بھیرہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے کوہستان نمک کے دامن میں دریائے جہلم کے کنارے پر ایک قدیم قصبہ بھیرہ آباد ہے۔ ایک مؤرخ کے مطابق اس کا نام راجہ بھدراسین کے نام پر بھدروی نگر یا بھدرواتی نگر تھا۔ العتبی نے اس کا ذکر بَتْیَہ یا بھدیہ کے نام سے کیا ہے۔ سکندراعظم کے وقت میں یہ جگہ درختوں سے گھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے یونانیوں نے اسے پیرہ کہنا شروع کردیا اور فوجی پڑاؤ کی وجہ سے یہاں ایک بستی آباد ہوگئی جو پیرہ کہلائی اور آخر بھیرہ کے نام سے موسوم ہوگئی۔ چینی سیاح فاہیان نے اس کا ذکر بھیدہ کے نام سے کیا ہے۔ اس کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نواح میں Gracco Bactrian اور Indo-Scytnic عہد کے سکے بھی برآمد ہوئے ہیں۔
پہلے بھیرہ دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ 1519ء میں بابر نے اس پر حملہ کیا اور اپنی کتاب میں یہاں کے قلعہ کا نام ’’جہاں نما‘‘ لکھا۔ Ancient Geography of India کے مطابق بھیرہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس کے معنی ہیں دارالامن۔ موجودہ بھیرہ دریا کے مغربی کنارے پر آباد ہے جسے شیرشاہ سوری نے 1540ء میں ایک مسجد اور کسی ولی اللہ کے مزار کے گرد تعمیر کیا۔ 1775ء میں احمد شاہ ابدالی کے سپہ سالار نورالدین نے بھیرہ پر حملہ کرکے اسے تاراج کردیا۔
یہ علاقہ قدیم سے عظیم لشکروں کی گزرگاہ رہا ہے۔ آریہ قوم بھی یہاں سے گزری، سکندراعظم اور مشرقی ایشیا کی دیگر حملہ آورقوموں کے قدم بھی یہاں پڑے۔ آریہ قوم کی آمد سے قبل بھیرہ پنجاب میں ایک عظیم تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ کے عہد مبارک میں مسلمان یہاں پہنچے۔ حضرت عثمانؓ کے دَور میں مسلمانوں نے یہاں اپنا تجارتی مستقر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک تبلیغی مرکز بھی قائم کردیا تھا۔
بھیرہ کی تاریخی شاہی مسجد شیرشاہ سوری نے تعمیر کروائی تھی جو اعلیٰ اور خوبصورت فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ مغلوں نے بھی اس تاریخی شہر کو بہت رونق بخشی لیکن سکھ گردی کے پُرآشوب دَور میں بھیرہ کی رونق بالکل غارت ہوکر رہ گئی۔ اسی دَور میں اس سرزمین میں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے جنم لیا جنہوں نے احمدشاہ ابدالی کے سپہ سالار نورالدین کے برعکس بھیرہ کے نام اور مقام ، دونوں کو ہمیشہ کے لئے تابندہ کردیا۔ بھیرہ سے تعلق رکھنے والے دیگر اصحابِ احمدؑ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ، حضرت مفتی فضل الرحمن صاحبؓ، حضرت مولوی دلپذیر صاحبؓ (جن کی پنجابی تالیفات آج بھی پنجابی فاضل اور ایم۔اے کے نصاب میں شامل ہیں)، حضرت جمعہ خان صاحبؓ، اور حضرت قریشی نجم الدین صاحبؓ شامل ہیں۔ حضرت جمعہ خان صاحبؓ لکڑی کی نقش نگاری کے بہت بڑے کاریگر تھے۔ انہوں نے دو دروازے ایک ہی طرز کے بنائے تھے جن میں سے ایک آج لاہور کے عجائب گھر میں موجود ہے اور دوسرا مسجد نور بھیرہ میں اُس کمرہ میں داخل ہونے کیلئے لگاہوا ہے جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ پیدا ہوئے تھے۔
بھیرہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ارشاد پر آپؓ کی آبائی مسجد تنازعہ پیدا ہونے کے بعد غیراحمدیوں کو دیدی گئی تھی اور حضورؓ کے آبائی مکان کو احمدیہ مسجد نور بنالیا گیا تھا۔ یہاں حضورؓ کی یادگاروں کو قائم رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کے پہلو میں ایک تنور ابھی تک موجود ہے جہاں سے حضورؓ کے گھر روٹیاں لگ کر جاتی تھیں۔ جب حضورؓ کی مخالفت بھیرہ میں اتنی بڑھ گئی کہ لوگوں نے بائیکاٹ کردیا تو تندور والے پر بھی دباؤ ڈالا گیا لیکن وہ بڑی جرأت کے ساتھ حضورؓ کو روٹیاں لگاکر دیتا رہا۔ حضورؓ کے آبائی مکانات اور دیگر جگہوں میں سے اکثر جماعت کی ملکیت ہیں۔ پہلے اس علاقہ میں کوچہ حکیم نورالدین کی تختی تین جگہ آویزاں تھی جو بعد میں ہٹادی گئی۔ حضورؓ کے ہسپتال کے طور پر تیار کی جانے والی عمارت اب تارگھر کے طور پر استعمال ہورہی ہے اور ہسپتال کی پرانی عمارت پہلے پرائمری سکول کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور بعد میں گوداموں کی شکل اختیار کرگئی۔
بھیرہ کے بارہ میں مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب کا یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍مئی 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں