اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت – حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کی بیعت خلافت ثانیہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جون 2000ء میں محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے نانا یعنی حضرت مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں تحریر فرمایا:
’’حبّی فی اللّہ مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اس وقت لدھیانہ میں میرے پاس موجود ہیں۔ محض ملاقات کی غرض سے پشاور سے تشریف لائے ہیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادار اور مخلص ہیں اور لَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لآئِم میں داخل ہیں۔ جوش ہمدردی کی راہ سے دو روپے ہی ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد للّہی راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں‘‘۔
1896ء میں حضور علیہ السلام نے اپنے 313 خصوصی اصحاب میں بھی آپؓ کو شامل فرمایا اور صدرانجمن احمدیہ کے ابتدائی ممبران میں بھی آپؓ کا تقرر فرمایا۔ اسی طرح اپنے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا رشتہ بھی آپؓ کی بیٹی سے تجویز فرمایا جسے آپؓ نے باعث سعادت سمجھا۔
حضرت مولوی غلام حسن صاحبؓ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کی وفات پر غیرمبائعین میں شامل ہوئے اور کئی سال کے بعد پھر خلافت سے وابستہ ہوگئے۔ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1942ء میں مَیں نے باتوں باتوں میں نانا جان سے پوچھا کہ آپ قریباً تیس سال علیحدہ رہے ، اب کس طرح بیعت کرلی؟۔ آپ ؓ فرمانے لگے:
’’مَیں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کو ردّ نہیں کرسکتا۔ ہم جب علیحدہ ہوئے تو جماعت میں زیادہ بااثر اور معتمد شمار ہوتے تھے۔ پھر اپنا ہیڈکوارٹر لاہور چنا جہاں لوگوں سے ملنے یا ان کو بلانے کی بڑی سہولت تھی کیونکہ وہ اہم شہر تھا اور صوبہ کا دارالخلافہ۔ ادھر قادیان جانے کیلئے خاص مشقّت کرنا پڑتی تھی۔ ریلوے سٹیشن گیارہ میل کے فاصلہ پر تھا اور یکوں پر سفر تین گھنٹوں سے زائد کا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے جو عقیدہ پیش کیا وہ بہت نرم تھا یعنی یہ کہ حضرت مرزا صاحب کو صرف مجدّد مان لو۔ لیکن اس کے باوجود ہم دن بدن کمزور اور تعداد میں کم ہوتے گئے لیکن خلافت سے وابستہ حصہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔ مَیں نے سمجھا کہ میری سمجھ کا قصور ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی‘‘۔
محترم صاحبزادہ صاحب نے بتایا کہ نانا جان نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ بعض مسائل مجھ پر ابھی صاف نہیں، کیا ان میں اختلاف رکھتے ہوئے مَیں بیعت کرسکتا ہوں؟۔ حضورؓ نے جواباً فرمایا:
’’ہاں، آپ بیعت کرسکتے ہیں لیکن اختلافی مسائل کی جماعت میں تشہیر کی اجازت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سے فتنہ کا دروازہ کھلتا ہے۔ آپ دعا کریں، مَیں بھی دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ وہ مسائل بھی آپ پر حل کردے‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
مضمون نگار تحریر کرتے ہیں کہ 1999ء میں کولمبس (امریکہ) میں غیرمبائعین کا جو سالانہ جلسہ منعقد ہوا اُس میں کُل اڑتالیس آدمی شامل ہوئے جو مختلف ممالک اور علاقوں سے آئے تھے۔ اس کے برعکس جماعت مبائعین کے سالانہ جلسوں میں جو دنیا کے کئی ممالک میں منعقد ہوتے ہیں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔ پھر لاہور کی احمدیہ مساجد میں ہزارہا احمدی نماز جمعہ کے لئے حاضر ہوتے ہیں جبکہ غیرمبائعین کی حالت جو حضرت مولوی غلام حسن خان صاحبؓ نے پچاس سال پہلے بیان کی تھی، اب اُس سے بھی کہیں کم تر دکھائی دیتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں