جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

عبادات کے بغیر ایک احمدی کی زندگی نامکمل ہے۔ جس گھر میں عورتیں عبادت کے لئے اپنی راتوں کو زندہ کرنے والی ہوںگی اور اپنے مَردوں اور بچوں کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہوں گی وہ گھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔
لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں ۔ تبلیغ کے بہت سے ذرائع ہیں جو آپ اپنے حالات کے مطابق اگر سنجیدگی سے سوچتے ہوئے نکالنے کی کوشش کریں تو نکل آئیں گے ۔
ہر احمدی کے دل میں، ہر مرد اورہر عورت کے دل میں ایک درد ہو، ایک لگن ہو کہ ہم نے اس چھوٹے سے برّاعظم کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں لاناہے۔
ایک نیک اور دیندار خاتون کی یہی خواہش ہونی چاہئے کہ سب سے پہلے اُس کا خدا اس سے راضی ہو اور پھر یہ کہ اپنے خاوند کی ذمہ داریاں نبھا کر اسے خوش کرے اور پھر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دے اور ان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور جماعت اور خلافت سے اخلاص و وفا کا رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ جس گھرمیں یہ چیز پیدا ہو جائے وہ گھر کبھی ضائع نہیں ہوتا۔

(جلسہ سالانہ آسٹریلیا کے موقع پر 15؍اپریل2006ء کو
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا مستورات سے خطاب )

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

پہلے میرا خیال تھا کہ عورتوں سے، لجنات سے یہاں علیحدہ جلسے پر خطاب نہیں ہوگا کیونکہ بہت تھوڑی تعداد ہے لیکن پھر امیر صاحب نے جو پروگرام لکھ کر بھیجا اس میںیہ بھی تھا کہ عورتوں سے علیحدہ خطاب بھی کیا جائے تو ان کی بات مانتے ہوئے کہ یہاں میرا پہلا دورہ ہے اوریہ صرف ایک ملک ہی نہیں بلکہ براعظم بھی ہے اس لئے چند باتیں چند منٹ کروں گا۔ لیکن حاضری کا جو میرااندازہ تھا اللہ کے فضل سے اس سے کافی زیادہ حاضری ہے لیکن اس کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بس اتنی ہوگئی ہے کہ اب بہت تسلی ہوگئی۔ ابھی بھی آپ مسجد کے ہال میں سب آگئی ہیں۔ آپ کو تو بہت بڑی مارکی باہر لگانی چاہئے۔ اس لئے حاضری بہرحال بڑھانی پڑے گی اور اسی ضمن میں مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ اگر آپ کی اتنی ہی تعداد رہی تو شاید علیحدہ خطاب نہ ہو۔ اس لئے تعداد بڑھانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے مختلف ذرائع ہیں اور تبلیغ جو ہر احمدی کا کام ہے اُس میں آپ کو بھی اپنے آپ کو involve کرنا چاہئے، شامل ہونا چاہئے۔ اس کے پروگرام بنائیں، لوگوں کو اسلام کے محاسن اور خوبیاں بتائیں، اپنی حالتوں میں عملی تبدیلیاں پیدا کریں۔ جب یہ عملی تبدیلی پیدا کریں گی تو ایک طبقہ جس سے آپ کا واسطہ ہے خودبخود آپ کی طرف کھنچا چلا آئے گا۔ انشاء اللہ۔
یہاں مَردوں کی طرح عورتوں میں بھی دو قسم کے طبقات ہیں۔ مردوں میںتو شایدایسے طبقے کی تعداد بہت تھوڑی ہو جو باہر نہ نکلتے ہوں اور اپنے ماحول میں کسی قسم کی واقفیت نہ رکھتے ہوں یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے اپنا مدّعا صحیح طور پر نہ بیان کر سکتے ہوں لیکن عورتوں میں جو خاص طور پر بڑی عمر کی عورتیں ہیں ان کی تعدادجو اسائلم وغیرہ کے لئے یہاں آئیں میرے خیال میں کافی زیادہ ہے ۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کو یہاں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور اس وجہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا اسائلم وغیرہ کے لئے آئیں ان کو زبان کے اختلاف کی وجہ سے اپنا مدّعا دوسروں تک پہنچانے میں دِقّت ہے ۔ اگر کچھ علم بھی ہے تو صحیح طرح اپنا مؤقف پیش نہیں کرسکتیں ۔
بہرحال ایک تویہاں کی ایسی عورتیں جن کا مَیں نے ذکر کیا کہ صحیح طرح اپنا مؤقف بیان نہیں کرسکتیں وہ یہاں کی بڑی بوڑھی عورتوں سے تعلق پیدا کریں، رابطے پیدا کریں، اس سے گو کچھ عرصے تک دِقّت تو ہوگی لیکن آہستہ آہستہ یہ اعتماد پیدا ہو جائے گا کہ کس طرح بات کرنی ہے۔ پھر کوئی لٹریچر دے کر یا کوئی کیسٹ دے کر، اپنے فنکشنز میں بلا کر ان سے رابطے بڑھاتی چلی جائیں۔ اور یہ دوستیاں جو ہیں پھر بڑھیں گی، پھر آگے مزید راستے بھی کھلیں گے۔ دنیا میں کئی جگہ لوگوں نے زبان نہ جاننے کے باوجود لٹریچر سے، کیسٹ سے ایسے رابطے پیدا کئے جو بعضوں کے لئے قبول احمدیت کا باعث بنے تو اس طرح سے کیسٹ سے اور لٹریچر سے، چاہے زبان نہ بھی آتی ہو، کم از کم آپ کی طرف سے احمدیت کا پیغام تو ہرجگہ پہنچ جائے گا۔
دوسرا طبقہ یہاں کا ،یہاں کی پلی بڑھی بچیاں ہیں یا پڑھی لکھی عورتیں ہیں، ان کو تو زبان کی آسانی ہے۔ لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں۔ بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹر نیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں۔ مردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کہا تویہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے۔ پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں۔ اپنے بار ے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا۔ اگر آپ لوگوں کا رکھ رکھاؤ اور طور طریق دوسروں سے مختلف نظر آتے ہوںگے تو خود بخود آپ کی یونیورسٹیوں اورکالجوں کی جو سلجھی ہوئی طالبات ہیں وہ آپ کی طرف توجہ کریں گی اور یوں بات کا سلسلہ چل پڑے گا۔ اگر آپ کے بیگوں میں، ہر لڑکی نے بیگ اٹھایا ہوتا ہے اور کافی بڑے بڑے بیگ ہوتے ہیں، کوئی چھوٹا ساجماعتی لٹریچر ہو، چھوٹی سی کتاب ہو اور جہاں آپ فارغ ہوں گی اس کو نکال کر اپنے سامنے رکھ لیں۔ جوبعض سنجیدہ طالبات ہیں ان کے لئے یہ بات توجہ طلب ہوگی اور وہ آپ کو کتاب پڑھتے دیکھیں گی تو یہ چیز بات آگے بڑھانے والی ہوگی ۔ اگر کتاب میز پر پڑی ہوگی اسے دیکھنے کی کوشش کریں گی ،گو کہ یہاں کے رواج کے مطابق عموماً توجہ کم دی جاتی ہے لیکن پھر بھی جو قریبی سہیلیاں ہوں ان کی نظر تو بہرحال پڑ جاتی ہے۔غرضیکہ تبلیغ کے بہت سے ذرائع ہیں جو اگر آپ اپنے حالات کے مطابق سنجیدگی سے سوچتے ہوئے نکالنے کی کوشش کریں تو نکل آئیں گے ۔
تعداد بڑھانے کا ایک ذریعہ نسل بڑھانے سے ہے جو اللہ کے فضل سے جماعت میں چل ہی رہا ہے ۔ اللہ کرے سب بچیوں کی شادیاں ہوجائیں اور ان کو نیک سلجھے ہوئے خاوند بھی مل جائیں جو احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں تو دونوں مل کر جہاں پُرسکون زندگی بسر کرنے والے ہوں وہاں دین کی خدمت کے مواقع بھی ان کو ملتے رہیں اور تبلیغ کے کام کو بھی آگے بڑھانے والے ہوں اور آئندہ نسلوں میں بھی احمدیت کی جاگ لگتی چلی جائے۔ہر احمدی کے دل میں، ہر مرد اور ہر عورت کے دل میں ایک درد ہو، ایک لگن ہوکہ ہم نے اس چھوٹے سے برّاعظم کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں لانا ہے۔اور اگر ہماری عورتیں اور بچیاں یہ پختہ ارادہ کرلیں تو انشاء اللہ تعالیٰ تھوڑے عرصہ میں آپ دیکھیں گی کہ کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی۔اور آپ لوگوں کے active ہونے کی وجہ سے یعنی عورتوں کے activeہونے کی وجہ سے آپ دیکھیں گی کہ مرد بھی میدان عمل میں اتر آئیں گے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ذیلی تنظیموں اور خاص طور پر لجنہ کی تنظیم کو اس لئے جاری فرمایا تھاکہ اگر جماعت کا ایک طبقہ سُست ہے تو دوسرا طبقہ اپنے کام میں فعّال اور تیز ہوجائے اور جماعتی ترقی کے کام کبھی رکنے نہ پائیںاور جب جماعت کے تمام طبقات فعّال ہوجاتے ہیں،کام کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔ پس اب وقت ہے کہ آ پ عورتیں ایک نئے عزم کے ساتھ جماعتی خدمات میں جُت جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی سنّت اور حکم ہے کہ یہ سب کچھ جیسے کہ مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں بغیر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہو نہیں سکتا ۔اس لئے اس کے فضل کو سمیٹنے کے لئے آپ کو اپنا شمار عابدات میں بھی کروانا ہوگا اور عابدات ہونے کے لئے جیسا کہ مَیں نے کل کے خطبے میں بھی کہا تھا اپنی نمازوں کی حفاظت اور ان کو سنوار کر ادا کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ گو کہ مَیں یہاں عبادت کی بات دوسرے نمبرپر کر رہا ہوں لیکن اصل میں سب سے اوّل عبادت ہی ہے اور ہمارا تو اصل سہارا اللہ ہی ہے اور ہم نے ہمیشہ اُسی سے مدد لینی ہے ۔ پس جب آپ کا شمار عابدات میں ہوجائے گا تو آپ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو اپنے اوپر اترتا دیکھیں گی، آپ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کی وارث بنیں گی جب کہ اس کے بغیر آپ کی تمام کوششیں بے فیض ہوں گی، کسی پھل کے بغیر ہوں گی ۔
پس اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے، تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اپنے آپ کا شمار عابدات میں کروائیں۔ ایسی عورتوں میں کروائیںجو عبادت کرنے والی عورتیں ہوں۔ کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ عبادات کے بغیر ایک احمدی کی زندگی نا مکمل ہے۔ آپ میں سے بہت سی اپنے ملک کے نامساعد حالات کی وجہ سے، تکلیف دہ حالات کی وجہ سے، تنگی کی وجہ سے یہاں آئی ہیں اور یہ نامساعد اور تکلیف دہ حالات جیساکہ مَیں کل خطبہ میں ذکر کرچکا ہوں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کوماننے کی وجہ سے پیش آئے ہیںاس لئے ہر روز جو آپ پر طلوع ہو اور ہر دن جو چڑھے آپ کے ذہن میں یہ بات بٹھاتے ہوئے طلوع ہوکہ اس ملک میں امن سے زندگی گزارنے کا اللہ تعالیٰ نے جو موقع ہمیں دیا ہے یہ اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ ہم اپنے ہر دن کا آغاز خدا کی عبادت سے کریں اور اُس کے نام سے کریں اور حقیقی طور پر عبادت گزار بن جائیں۔ اور پھر سارا دن اس کا احساس اگر آپ کے ذہنوں میں رہے تو اس سے آپ کی زندگیاں سنور جائیں گی۔
اپنے بچوں کو بھی یہ باور کروادیں اور اُن کے ذہنوں میں بھی یہ ڈال دیں کہ آج جو تم پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہورہے ہیں، آج جو تم اعتماد کی زندگی گزار رہے ہو یہ سب خدا کے فضلوں کی وجہ سے ہے۔ ہماری اپنی کوشش، اپنی کاوش کا اس میںکوئی دخل نہیں ہے اور اب ان فضلوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس خدا کے سامنے جھکنے والے، اس کا شکر ادا کرنے والے بن جائیں اور اس کی عبادت کرنے والے بن جائیں اور ایک عورت ماں کے ناطے بچوں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے، اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ۔ بچپن میں بچے باپ کی نسبت ماں سے زیادہ attachہوتے ہیں۔ تو اگر ابتدا سے ہی اپنے عمل سے اور اپنی باتوں سے بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کردیں، بٹھادیں تو نسلاً بعد نسلٍ عبادت گزار پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور نتیجتاً احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والوں کی ایک کے بعد دوسری فوج تیار ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیںاچھے حالات کی وجہ سے پہلے کے گزارے ہوئے تنگی کے دنوں کو زیادہ جلدی بھول جاتی ہیں اور یہ عورت کی فطرت ہے اور اس کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ایک احمدی عورت کو چاہئے کہ اپنی ترجیحات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں۔ اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے ۔
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا باب استجاب صلاۃ النافلۃ…،حدیث1823دارالکتاب العربی بیروت 2008ء)
پس اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ بجائے اس کے آپ کے خاوند آپ کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوںکے لئے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں ۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر خاوند صبح اٹھے نماز کے لئے جاگے تو بیوی کو جگائے ۔اگر وہ نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ اور اگر بیوی پہلے جاگنے والی ہو تو خاوند کو جگائے۔ اگر وہ نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے تاکہ وہ نماز کے لئے جاگ جائے۔
(سنن ابی داؤد کتاب قیام اللیل باب قیام اللیل حدیث 1308 دارالمعارف الریاض)
پس اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے اور اپنے گھر والوں کو نماز کی طرف توجہ دلانے کی ذمہ داری صرف مرد کی نہیں ہے بلکہ عورت کی بھی ہے اور عورت پراپنے بچوں کے نگران ہونے کی وجہ سے ان کے جگانے کی ذمہ داری بھی ہے اورنمازوںکے لئے ان کو توجہ دلانے کی ذمہ داری بھی ہے۔ پس جس گھر میں عورتیں عبادت کے لئے اپنی راتوں کو زندہ کرنے والی ہوں گی اور اپنے مردوں اور بچوں کوعبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہوں گی وہ گھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک بن جائے گا۔ پس یہ آپ کی نیکیاں ایسی نیکیاں ہیں جو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہونے والی نیکیاں ہیں۔ اور آپ کو جہاں ان نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہوگا جہاں یہ نیکیاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنارہی ہوں گی اور قرب میسر کر رہی ہوں گی وہاں آپ کے گھریلو ماحول کو بھی آپ کے لئے جنت نظیر بنارہی ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض عورتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو رہے ہوں گے کہ جوخاوند ہیں وہ ہم پر توجہ نہیں دیتے۔ کافی عورتوں کو شکوے ہوتے ہیں۔ ایک احمدی مرد خدا تعالیٰ کا کچھ نہ کچھ خوف بہرحال اپنے دل میں رکھتا ہے۔وہ آپ کی عبادتوں کو دیکھتے ہوئے، دل میں خدا کا خوف رکھتے ہوئے حُسن سلوک کی طرف متوجہ ہوگا۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے دعا کو سن کر اس کا جودل پھیرنا ہے وہ تو پھیرنا ہے، آپ کے عمل بھی اس دل کو پھیرنے والے ہوں گے ۔ ایک نیک اور دیندار خاتون کی یہی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ سب سے پہلے اس کا خدا اس سے راضی ہو اور پھریہ کہ اپنے خاوند کی ذمہ داریاں نبھاکر اسے خوش کرے اور پھر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دے اور ان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور جماعت اور خلافت سے اخلاص و و فا کا رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کرے اور ان کوتلقین کرتی رہے۔ کیونکہ جس گھر میں یہ چیز پیدا ہوجائے وہ گھر کبھی ضائع نہیں ہوتا ۔
پس یاد رکھیں کہ احمدی معاشرے کا ہر گھر، اور ہر گھر کا ہر فرد جماعت کا ایک اثاثہ ہے، ایک asset ہے اور کوئی عقلمند شخص یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کا اثاثہ کبھی ضائع ہو، اس کا مال کبھی ضائع ہو، اس کے گھر کا سامان لٹ جائے۔ اور جس قدر زیاد ہ قیمتی جائیداد ہوگی اسی قدر زیادہ اس کی حفاظت کا سامان کیا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ میں اسی اصول کے تحت کہ جماعت کا اثاثہ اور نہایت قیمتی assetجماعت کا ہر فرد ہے، ہر عورت ہے، ہر بوڑھا ہے، ہر بچہ ہے، اس کی تربیت کا سامان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ یہ قیمتی سرمایہ ضائع نہ ہوجائے۔ اور اسی لئے ہر طبقے کی علیحدہ تنظیم قائم ہے تاکہ ہر سطح پر تربیت کا انتظام ہو۔ ہر عمر اور ہر طبقے کا احمدی اپنے آپ کو جماعت کا فعّال حصہ سمجھے اور قیمتی سرمایہ خیال کرے ۔ہر سطح پرجماعتی نظام کو سنبھالنے کی ہر ایک میں اہلیت و قابلیت پیدا ہو۔ لیکن سب سے اہم ذمہ داری انتہائی بنیادی اکائی ہونے کی وجہ سے، انتہائی بنیادی یونٹ ہونے کی وجہ سے عورت کی ہے جس کے ہاتھ سے بچے پل کر جوان ہوتے ہیں، ایک نسل پل کر نکلتی ہے۔ اس لئے گھر کی سطح پر اگر ایک نیک عورت، ایک پکّی احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے فرائض کی بجا آوری کرے تو وہ بچے جو ایسی ماؤں کے ہاتھوں سے پل کر عملی زندگی میں آتے ہیں ہمیشہ عبادتگزار اور جماعت سے اخلاص و وفا رکھنے والے بچے ہوتے ہیں۔ اور جن گھروں میں(گھروالے) بے شک نمازیں بھی پڑھ رہے ہوں لیکن جماعتی عہدیداروں پر اعتراض ہو ں، جماعت کے بعض معاملات discuss ہوتے ہوں، بلاوجہ کی باتیں کی جاتی ہوں وہاں پھر آہستہ آہستہ جماعت سے بھی دُوری پیدا ہوجاتی ہے اور خلافت سے بھی دُوری پیدا ہوجاتی ہے۔
عورت کے اس اہم مقام کا احساس دلانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن حدیث 893دارالکتاب العربی بیروت 2004ء)
جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو۔ کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہواور روحانی نقصان بھی نہ ہو ۔ اُس کے پیسے کا بے جا استعمال نہ ہو کیونکہ بے جا استعمال،اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کردیتا ہے۔ عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں۔ خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہے۔ اور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے، اس قرضے کی وجہ سے جب بے سکونی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو فکروں میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور اگر اس کی طبیعت صبر کرنے والی بھی ہے تو پھرمریض بن جاتا ہے۔ کوئی شوگر کا مریض بن گیا، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا۔ اگر خاوند نہیںمانتا تو بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے رویہّ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔لیکن اگر آپ نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ تو آپ کسی قسم کا مریض بن رہی ہوں گی، نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے۔ اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت توُ تکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنارہی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے، جنت نظیر ہونا چاہئے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے جہنم کا نمونہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے۔ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہوتی ہے۔ اس معاشرے میں سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور معاشرہ کیونکہ بالکل آزاد ہے اس لئے بعض بچے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں۔تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کی، اس کے مال اور بچوں کی نگران بنائی گئی ہے، اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کو لٹوانے کا سامان کر رہی ہوتی ہے۔
پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے۔ ان باتوں سے عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ تمام ذمہ داریاں صرف عورتوں پر ہیں اور مرد آزاد ہوگئے ہیں۔مَردوں کے لئے بھی یہی احکام ہیں۔اس وقت مَیں کیونکہ آپ عورتوں سے مخاطب ہوں اس لئے خاص طور پر آپ کو توجہ دلارہا ہوں۔ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو مخاطب کرکے بھی فرمایا ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت کے وہ بھی ذمہ وار ہیں۔ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکے۔
(سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی ادب الولد حدیث 1951دار المعرفۃ بیروت 2002ء)
پس یہ تربیت کرنا باپوں کی بھی ذمہ داری ہے اور ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اور جب تک باپ اپنے عملی نمونے قائم نہیں کریں گے اس وقت تک وہ تربیت نہیں کرسکتے۔
پس آپ دونوں اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور مرد ہو یا عورت وہ سب ذمہ دار ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بچپن سے بچے کیو نکہ زیادہ وقت عورت کے پاس رہتے ہیں ،ماں کے پاس رہتے ہیں اس لئے اس اچھی تربیت کی وجہ سے جوایک ماں اپنے بچوں کی کرتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو یہ خاص مقام عطا فرمایا ہے جو فرمایا کہ ’’ جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔
(کنزالعمال جلد 8جزء 16 صفحہ 192 کتاب النکاح / قسم الاقوال، الباب الثامن فی بر الوالدین، الام حدیث 45431 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء )
یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کے بچوں کو اس دنیا میں بھی جنت کا وارث بنا سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔بچوں کے یہ عمل اور آپ کے بچوں کی یہ اعلیٰ تربیت ہی ہے جو ہر وقت بچو ں کو خدا سے جوڑے رکھے گی۔ اور بچوں کو بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی عادت پڑے گی۔ تو بچوں کی جو آپ کے لئے دعائیں ہیں وہ آپ کو بھی اگلے جہان میں جنت کے اعلیٰ درجوں تک لے جانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔
پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں۔ آج اگر آپ اپنی ذ مہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہوا آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں انشاء اللہ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی۔ پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ہمیشہ نیکیاں بجا لانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں۔ برائیوں کو ترک کرنے والی بنیںاور پھر اپنے ماحول میںبرائیوں کو روکنے والی بنیں۔ معاشرے میں بھی برائیاں پھیلنے نہ دیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں۔اگر آپ کے دل میں بغض و کینے پلتے رہے توپھرخدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اترتا۔ ایسے دلوں کی عبادت کے معیاروہ نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام نے تو فرمایا ہے کہ تمہاری دعا اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک کہ دشمن کے لئے بھی دعا نہ کرو۔ اس کے لئے بھی تمہارا سینہ صاف نہ ہو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 96)
پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنی رنجشوں کو دور کرنا اور صلح اور صفائی کی فضا پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمیشہ عاجزی دکھانے والی بنی رہیں۔ کبھی ایک دوسرے پر کسی قسم کی بڑائی جتانے کی کوشش نہ کریں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی جماعت میں شامل ہوکر عاجزانہ راہوں کو اختیار کریں گی تو اللہ تعالیٰ کی محبوب بنیں گی۔ ہمیشہ اپنے اندر قناعت پیدا کریں ۔کسی دوسرے کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھ کر کبھی بے صبری پیدا نہ ہو۔ہاں دوسرے کی نیکیوں پر ضرور رشک کریں اورخود بھی نیکیوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن نا شکری اور بے صبری کبھی نہ دکھائیں۔ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بندیاں بنی رہیں۔ اور یہ شکر گزاری (اگر بنی رہیں گی تو) آپ کو اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنائی گی۔ پس ہمیشہ اپنے اندر قناعت پیدا کئے رکھیں اور حسد اور ناشکرگزاری سے بچیں ۔ جب آپ کے عملی نمونے اور عبادتوں کے معیار قائم ہوں گے تو پھر آپ دیکھیں گی کہ جہاں آپ دنیا کے لئے توجہ کا باعث بن رہی ہوں گی اور اس ذریعے سے تبلیغ کے مواقع حاصل ہورہے ہوں گے وہاں آپ اپنی اس دنیا کو بھی جنت نظیر بنارہی ہوں گی ۔ اپنی نسلوں کو بھی احمدیت پر قائم رکھنے والی بنارہی ہوں گی اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا رہی ہوں گی۔بعض خواتین ملاقات کے دوران اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ اولاد کی طرف سے بڑی فکر ہے خاص طور پر بچیوں کی طرف سے، لڑکوں کی طرف سے بھی بعض حالات میں، کہ یہاں کا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہو۔ تو یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے کہا اگر آپ اپنے عملی نمونے دکھائیں گی، خود بھی نظام سے ،خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں گی اور اپنے بچوں میں اس تعلق کو قائم کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی اور سب سے بڑھ کر خود بھی عبادت گزار رہیں گی اور اپنے بچوں کی نمازوں کی بھی نگرانی کرتی رہیں گی تو اللہ تعالیٰ آپ کی ان فکروں کو دُور کردے گا اور اپنی اولاد کی طرف سے ہمیشہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے گا۔ انشاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو حقیقی معنوں میں اپنی بندیاں بننے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اور آپ کی اولاد ہمیشہ جماعت احمدیہ کا ایک قیمتی سرمایہ بن کر رہیں ۔
اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “جلسہ سالانہ آسٹریلیا 2006ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

  1. السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔۔۔بہت ہی اچھی کاوش ہے یہ خدا تعالیٰ مقبول فرمائے۔ایک چیز درکار ہے کہ موجودہ حضرت صاحب کے دور میں جن نئے ممالک میں جماعت کا پودا لگا ان کے نام درکار ہیں۔

    1. جزاکم اللہ ۔ اس کا بہتر طریق تو یہی ہے کہ براہ راست وکالت تبشیر سے رابطہ کرلیں۔ دوسرا طریق خود تحقیق کرنے کا ہے یعنی حضورانور کی جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز کے خطابات سے مواد اکٹھا کیا جائے۔ لیکن یہ طریق نسبتاً مشکل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں