تجارت اور دیانتداری

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جون 2003ء میں حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے بیان فرمودہ چند دلچسپ واقعات (مرتبہ: مکرم خواجہ عبدالعظیم صاحب) شامل اشاعت ہیں۔
حضرت شیخ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میرے ایک غیراحمدی دوست عبدالمجید صاحب گوشت بہم پہنچانے کے ٹھیکیدار تھے۔ ایک بار انہوں نے پانچ سو بھیڑوں کا سودا بھیڑوں کے مالک کے ایجنٹ سے کرلیا اور بیعانہ بھی دیدیا۔ جب اصل قیمت لے کر گئے تو مالک نے سودے کو فسخ کرتے ہوئے کہا کہ ایجنٹ نے دیانتداری نہیں برتی کیونکہ بھیڑوں میں مری کی بیماری پھیل چکی ہے اور چند دن میں ان کا مر جانا یقینی ہے اس لئے دیانتداری کے خلاف ہے کہ مَیں آپ سے قیمت وصول کروں۔ عبدالمجید صاحب کا بیان تھا کہ وہ اس تاجر کی دیانتداری پر حیران رہ گئے اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تاجر احمدی تھا۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے بمبئی سے ایک کتاب منگوائی اور آٹھ روپے بارہ آنے VP کے ادا کردیئے۔ دو سال بعد کتب فروش نے مجھے بارہ آنے بھجواتے ہوئے لکھا کہ حساب آڈٹ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ سہواً بارہ آنے زیادہ وصول ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کلکتہ کی بٹرورتھ کمپنی سے قانون کی ایک کتاب 1924ء میں سولہ روپیہ میں منگوائی تو 1937ء میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں سولہ صفحات کا جزو غلطی سے نہیں لگایا گیا اور وہ صفحات موجود ہی نہیں۔ کمپنی کو لکھنے پر انہوں نے ایک نئی کتاب میں سے وہ ورق نکال کر مجھے بھیج دیئے کہ کمی کو پورا کرلوں۔ حالانکہ اس طرح نئی کتاب کا ضائع ہوجانا یقینی تھا۔
مزید فرماتے ہیں کہ مدراس کی ایک انگریز فرم P.R & Sons جواہرات کا کاروبار کرتی تھی۔ کسی نے فرم سے 50 روپے کا مال منگوایا لیکن قیمت ادا نہ کی۔ فرم نے میرے ذریعہ اُس بددیانت گاہک سے پچاس روپے وصول کرنے کیلئے کئی گنا زیادہ رقم خرچ کی لیکن اپنا اصول نہیں توڑا کہ ’’نہ ہم بددیانتی کرتے ہیں اور نہ بددیانتی کو برداشت کرسکتے ہیں‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں