نے 50 گواہیاں اس نشان کی درج فرمائی ہیں جن میں آپؓ بھی شامل تھے۔
1908ء میں فنانشل کمشنر صاحب بہادر پنجاب کی قادیان آمد کے موقع پر جن احباب نے اُن کا استقبال کیا ان میں بھی حضرت شیخ الٰہی بخش صاحبؓ شامل ہوئے۔
آپ ایک مخلص اور مفید سلسلہ وجود تھے۔ گجرات شہر میں آپ کی رہائش احمدی احباب کے لیے ایک سرائے تھی۔ آپ نے اواخر 1911ء میں لاہور میں ہیضہ کے مرض میں مبتلا ہوکر وفات پائی اور امانتاً وہیں دفن کئے گئے۔ آپ موصی تھے۔
1921ء میں آپؓ کے پوتے محترم شیخ عبدالغفور ابن حضرت شیخ رحیم بخش صاحبؓ صاحب نے الفضل میں اشتہار دیا کہ دیہات کے احمدی جو گجرات شہر میں رات کو ٹھہرنا چاہیں وہ اُسی طرح ہمارے ہاں آیا کریں جس طرح ہمارے والد کے وقت آیا کرتے تھے۔
1957ء میں آپؓ کی پڑپوتی محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ بنت شیخ عبدالکریم صاحب کا نکاح مکرم عبدالعزیز جمن بخش صاحب آف سورینام کے ساتھ پڑھاتے ہوئے، حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’یہ ایک پرانا مخلص خاندان ہے، ذرا اوپر جاکر یہ خاندان حضرت خلیفہ اولؓ کے خاندان سے مل جاتا ہے … لڑکی کے دادا شیخ رحیم بخش صاحب اور پڑ دادا شیخ الٰہی بخش صاحب بھی پرانے صحابی تھے‘‘۔
آپ کے بیٹے حضرت شیخ رحیم بخش صاحبؓ نے خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں وفات پائی۔ آپؓ کے پوتوں میں مکرم شیخ عبدالغفور صاحب، مکرم شیخ عبدالکریم صاحب (وفات 1944ء( کے علاوہ مکرم شیخ عبدالعزیز صاحب (وفات 11مئی 1973ء( بھی شامل تھے جو بہت نیک اور مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے مکرم سجاد احمد خالد صاحب (مربی سلسلہ) کو وقف کیا اور ان سے عہد بھی لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اُنہیں بیٹا دے تو اُسے بھی دین کی راہ میں وقف کرنا۔ چنانچہ انہوں نے اس عہد کو نبھاتے ہوئے اپنے بیٹے مکرم حافظ جواد احمد صاحب (مربی سلسلہ) کو بھی وقف کیا۔
حضرت میاں کریم بخش صاحبؓ باورچی
حضرت میاں کریم بخش صاحبؓ ریاست پٹیالہ کے قصبہ پائل کے رہنے والے تھے۔ آپ ایک کاریگر باورچی تھے اور کھانا پکانے میں مہارت حاصل تھی۔ آپ بیعت کے بعد قادیان میں ہی رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنے ایک نشان ’’(7) ساتواں نشان ۔ 28 فروری 1907ء کی صبح کو یہ الہام ہوا ’’سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہو گی۔ خوش آمدی نیک آمدی۔‘‘ کا ذکر کرکے ساتھ ہی اس پیشگوئی کے قبل از وقت سننے والے گواہوں کے اسماء بھی درج فرمائے ہیں جہاں آپؓ کا نام ’’کریم بخش خانساماں‘‘ بھی مذکور ہے۔
آپؓ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بیان فرماتے ہیں:
حضرت صاحب کی زندگی کے آخری سالوں میں ایک شخص میاں کریم بخش نامی بیعت میں داخل ہوا اور قادیان میں ہی رہ پڑا۔ یہ شخص بڑا کاریگر باورچی تھا، حضرت صاحب جب کبھی اُسے کھانے کی فرمائش کرتے تو اس کا کمال یہ تھا کہ اتنی تھوڑی دیر میں وہ کھانا تیار کرکے لے آتا کہ جس سے نہایت تعجب ہوتا۔ حضرت صاحب فرماتے: میاں کریم بخش! کیا کہنے سے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا؟ اور اس کی پھُرتی پر اور عمدہ طور پر تعمیل کرنے پر بڑے خوش ہوتے تھے اور اس خوشی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ پھر اس خوشی نے اس کو ایسا خوش قسمت کردیا کہ وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا اور آپ کے عین قدموں کی طرف اسے جگہ ملی۔
آپؓ نے 14مارچ 1911ء کو وفات پائی۔
حضرت چودھری عنایت اللہ خان صاحبؓ
حضرت چودھری عنایت اللہ خان صاحبؓ بدوملہی ضلع نارووال (اُس وقت ضلع سیالکوٹ) کے رہنے والے تھے۔ آپؓ نے 1911ء میں وفات پائی۔ آپؓ بڑے ہی نیک دل اور فیاض طبیعت اور پُر جوش احمدی تھے۔
حضرت مولوی مہر بخش صاحبؓ۔ سہارنپور
حضرت مولوی مہر بخش صاحبؓ مختار و میونسپل کمشنر رُڑکی بڑے مخلص احمدی اور انجمن احمدیہ سہارنپور کے صدر تھے۔ آپؓ نے مارچ 1911ء میں وفات پائی۔ حضرت خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کے زمانہ قیام رُڑکی میں آپؓ احمدی ہوئے تھے اور ایسے پُرجوش اور با حمیّت تھے کہ کسی سنگدل کو بھی تبلیغ کرنے میں تأمّل نہ کرتے تھے۔ مخالفت کی کبھی پرواہ نہ کی۔ اپنے مکان پر ترجمۃالقرآن کا مدرسہ جاری کر رکھا تھا۔ کچہری سے فرصت کا تمام وقت مدرسہ میں صَرف کرتے تھے۔ کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔
اہلیہ حضرت میاں سردار خانصاحبؓ کپورتھلوی
کپورتھلہ کی جماعت کے اکابرین میں حضرت میاں محمد خان صاحبؓ یکے از 313 اصحاب (وفات 1904ء) حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ وابستگی،وارفتگی، فدائیت اور عشق میں آپؓ اپنی مثال آپ تھے۔ آپؓ کے ایک بھائی حضرت میاں سردار خان صاحبؓ نے 28؍فروری 1890ء کو بیعت کی۔ رجسٹر بیعت اُولیٰ میں آپ کا پیشہ ملازمت فوج ریاست کپورتھلہ دفعدار رسالہ لکھا ہے۔ اسی طرح آپ کی اہلیہ کی بیعت کا اندراج بھی رجسٹر بیعت اُولیٰ میں محفوظ ہے: 21؍فروری 1892ء بمقام کپورتھلہ بیوی میاں سردار خانصاحب ملازم ریاست کپورتھلہ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ حضرت اقدسؑ اپنے ایک سفر میں کپورتھلہ میں نزیل تھے۔ حضرت میاں سردار خان صاحبؓ نے اپنا مکان حضرت اقدسؑ اور آپ کے ہمسفر رفقاء کے لیے خالی کر دیا تھا۔
آپؓ کی اہلیہ نے 1911ء میں وفات پائی۔
حضرت برکت بی بی صا حبہؓ
حضرت برکت بی بی صاحبہؓ ایک مخلص وجود حضرت شیخ مولا بخش صاحبؓ آف لاہور یکے از 313 اصحاب (وفات 14؍فروری 1928ء) کی اہلیہ محترمہ تھیں اور اُنہی کی طرح نیک اور صالحہ تھیں۔ آپ بفضل اللہ تعالیٰ ابتدائی موصیان میں سے تھیں۔ دونوں میاں بیوی کا وصیت نمبر 229ہے۔ آپؓ نے 29جنوری 1911ء کو لاہور میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی چچی تھیں اور حضرت شیخ صاحب کی والدہ کی وفات کے بعد بچپن سے ان کی دیکھ بھال بھی کرتی رہی تھیں۔ چنانچہ آپؓ کی وفات پر حضرت عرفانی صاحبؓ نے ’’میری پیاری امّاں، میری جان امّاں‘‘ کے عنوان سے اخبار الحکم میں مختصر مضمون بھی لکھا۔ جس میں یہ بھی لکھا کہ مرحومہ نے 3بیٹے اور 5بیٹیاں اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ میرے چچا مولوی مولا بخش صاحب ایک صوفی مزاج، رقیق القلب بزرگ ہیں(جو لاہور کے ایگزامینر آفس میں ملازم ہیں)۔ مرحومہ ایک نفس کش، غریب مزاج اور نہایت سادہ زندگی بسر کرنے والی تھی۔ باوجود کثرت اولاد کے پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا۔
حضرت شیخ مبارک اسماعیل صاحبؓ بی اے بی ٹی (وفات 27 فروری 1966ء) حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کے بڑے بیٹے تھے۔
حضرت بخت روشن صا حبہ ؓ
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی والدہ ماجدہ محترمہ حضرت بخت روشن صاحبہؓ وزیر آباد کے مشہور خاندان حکیماں سے تھیں اور حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیرآبادی کی رشتہ میں ہمشیرہ تھیں۔ آپؓ نے بچپن ہی سے اپنے بچوں کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کی، حضرت حافظ روشن علی صاحب کو قرآن کریم حفظ کرانا شروع کردیا جس کی تکمیل حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیرآبادی کے ذریعہ ہوئی۔ آپؓ ایک نیک سیرت اور نہایت پارسا خاتون تھیں۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ فرماتے ہیں: ہماری والدہ نے ہماری تربیت اعلیٰ پیمانہ پر کی۔ ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے نے بلایا کہ تمہارے کھیت میں کسی کا بیل چر رہا ہے، آؤ اس کے مالک کو گالیاں دیں۔ میں نے کہا ٹھہر جاؤ! میں اپنی والدہ سے پوچھوں۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا تو فرمایا ہرگز نہیں، چاہے بیل سارا کھیت کھا جائے گالی نہیں دینی، گالی دی تو زبان کاٹ دوں گی۔
آپؓ کے چار بیٹے تھے اور چاروں کو حضرت مسیح موعودؑ کے اصحاب میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے:
حضرت پیر برکت علی صاحبؓ (وفات 29جون 1924ء)
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ (وفات فروری 1904ء)
حضرت پیر اکبر علی صاحبؓ (وفات جنوری 1920ء( اور حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ (وفات 23جون 1929ء)
محترمہ بخت روشن صاحبہ نے 29؍اپریل 1911ء کو وفات پائی۔ آپؓ موصیہ تھیں، میت قادیان تو نہ پہنچ سکی لیکن یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب ہے۔
8نومبر 1911ء کو حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ حیات النور صاحبہ نے بھی بعمر تقریباً 21 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
حضرت مہراں بی بی صاحبہؓ
حضرت مہراں بی بی صاحبہؓ (زوجہ شیخ میراں بخش صاحب) دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور کی رہنے والی تھیں۔ آپ ابتدائی موصیان میں سے تھیں اور وصیت نمبر 314 تھا۔ آپ نے یکم اپریل 1911ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
آپؓ حضرت شیخ نورالدین صاحب تاجر قادیان بعدہٗ کراچی و ساہیوال (وفات 19نومبر 1948ء) اور حضرت بھائی شیر محمد صاحب درویش (وفات 1974ء) کی والدہ تھیں۔
حضرت نورفاطمہ صا حبہؓ
گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے حضرت چوہدری احمد علی صاحبؓ (وفات 1939ء) کی اہلیہ محترمہ نور فاطمہ صاحبہ بھی ایک نیک وجود تھیں۔ دونوں میاں بیوی کی بیعت کا ذکر اخبار بدر 29؍اگست 1907ء میں موجود ہے۔ حضرت نور فاطمہ صاحبہؓ نے اواخر 1911ء میں وفات پائی۔ آپؓ ایک متقی اور دیندار اور عالمہ عورت تھی۔ وفات سے چند منٹ پہلے الحکم کی اعانت کی وصیت کی۔
…………………
محترم میاں محمد یٰسین صاحب گو کہ صحابہ میں شامل نہ تھے لیکن بڑے مخلص احمدی تھے۔ آپ اصل میں سہارنپور کے رہنے والے تھے لیکن اپنے کاروبار کے سلسلے میں کوہ منصوری (بھارت) میں اپنے بھائی مکرم میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب کے ساتھ مقیم تھے جہاں آپ بھائیوں تک احمدیت کا پیغام حضرت سید عزیز الرحمن صاحب آف بریلی (وفات17جولائی 1936ء )کے ذریعے پہنچا اور خلافت اولیٰ کے زمانے میں احمدیت قبول کرلی۔
جب آپ بھائیوں نے احمدیت قبول کی توبہت دکھ دیے گئے حتیٰ کہ والد صاحب نے جائداد سے عاق کردینے کی دھمکی بھی دی لیکن آپ احمدیت پر مضبوطی سے قائم رہے۔ پھر آپ اپنے بھائی کے ہمراہ ہجرت کرکے قادیان چلے آئے اور یہاں 27؍فروری 1911ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔